غریبوں سے چھت نہ چھینیے


تحریک انصاف نے حکومت میں آتے ہی دیگر اقدامات ساتھ ساتھ تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز کر دیا، جس کی ابتداء اسلام آباد کی کشمیر ہائی وے کے گردونواح میں قائم شادی ہالز اور دیگر غیر قانونی عمارتوں کو گرا کر کی گئی۔ کراچی، لاہور، پشاورسمیت بڑے شہروں کے بعد اب شنید ہے کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن کا دائرہ پاکستان کے ہر گاؤں دیہات تک پھیل چکا ہے۔ اب تک کی معلومات کی مطابق حکومت کے اس اقدام سے ملک کا غریب طبقہ بری طرح متاثر ہوا ہے، کیونکہ ان سے رہنے کی چھت ہی چھین لی گئی ہے۔

حکومت تجاوزات کے خلاف جس آپریشن کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہے قانونی لحاظ سے یہ درست اقدام لگتا ہے لیکن نتائج کے اعتبار سے یہ اقدام عوام دشمنی اور اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ تجاوزات کی زد میں آنے والی غیر قانونی عمارتوں میں سے ہزاروں لاکھوں عمارتیں ایسی ہیں جو سالوں پہلے بنائی گئی ہیں، ان کی تعمیر پر کروڑوں روپے کے اخراجات آ چکے ہیں۔

ایسی عمارتوں کو گرانے سے قبل اگر اس بات کا جائزہ لے لیا جائے کہ اس عمارت کو قائم رکھنے میں کیا نقصان ہے اور اسے گرانے سے کیا فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ حکومت نے عوامی فائدے کو سامنے رکھ کر اقدام اٹھایا ہے، مثال کے طور پر ایک عمارت ایسی جگہ پر قائم ہے جو روڈ سے آگے نکلی ہوئی ہے اور نہ ہی لوگوں کو اس سے کوئی تکلیف ہے، قصور صرف اتنا ہے کہ سرکاری زمین پر سالوں پہلے اسے خالی اور ویران سمجھ کر قبضہ کر کے عمارت قائم کر دی گئی ہے، ان لوگوں میں ہزاروں لوگ ایسی بھی ہیں جن کے پاس زمین کے باقاعدہ کاغذات بھی ہیں، اور کچھ زمینیں سینکڑوں جگہ پر متعدد بار فروخت ہو چکی ہیں۔

سرکار کے پاس جب یہ حقائق واضح طور پر سامنے آ جائیں تو اس کا تقاضا ہے کہ ایسی عمارتوں کو گرانے سے گریز کیا جائے اور اس کا حل یہ نکالا جائے کہ مکینوں کو کہا جائے کہ اگر وہ ان زمینوں پر رہنا چاہتے ہیں تو غیر قانونی زمین کو قانونی کرا لیں۔ اس مقصد کے لیے حکومت کی طرف سے چند اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں جن میں عوام کو زمینوں کی قیمت میں رعایت دینا، جس کی قسطیں بھی کی جا سکتی ہیں اور ایک ادارہ قائم کر کے ون ونڈو کی سہولت کے ساتھ آسان پراسس سے گزار کر ایسی زمینوں کو قانونی کیا جا سکتا ہے۔

سرکاری زمینوں پر عوام کے قابض ہونے پر سارا قصور صرف قابضین کا نہیں ہے بلکہ جس ادارے اور افسر نے ایسی زمینوں کے جعلی کاغذات بنا کر دیے، جس کے نتیجے میں برسوں تک غیر قانونی ٹرانسفر ہوتی رہی، ایسے تمام افسران کو کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ اگر عقل و داشن کی بات کی جائے تو قصور وار تو وہ ہے جس نے پہلی بار سرکاری زمین پر قبضہ کیا ہے جب کہ خریدار تو اس سے لاعلم تھا جوعموماً صرف کاغذات کو ہی دیکھتا ہے، اگر جعلی کاغذات کے باوجود ایسی زمینیں ٹرانسفر ہوتی رہی ہیں تو اس میں اصل قصوروار ادارے اور افسران ہیں، پھر سزا صرف عوام کو کیوں؟

اوقاف کی لاکھوں ایکڑ اراضی کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ جس دور میں اوقاف کی زمینیں الاٹ کی گئی تھیں اس دور میں چونکہ باقاعدہ ادارے قائم نہیں تھے اور ٹھوس سسٹم نہ ہونے کی بنا پر ایسا ہوا کہ وڈیروں اور با اثر شاطر لوگوں نے زمینیں اپنے کنٹرول میں لے لیں، اصول تو یہ تھا کہ ایک گھرانے کے صرف سرپرست کو ایک لاٹ الاٹ کی جاتی تھی جس میں ساڑھے 12 ایکڑ ہوتے تھے لیکن وڈیروں نے کمال ہوشیاری سے اپنے گھر کے ہر فرد کے نام پر ایک لاٹ یعنی ساڑھے 12 ایکڑ زمین الاٹ کروائی اس طرح ایک گھرانہ سیکڑوں ایکڑ زمین حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جنہوں نے اپنے ملازمین کے نام پر بھی زمین الاٹ کروائی اور بعد ازاں خود قابض ہو گئے ملازمین اول تو اس سارے معاملے کو سمجھ ہی نہ سکے اور جو سمجھے بھی اپنے مالکوں کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے کوئی آواز نہ اٹھا سکے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت نے جس خرابی کو درست کرنے کا آغاز کیا ہے اس خرابی کی جڑیں ہمارے سماج میں بہت گہری ہیں۔ اگر حکومت خلوص نیت کے ساتھ کچھ کرنا ہی چاہتی ہے اور حکومت واقعی مخلص ہے کہ غریبوں کی دادرسی کی جائے تو اس کا آغا ز غریبوں کے جھونپڑے گرانے سے نہیں بلکہ جس طرح وزیر اعظم نے پی ایم ہاؤس میں نہ رہ کر مثال قائم کی ہے، اسی طرح ہر ڈپٹی کمشنر، کمشنرز اور دیگر حکام بالا سے بڑی بڑی رہائش گاہیں خالی کروا کر ان کا رقبہ کم کیا جائے، کیونکہ ڈپٹی کمشنر کی رہائش گاہ کا رقبہ 35 کنال پر مشتمل ہوتا ہے اس میں 25 کنال تو ہر صورت کم کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح دیگر افسران کی رہائش گاہوں سے بھی زمین کم کی جائے اور باقی بچ جانے والی زمین پر ملٹی اسٹوری بلڈنگ تعمیر کی جائیں جو جگہ کم گھیرتی ہیں اور پوری دنیا میں اسی ماڈل پر عمل ہو رہا ہے، اس طرح اس ماڈل پر عمل کر کے کم جگہ پر لاکھوں لوگوں کو رہنے کے لئے گھر فراہم کیا جا سکتا ہے۔ عوام میں اب یہ تاثر گہر اہوتا جا رہا ہے کہ حکومت ایک طرف ”نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام“ کے تحت عوام کو 50 لاکھ سستے گھر فراہم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے جبکہ دوسری طرف پہلے سے موجود عوام سے خستہ حال چھت کی سہولت بھی چھین رہی ہے تو یہ پچاس لاکھ گھر کیسے فراہم کریں گے۔ ہم سمجھتے ہیں پی ٹی آئی کی حکومت نے تجاوزات کے خلاف آپریشن میں انتہائی عجلت کا مظاہرہ کیا ہے، جس کا نقصان عوام دشمنی اور ان کی طر ف سے بھرپور ردِعمل کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ اگر اسی آپریشن کو مرحلہ وار کر لیا جاتا اوراس کی منصوبہ بندی کر لی جاتی تو شایدعوام کی طرف سے اس قدر ردعمل نہ آتا اور اس کے نقصانات بھی کم ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).