ایک بدمعاش پولیس والا اور کمزور بزرگ


صبح سویرے ہاسٹل سے نکل کر دفتر کے لیے اپنے قریبی میٹرو سٹیشن پر چل پڑا۔ ٹکٹ کاونٹر سے علیک سلیک کے بعد ٹکٹ لیا اور خودکار سیڑھیوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اوپر کی جانب سٹیشن پر جا پہنچا۔ سٹیشن پہ معمول سے آج کچھ زیادہ ہی رش تھا جن میں مختلف عمر کے شہری مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ مختلف سمتوں کی طرف جانے کے لیے تیار کھڑے تھے۔ میٹرو بس کے آنے کی جھلک ابھی تک نہیں دکھائی دے رہی تھی سب کی نظریں بے تابی سے آنے والے راستے کی طرف مرکوز تھیں۔ لیکن بس تھی کہ آنے کا نام و نشان بھی نہیں دے رہی تھی۔ وقت گزر رہا تھا اور ساتھ ساتھ میٹرو سٹیشن پہ عوام کا رش بڑھتا جا رہا تھا۔

وقت بیت رہا تھا۔ ہم نے بھی اپنی نظریں آنے والے راستے پر ٹکا رکھی تھیں۔ آخر کار اللہ اللہ کرتے ہم نے بھی میٹرو بس کو آتے دیکھ ہی لیا اور قریبی داخلی گیٹ تک رسائی کی مشکل سی کوشش کی۔ رش بہت تھا جگہ نہیں مل رہی تھی پر جوں ہی بس کا گیٹ کھلا مخالف سمت سے بھی آنے والے مسافر باہر آنے کے لیے کوشش میں مصروف تھے تو افراد باہر والے اندر جانے کے لیے کھنچا تانی میں لگے ہوئے تھے اس دوران دھکم پہل میں بس کے اندر جگہ بنانے میں ہم بھی کامیاب ہو ہی گئے

بس کا گیٹ بند ہوتے تھا ایک شخص نے طوفان بدتمیزی برپا کر دیا تھا وہ ایک اپنے سے عمر رسیدہ شخص سے بدتمیزی سے اونچی آواز میں کرخت لہجے میں لڑائی کر رہا تھا کہ مجھے دھکا کیوں دیا۔ تم ہوتے کون ہو۔ تم جانتے نہیں تم نے کس کو ہاتھ لگایا۔ تمہیں اس کا مزہ چکھاتا ہوں دیکھ تیرے ساتھ ہوتا کیا ہے۔ سٹیشںن پر تیرا حال کیا ہوتا ہے میں پولیس والا ہوں تم مجھے جانتے نہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے جملوں کا نا رکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔

جبکہ دوسری طرف وہ عمر رسیدہ شخص کہ رہا تھا میں نے دھکا نہیں دیا رش میں لگ جاتا ہے اگر بھول سے ہو بھی گیا تو معذرت چاہتا ہوں میں خود مریض بندہ ہوں نہیں تو تیرے ساتھ چلا جاتا۔

اس جواب کے باوجود بھی وہ صاحب پہ کوئی اثر نہیں پڑا تھا اک دو بار میں نے مداخلت سے بیچ بچاؤ کروانا چاہا لیکن اثر ہی نہیں بس کے تمام مسافر بار بار اصرار کر رہے تھے بھائی کچھ بھی نہیں ہوتا زخمی نہیں ہو گیا تو جو سر آسمان پہ اٹھا رکھا ہے لیکن۔ نہیں اس طرح منع کرنے پر جناب کو اور حوصلہ مل رہا تھا وہ اپنی پولیس گیری پہ مست تھا۔

گاڑی رواں دواں تھی اک نہیں دو نہیں تین سٹیشن گزر چکے تھے لیکن طوفاں بدتمیزی آخری حدود میں داخل ہو چکا تھا بات انتقام تک آ پہنچی تھی۔ کوئی کس طرح تو کوئی کیسے اسے چپ کروانے کی کوشش کر رہا تھا جن کا بس نہیں چل رہا تھا وہ میری طرح منہ میں بندے کی انسانیت اور جاہلانہ رویے پر بڑ بڑا رہا تھا۔

سب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا ایسے میں ایک صاحب اللہ بھلا کرے ان کا مسافروں کو رش کو چیرتے ہوئے اس صاحب کی طرف تیزی سے رواں دواں تھے سب کے چہرے آنے والے لمحات کا جائزہ لے رہے تھے اسی اثناء میں وہ صاحب بدتمیز شخص کے گریبان تک پہنچ چکے تھے اور چلاتے ہوے تھپیڑوں مکوں کی بارش کے ساتھ اس بدتمیز شخص پر چلا رہا تھا جو کرنا ہے کر اس بزرگ کو چھوڑ میرے ساتھ کر میں ایجنسی سے ہوں دکھاتا ہوں تجھے تیری پولیس گیری۔ جبکہ دوسری سائیڈ پہ اب آواز دب رہی تھی اب مسافروں کو بھی حوصلہ مل گیا تھا اور نام نہاد پولیس گیر پر اپنا ہاتھ صاف کرتے ہوئے حصہ ڈال رہے تھے۔ لاتوں مکوں کی بارش نے اس بدتمیز کے ہوش ٹھکانے لگا دیے تھے۔

اس کارروائی کے دوران سٹیشن آ چکا تھا اور سٹیشن آتے ہی گیٹ کا دروازہ کھلنے کی دیر تھی قانون کا نام نہاد رکھوالا پھٹے کپڑوں کے ساتھ بھاگ چکا تھا۔ دروازہ بند ہوا تو مسافروں نے سکھ کا سانس لیا ہر کوئی بڑا بڑا رہا کیسے کیسے جاہل لوگ ہیں ایسوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔

اس شخص کے جانے کے بعد ہزاروں سوچیں دماغ میں چل رہی تھی کہ ایک پولیس والا اتنا جاہل قسم کا بھی ہو سکتا ہے کیا اگر یہ پولیس ہے تو ملزمان یا بے گناہ لوگوں کے ساتھ ان کا رویہ کیسا ہوتا ہو گا؟ کس بنیاد پہ ایسے لوگوں کو عوام کی جان مال کا فرض سونپا جاتا ہے؟ کیا پولیس کا نام سے اب غنڈہ راج نہیں چل رہا؟ کیا ان لوگوں کو کوئی صبر تحمل کا درس نہیں دیا جاتا؟ کیا ان کی اخلاقیات کو نہیں پرکھا جاتا؟ یا پھر لوگوں نے پولیس کے نام پر بدمعاشی شروع کر لی ہے جیسے اکثر ہندی فلموں میں بھائی، دادا، پتا نہیں کون کون سے نام لے کر ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔

اگر انسان کے ساتھ کبھی بھی کچھ برا ہو جائے کسی سے معمولی تکلیف مل جائے تو صبر و تحمل اور معافی کا رویہ اپنانا چاہیے نا کہ اپنے سے کمزوروں پہ رعب جھاڑ اور انتقام تک جانا چاہیے بعض اوقات انسان کتنا بھی بہادر کیوں نا ہو با اختیار کیوں نا ہو بے عزت اور ذلیل ہو ہی جاتا ہے اور عوام کے بیچ ایسے ہی لاتیں مکے کھا کہ بھاگ بھی جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).