آذربائیجان کے دل کی دھڑکن


کسی بھی معاشرے کے تہذیبی مزاج اور مرتبے کو سمجھنے کے لئے میرا اپنا ایک پیمانہ ہے۔ وہ یہ کہ کیا کوئی خاتون تنہا غروب آفتاب کے بعد سڑک پر چلتی دکھائی دیتی ہے۔ یوں بھی، خواتین کا اعتماد اور خوش مزاجی کے ساتھ گھر سے باہر کی مصروفیات میں شامل رہنا معاشرے کی آزادی اور ترقی کی ایک علامت ہے۔ ہاں، نیویارک اور لندن جیسے بڑے شہروں میں بھی کئی علاقے ایسے ہوتے ہیں کہ جہاں خواتین رات کے وقت باہر نکلتے ہوئےہچکچاہٹ اور خوف محسوس کریں۔ لیکن میری نظر میں یورپ اور شمالی امریکہ نہیں بلکہ ترقی پذیر اور بیشتر ایشیائی ممالک ہیں۔ اور اگر میں اپنے مشاہدے کو مسلمان ملکوں تک محدود رکھوں تو اس گفتگو کا ایک خاص رخ متعین ہوجائے گا۔

تو چلئے، میں آپ کو بتاؤں کہ گزشتہ ہفتے میں نے چار دن آذر بائیجان کے دارالحکومت باکو میں گزارے۔ بہت مزہ آیا۔ ایک نئی دنیا سے تعارف ہوا۔ سوویت یونین کے تسلط سے آزاد ہونے والی وسطی ایشیا کی مسلمان ریاستوں سے میری شناسائی بس واجبی سی ہے گو 1998ء میں تاجکستان میں ایک مطالعاتی وفد کے ساتھ تقریباً دو ہفتے گزارے تھے اور بونس میں تاشقند دیکھنے کا موقع بھی ملا تھا۔ آذربائیجان وسطی ایشیا کے مغربی سرے پر، کوہ قاف سے جڑا ایک ایسا ملک ہے جو ترکی کا ہاتھ تھام کر چل رہاہے۔ تیل اور گیس کی دولت کےباعث

کافی حد تک خوشحال بھی ہے۔ اور آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں نے ایک پرامن اور اپنے آپ سے راضی معاشرے کے لئے جو پیمانہ مقرر کیا ہے، یہ اس پر پورا اترتا ہے۔ اور یہ ان مسلمان ملکوں میں سے ایک ہے جنہیں ہم سیکولر کہہ سکتے ہیں۔ ایک سے زیادہ افراد نے یہ کہا کہ آذر بائیجان ایک مسلمان ملک ہے لیکن اسلامی نہیںہے۔ جسے ہم سوویت یونین کا ورثہ کہیں وہ یہ ہے کہ وسطی ایشیاکے تمام ملکوں کے عوام تعلیم یافتہ ہیں اور خواتین معاشی اور سماجی سطح پر بڑی حد تک آزاد ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان ملکوں میں مذہبی انتہا پسندی کی کوئی لہر نہیں اٹھی اور قدامت پرست تحریکوں نے اپنا رنگ جمانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کی الگ کہانیاں ہیں اور نظریاتی کشمکش کے اشارے ڈھونڈے بغیر مل جاتے ہیں۔

یہ کسی سیاسی تجزیے کا موقع نہیں ہے۔ میں تو محض ایک ذاتی تجربےکا سرسری سا ذکر کررہا ہوں۔ اور میری نظر معاشرتی صورت حال پر ہے۔ یوں بھی، مسلمان ملکوں میں، خواہ وہ کتنے ہی ترقی یافتہ یا سیکولر کیوں نہ ہوں، جمہوری حکمرانی کی تلاش بے سود ہے۔ ایک پہلو سیاست کا بھی ہے۔ میں نے دیکھا کہ اب کافی تعداد میں پاکستانی آذربائیجان کا رخ کررہے ہیں اور باکو میں دبئی کا عکس ڈھونڈتے ہیں۔ ایک تو ویزا آسانی سے مل جاتا ہے پھر ترکی کی طرح یہاں بھی لوگ پاکستانیوں سے مسکراکر ملتے ہیں۔ خدا کرے یہ رشتے اسی طرح قائم رہیں۔ آذربائیجان اور باکو کے بارے میں کہنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن یہاں کسی سفرنامچے کی کوئی گنجائش نہیں۔ پھر مقامات اور مناظر سے زیادہ مجھے کسی ملک کے ماحول اور معاشرت کو دیکھنے اور سمجھنے کا شوق ہے۔ اسی لئے کسی اجنبی شہر کے بازاروں میں بے مقصد پیدل چلنا مجھے اچھا لگتا ہے۔

اس دلچسپی کا ایک حوالہ ہمارا اپنا ملک ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ہماری اشرافیہ کے افراد اپنے ملک کے بازاروں یا اس کی آبادیوں کی گلیوں میں کبھی پیدل نہیں چلتے۔ ایک مسئلہ غلاظت اور غریبی کے وہ داغ دھبے ہیں کہ جنہیں چھپانے کی بھی کوئی کوشش نہیں کرتا۔ اب باکو کا حال سنئے۔ اتنا صاف ستھرا شہر شاید یورپ میں بھی کوئی نہ ہو۔ یہ واقعی ایک حیرانی کی بات ہے۔ پھر امن اور تحفظ کا وہ احساس کہ جس کے ایک خصوصی پیمانے کا ذکر میں نے اس کالم کے آغاز میں کیا۔ یعنی خواتین کتنی آزادی سے سڑکوں پر چلتی ہیں۔ اب تو شام کی خانہ جنگی کو کئی سال ہوگئے۔ ورنہ دمشق نے کوئی دس بارہ سال پہلے جس طرح میرا دل جیتا تھا اس کی یاد مجھے بہت ستاتی ہے۔

مسلسل آباد رہنے والے دنیا کے سب سے قدیم شہر کی خواتین کو میں نے نئی دنیا میں سانس لیتے ہوئے دیکھا تھا۔ تہران میں حجاب کی پابندی کے باوجود، عوامی زندگی میں خواتین اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہیں، استنبول تو میں نے بار بار دیکھا ہےاور اسے اپنے پیمانے کے مطابق پایا ہے۔ موضوع سے ہٹ کر، یہ بات کہنے کو جی چاہتا ہے کہ جب ہم پاکستان میں سیاحت کے فروغ کی بات کرتے ہیں تو مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ پبلک ٹوائلٹ نہیں ہیں۔ گو یہ ایک اہم نکتہ ہے۔ مگر یہ بھی تو دیکھئے کہ ہمارا معاشرتی ماحول کیسا ہے۔ ہماری ثقافت کیا ہے۔ باکو کی سیاحت میں قدیم ماضی کی کشش بھی ہے۔ یہ سوچ کر ہی خون کی گردش میں اضافہ ہوجاتا ہے کہ اس علاقہ کا کوہ قاف کی طلسماتی داستانوں سے بھی ایک تعلق ہے۔

زرتشت مذہب کی ابتدا سے بھی آذربائیجان کا رشتہ ہے۔ بلکہ آگ کا شعلہ آذربائیجان کی ثقافتی علامت ہے اور مٹی کے ایسے ٹیلے بھی ہیں جو آتش فشاں پہاڑوں کی طرح اندر سے سلگ رہے ہیں۔ یہ سب ہے اور جدید آرٹ اور موسیقی کا بندوبست بھی ہے۔ میرے لئے باکو کا سب سے بڑا انعام وہ میوزیم ہے کہ جس کو زھاحدید نے ڈیزائن کیا کہ جو دنیا کی ایک عظیم آرکیٹیکٹ تھیں اور جن کا کچھ عرصہ پہلے انتقال ہوا۔ ایسے میوزیم، لوگ، فن پاروں سے زیادہ عمارت کے حسن کو دیکھنے جاتے ہیں۔ میری سیاحت کا ایک رشتہ کتابوں سے بھی ہے اور اس کی تفصیل کے لئے یہ جگہ کافی نہیں ہے۔

ہر نئے ملک میں میری تلاش یہ ہوتی ہے کہ اس کے ادب کا کوئی ایسا شاہکار ملے کہ جس کا ترجمہ انگریزی میں ہوچکا ہو۔ کئی ملک ایسے ہیں جن میں یہ خواہش پوری نہیں ہوئی۔ جہاں تک آذربائیجان کا تعلق ہے تواسے بھی ایک طلسماتی داستان سمجھئے۔ ایک ناول ہے جسے آذربائیجان کا قومی ناول کہا جاتاہے۔ ایک محبت کی کہانی کہ جس کا عنوان ہے، ”علی اور نینو‘‘۔ دنیا کی 30زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ دوسال پہلے اس پر ایک انگریزی فلم بھی بن چکی ہے۔ یہ ایک مسلمان آذربائیجانی نوجوان اور جارجیا کی ایک عیسائی لڑکی کے عشق کی داستان ہے جو 1918ء سے 1920ء کے درمیان باکو شہر کے پس منظر میں بیان کی گئی ہے۔ شہر کے مرکز میں کتابوں کی ایک دکان کا نام ہی ”علی اور نینو‘‘ ہے۔ اس ناول کے مصنف کے بارے میں ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ وہ کون تھا یا تھی۔ پہلی بار جرمن زبان میں 1937ء میں شائع ہوا۔ پھر اسے 1970ء میں دوبارہ دریافت کیا گیا اور اب یہ آذربائیجان کے دل کی دھڑکن ہے۔
بشکریہ جنگ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).