کس نے کہ دیا کہ شاہ بھٹائی اسٹبلشمنٹ کے بندے تھے؟


کسی زمانے میں فتوے دینا صرف مولوی حضرات کا کام ہوتا تھا، لیکن اب مولویوں کے ہاتھ سے گیم نکل چکی۔ میرے جیسے کئی ان پڑہ تیار ہوچکے ہیں اس کام کے لیے۔ اب فتوے سب کے ہاتھ میں ہے، ایک ہاتھ اور دس فتوے بھی ہیں، ایک سندھی شاعر کے بقول کہ ” شیعہ بھی کافر اور سنی بھی کافر، مساجد سے جب یہ اعلان ہوں گے، تو نسلوں کے کیوں نہیں نقصان ہونگے” یہاں شاعر مساجد کی بات کررہے ہیں لیکن اب فتوے صرف مساجد سے نہیں آتے، روڈ، دکان، پھر اخبارات سے لیکر ویب سایٹس سب اس فتویٰ کلچر میں رنگ چکے ہیں۔ اب فتویٰ دینے والے محمود اور ایاز سب ایک ہیں اور وہ ہی سب نیک ہیں۔ ۔

“ہم سب” پر “کیا شاہ عبدالطیف بھٹائی واقعی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندہ شاعر تھے؟” کے عنوان سے ایک بلاگ شائع ہوا ہے، جس کے لکھاری ہمارے محترم دوست سہیل میمن ہیں، سہیل صاحب سے ہماری کافی عرصے سے جان پہچان ہے وہ آمریکا پلٹ دوست ہیں۔ اب صحافی بھی بن چکے ہیں، سائین جی ایم سید کے آخری دنوں میں حیدرمنزل کی ترجمانی کا کام ان کے حوالے تھا، “ھم سب” پر شائع شدہ بلاگ میں انہوں نے کراچی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر شیر مہرانی کے حوالے سے ایک بات کی ہے، بلکل بے تکی بات کی جس کا کوئی سر پیر نہیں، بقول فیض احمد فیض،

وہ بات جس کا سارے فسانے میں ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت ناگوار گذری ہے۔

مضمون میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے میلے میں ادبی مذاکرے کا ذکر ہے۔ جس میں وہ لکھتے ہیں کہ اس میلے کے سرکاری ادبی مذاکرے میں پروگرام کے میزبان ڈاکٹر شیر مہرانوی نے اچانک لطیف سائیں کے کردار کے حوالے سے بے تُکی ہانک دی۔ ڈاکٹر شیر نے فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں شاہ لطیف اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ تھا۔ سرکاری پروگرام کےاس میزبان شیر مہرانوی کو تو اسی میلے میں لطیف ایوارڈ سے نواز دیا گیا ہے مگر، پورے سندھ بلکہ دنیا بھر میں جہاں بھی سندھی بستے ہیں وہاں اس بات پر ایک طوفان کھڑا ہو گیا ہے اور لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے غصہ کا اظہار کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر شیر مھرانوی نہیں، مہرانی ہیں، مہرانی لکھتے اور جانے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر مہرانی نے صرف اس ادبی محفل کی میزبانی نہیں کی، ان کا تعارف صرف میزبان کا نہیں ہے، وہ کراچی یونیورسٹی میں سندھی ادب کے پروفیسر ہیں، وہ شاہ لطیف بھٹائی پر پی ایچ ڈی کیے ہوئے ہیں، اس لحاظ سے وہ مضمون نگار اور مجھ سے بہت زیادہ پڑھے لکھے اور محقق بھی ہیں۔

تقریباً ایک ماہ پہلے یہ بات جھوٹے کانوں سے ہم نے اس طرح سنی کہ عوامی جمہوری پارٹی کے رہنما امان اللہ شیخ نے یہ کہا ہے کہ لطیف سرکار اسٹبلشمنٹ کے نمائندہ تھے، جس بات پر بہت تنقید ہوئی۔ لطیف سرکار کا اس دور کے حکمرانوں سے رویہ کیسا تھا یا حاکم وقت نے لطیف سرکار کے گھرانے پر کیا ظلم ڈھایے وہ بات تاریخ میں مل جاتی ہے۔ لیکن یہاں کہنے کا مقصد یہ کہ یہ بات پروفیسر مھرانی نے کی یا اس کی گئی بات کا انہوں نے جواب دیا؟ ریکارڈ کو درست کرنا اچھی بات ہے، ریکارڈ کی درستی کے لیے مجھے پروفیسر مہرانی کا مقدمہ خود بھی لڑنا پڑ رہا ہے اور ان کی اپنی زبانی بھی کچھ کہنا بہت ضروری ہے۔ ہمارے دوست اور فاضل مضمون نگار نے تو اخبار کی خبر پر اپنے دل کی بھڑاس نکال دی لیکن اس پروفیسر کی تحقیق اور ادبی خدمات سے ایسے کیسے منہ موڑ لیں جو کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے ایک ڈھارس اور تسلی کا درجہ رکھتا ہے۔

پروفیسر صاحب کو یہ بھی شکایت ہے کہ ادبی پروگرام کے حوالے سے اخباروں میں شائع ہوئی خبر درست نہیں، ہم ورکنگ اور فیلڈ میں کام کرنے والے صحافی ہیں، کبھی ہم بھی ایسے ہی آدھی ادھوری بات سن کر کافی کچھ ہانک دیتے ہیں، جیسے مضمون نگار نے ہانکی ہے۔ اس لیے پروفیسر کی یہ شکایت جائز بھی ہو سکتی ہے۔ پروفیسر مھرانی نے اس مضمون پر ایک وضاحت جاری کی ہے جس کو “ھم سب” کے پڑھنے والوں کے آگے رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ ان پر ناجائز تنقید بھی اس فورم سے ہوئی ہے، بلکہ ان کے خلاف لکھا جانے والا مضمون اصل میں اس خبر کا ایک ترجمہ ہے اور کچھ نھیں۔ اب ڈاکٹر مھرانی کی بات ان کی اپنی زبانی سن لیجیے۔۔۔

“دوستو تنقید کا کوئی بھی تیر مجھ پر پھینکنے سے پہلے میری وضاحت ضرور دیکھ لیں۔ میرے لیے لطیف ایوارڈ نوبل انعام سے زیادہ اہم ہے کیونکہ جس ھستی کے فکر، فلسفے، پیغام اور اپروچ سے میں بے انتہا پیار کرتا ہوں، اس کے نام کا دیا ہوا ایوارڈ میرے لیے اعزاز سے کم نہیں۔ جب سے لطیف سرکار کے الفاظ، خیالات اور فکر سے میری آشنائی ہوئی ہے، میں دنیا کے تمام علوم، فکر، فلسفے ، ادب اور نفسیات اور سماج کو لطیف سائیں کی شاعری کے عکس میں دیکھنا چاہتا ہوں، میری تحقیق کے موضوعات بھی کچھ یہی رہے ہیں اور ان پر میں نے بھرپور تحقیق بھی کی ہے۔ جن موضوعات پر میں نے تحقیق کی ان میں شاہ لطیف کے دور کے سیاسی و سماجی حالات، لطیف سائیں کی مقبولیت کے اسباب، شاہ لطیف کی شاعری میں جمالیات، (جس پر میں نے پی ایچ ڈی کی سند لی ہے اور اسلام آباد میں اکیڈمی آف لیٹرس نے اس پر مجھے پہلا لطیف ایوارڈ بھی دیا تھا) اس کے ساتھ میری تحقیق کے موضوعات میں شاہ عبداللطیف کی شاعری کا جدید مشاھدہ، شاہ لطیف کے پاس انسان دوستی کا تصور، شاہ لطیف اور عالمی امن کا تصور، شاہ لطیف کا ماحولیات اور فطرت کا تصور، شاہ صاحب کا وجدانی تصور، موت کا تصور، تنھائی کا تصور، درد کے جمال کا تصور، زندگی کا تصور، یگانگی کا تصور، لطیف سرکار کے پاس جدوجہد کا تصور، امید اور ناامیدی کا تصور، لطیف کی قربانی کا تصور، شاہ لطیف کی سورمیوں یعنی بھادر خواتین کی علامات، شاہ لطیف کا علم اور لاعملی کا تصور، شاہ کے کرداروں کا نفسیاتی مشاہدہ، شاہ کا وحدت الوجود کا تصور، شاہ کے جمالیاتی تصور، اس کے ساتھ شاہ لطیف کی شاعری پر انگریزی زبان میں ایک کتاب جلد شائع ہونے والی ہے۔ میں کراچی یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں، اور روزانہ مجھے پڑھنے پڑھانے کے لیے نیا مواد مل جاتا ہے، میرے سامنے آنی والی ہر نئی چیز کو میں شاہ لطیف کی شاعری کی بنیاد پر پرکھنے کی کوشش کرتا ہوں، اور مجھے شاہ صاحب کی شاعری سے اس کا جواب مل جاتا ھے۔

میں نے لکھا کہ فرد کے تمام احساسات اور جذبات کا اظھار شاہ عبداللطیف کی شاعری میں موجود ہے، کچھ دوستوں نے کہا کہ شاہ کی شاعری میں ہر مرض کا علاج نہیں، میں نے اس بات کا جواب یوں دیا کہ اگر مرض احساساتی، نفسیاتی اور اجتماعی ہے تو اس کا علاج بھی شاہ لطیف کے پاس ہے، لیکن اگرکوئی شخص کسی ذاتی عناد اور جسمانی مرض میں گھرا ہوا ہے تو پھر شاہ لطیف کے پاس اس کا علاج ھرگز نہیں، لیکن ان کی شاعری سے اس مریض کو ہمدردی مل سکتی ہے۔

میرا موقف یہ ہے کہ شاہ عبداللطیف حال اور مستقبل کا شاعر ہے، لیکن کچھ دوستوں نے اعتراض کیا کہ شاہ لطیف بھٹائی کو مستقبل کا شاعر کہنا غیر سائنسی ہے، لیکن میں مانتا ہوں کہ شاہ لطیف بھٹائی ہر دور کا شاعر ہے۔ کچھ دوستوں نے کہا تھا کہ شاہ لطیف کا اپنے دور کی اسٹبلشمنٹ سے تعلق تھا، جس پر میں نے احتجاج کیا اور اس تاثر کو رد کیا، اس کا اظہار میں نے کراچی بھٹائی آباد لائبریری کے ایک پروگرام میں کیا تھا۔

اب آتے ہیں شاہ لطیف بھٹائی کے میلے کی ادبی کانفرنس پر، جہاں ادبی مذاکرے میں یہ موضوع مرکزی موضوع بالکل نہیں تھا لیکن کچھ دوستوں کا اصرار تھا کھ جس نے بھی اس بات کا اظہار کیا ہے کہ شاہ صاحب اسٹبلشمنٹ کے بندے تھے اس پر روشنی ڈالنی چاہیے، جب میں نے اس بات کو رد کیا کہ شاہ لطیف نے ایسا کوئی کردار ادا نہیں کیا، اور ان کا اس وقت کی اسٹبلشمنٹ سے کوئی تعلق نہیں، جب میں ںے زبان، شاعری، تقابلی، ادبی اور تاریخی اعتبار سے اس تاثر کو رد کرنے کے لیے دلائل دیے تو کسی صحافی نے یہ خبر چلا دی کہ میں نے شاہ لطیف بھٹائی کے بارےمیں اسٹبلشمنٹ والی بات کہہ دی ہے۔

میں عرض کروں کہ میں شاہ لطیف بھٹائی کو پڑھنے، اس کو چاہنے والا ایک عاشق اور محقق ہوں، میری باتوں کو اس طرح توڑ مروڑ کر اس پر مضمون لکھ کر نام کمانے سے پہلے مجھ سے موقف لینا ضروری تھا، مجھ پر تنقید کرنے والوں نے بعد میں معافی نامے بھی بھیجے، لیکن یہ وضاحت پھر بھی ضروری ہے کہ میں نے شاہ لطیف پر ہونے والی ایسی تنقید کے رد عمل میں اس تاثر کو رد کیا تھا، نہ کہ وہ بات کی تھی جس کا مضمون نگار نے حوالہ دیا ہے۔ لطیف سرکار کا رسالو کھولتے ہم سندھ کی حدود میں داخل ہوتے ہیں، سندہ جو کائنات کے مرکز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ۔ آخر میں بس لطیف کی زبان میں یہ ہی کہوں گا کہ

جو وڑ جڑی جن سیں سو وڑ سی ئی کن۔۔۔

یہ تو تھی ڈاکٹر شیر کی وضاحت، میں آخر میں دو الفاظ یہ کہوں گا کہ اب مضمون نگار صاحب ان تمام موضوعات جن پر ڈاکٹر شیر مہرانی نے تحیقیقات کی ہے ان میں سے صرف ایک موضوع پر اپنا تحقیقی مکالہ تو کیا مضمون ہی دکھا دیں تو مان جائیں گے کہ ان کی بات میں وزن ہے۔ ۔ ۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar