یہ گالیاں کس کو پڑ رہی ہیں؟


ایک بھرے جلسے میں جب ہوا کے گھوڑوں پر سوار اس کے جذباتی کارکن اس کے سامنے تھے تو سٹیج پر آ کر عمران خان نے حسب معمول بلوچستان کے ایک غریب بچے کی بھوک اور پیاس کی کہانی سنائی پھر ورلڈ کپ اور شوکت خانم سے ہوتا ہوا اپنے ہر مخالف کو چور ڈاکو اورکرپٹ (لیکن صرف سیاستدان۔۔۔ فوجی ڈکٹیٹر اور موصوف کے ساتھی ہرگز نہیں) کے القابات اور خطابات دینے کے بعد فرمایا۔۔۔

میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنی قوم سے جھوٹ نہیں بولوں گا اور دھوکہ یا جھوٹا وعدہ نہیں کروں گا۔ اور پھر وہ دن اورآج کا دن یہ بد نصیب قوم اس دن کی منتظر ہے کہ اس وعدے کا پاس کب ہوگا کیونکہ عمران خان نے فرمایا تھا کہ جیسے ہی میں اقتدار سنبھال لوں گا تو باہر کے ملکوں میں پڑا چوری کا پیسہ (جو کبھی تین ہزار ارب بن جاتا ہے کبھی تیس ہزار ارب کبھی ایک لاکھ ارب بھرحال جتنا بھی ہے ) اسے فوری طور پر واپس لا کر سارا قرضہ اُتار دوں گا اور باقی دولت قوم پر لگا دوں گا اور ان کی حالت بہتر کروں گا۔

اب پیسہ تو خیر کیا واپس آتا اور قوم کی حالت کیا سنبھلتی لیکن بلوچستان کے جس بھوکے بچے کی کہانی سے وہ اپنے کارکنوں اور جلسوں کو گرماتا رہا، اس بھوکے بچے کو دیکھنے کے لئے اب دور آفتادہ بلوچستان نہیں جانا پڑتا بلکہ اس جیسے بچے اب گلی گلی دستیاب ہیں۔

عمران خان نے مزید فرمایا تھا کہ میں خودکشی کر لوں گا لیکن قرض نہیں لوں گا۔ سامنے کے مجمع میں سوال و سوچ کی طاقتِ پرواز مفقود تھی ورنہ پوچھا جاتا کہ حضور قرض لینا کونسا گناہ کبیرہ ہے۔ دنیا کے تمام ممالک اپنے پراجیکٹس اور منصوبوں کی تکمیل کے لئے ایسا ہی کرتے ہیں۔ امریکہ، چین، روس اور سعودی عرب جیسے ممالک ہزاروں ارب ڈالرز قرض لے کر کامیابی کے ساتھ اپنے اپنے منصوبے چلا رہے ہیں اس لئے آپ (عمران خان) یہ بتائیں کہ عالمی مالیاتی اداروں سے معاملات کیسے طے ہوں گے اور آئندہ قومی منصوبوں کی فزیبیلٹی کیا ہوگی ؟

اگر کوئی سوال ہوتا بھی تو وہ تالیوں ،سیٹیوں اور بھنگڑوں کی شور میں دب جاتا پھر بھی ہم جیسے نافرمان اور بد تمیز کوئی سوال اُٹھاتے بھی تو بہتان طرازی، طنز اور گالیوں کا سیلابِ بلا خیز اسے بہا کر لے جاتا اور اب صورت حال یہ ہے کہ ہر اس دروازے پر دستک دی جا رہی ہے جہاں سے معمولی سی مدد ملنے کی موہوم سی اُمید بھی باقی ہو اور تو اور سعودی عرب نے قرض پر تین ارب ڈالرز کا تیل دینے پر رضامندگی ظاھر کی تو وزیراعظم صاحب نے قوم کو خصوصی طور پر “خوشخبری“ سنائی (براہ کرم خوشخبری کو ماضی میں کی گئی تقاریر کے حوالے سے نہ دیکھا جائے )

اب سوال بنتا ہے کہ قرض پر تیل لینے کا یہ سلسلہ تو گزشتہ پچاس سال سے دونوں ممالک کے درمیان جاری وساری ہے یا یہ سوال کہ جمال خاشقجی کے قتل اور سعودی عرب کی سیاسی تنہائی کا فائدہ اٹھا کر سفارتی سطح پر بہتر انداز میں معاملات دانشمندی اور بہترین منصوبہ بندی سے طے کئے جاتے تو کہیں زیادہ بڑا پیکج ملتا۔

عمران خان نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑوں گا۔ اب اگر ہم اس جملے میں تھوڑی سی ترمیم کر کے کرپٹ کی جگہ مخالف کا لفظ لگا لیں تو پھر خان صاحب نے واقعی سچ کہا تھا کیونکہ شریف خاندان کی نیب عدالتوں میں پیشیاں، جیل یاترا وغیرہ جاری و ساری ہیں لیکن اگر لفظ کرپٹ ہی خان صاحب نے کہا تھا تو پھر اس لولی پاپ سے بہلنے والوں کی تعداد اس ملک میں تیزی کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ ہیلی کاپٹر کیس سے پشاور بی آر ٹی اور فارن فنڈنگ کیس سے جہانگیر ترین،علیم خان، بابر اعوان، زبیدہ جلال، فہمیدہ مرزا اور پرویز خٹک تک ہر وہ طبقہ و فرد محفوظ و مامون ہے جس نے “غیر ممنوعہ” سیاست میں حصہ بقدر جثہ ڈالا ہے۔

عمران خان نے فرمایا تھا کہ میں پولیس کو غیر سیاسی اور عوام کا خادم بناؤں گا لیکن کیا واقعی پولیس کو بنایا بھی ایسا ہی، صرف پاک پتن کا واقعہ ہی مثال کے لئے کافی ہے کیونکہ پولیس کی یہ جرات کہ خاور مانیکا کی گاڑی کو چیکنگ کے لئے روک لے تبھی تو رات گئے پولیس افسر کی وزیراعلی ہاؤس طلبی اور پیشی ہوئی جھاں جمیل احسن گجر نامی شخص نے پولیس افسرسے باز پرس کی (یاد رہے کہ جمیل گجر اور خاور مانیکا کے قریبی فیملی تعلقات ہیں)۔

اس کے علاوہ ضمنی انتخابات کے دوران حد درجہ ایماندارآئی جی پنجاب کی ٹرانسفر اور اپنے گرتے گھروں کا تماشہ کرنے کی بجائے احتجاج کرتے عوام پر برستی پولیس کی لاٹھیاں ثابت کر رہی ہیں کہ پولیس واقعی غیر سیاسی بھی بن گئی ہے اور عوام کی خادم بھی۔

عمران خان نے فرمایا تھا کہ میں سو دن کے اندر اندر تبدیلی لے آؤں گا اور واقعی تبدیلی آ گئی لیکن ایک اور قرینے سے بس اس حوالے سے ایک چھوٹا سا واقعہ ہی سن لیں۔

میرے ایک قریبی دوست کل شام کو گپ شپ کے لئے آئے تو خلاف معمول اپنی گاڑی کی بجائے ٹیکسی لی تھی۔ میں نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ اب گاڑی صرف گیراج میں کھڑی کرنے کے لئے ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا ٹیکسی مقت میں آتی ہے؟

تو اس نے کہا یہی تو مسئلہ ہے۔ پہلے یہاں تک آنے کے پچاس روپے لیتے تھے لیکن آج سو روپے لئے۔ میں نے ٹیکسی والے سے کہا کہ یہ تو زیادتی ہے تو ٹیکسی والے نے سی این جی سے لے کر دال ماش اور بجلی سے لے کر چینی تک ایک ایک چیز کی نئی قیمتیں گنوائیں اور یہ بھی کہا کہ ان اشیا کی قیمتیں پرانے پاکستان کی سطح پر آئیں تو کرایہ پچاس سے بھی کم کر لوں گا لیکن ٹیکسی والے سے بحث کا ایک فائدہ بھی ہوا۔

فائدہ؟

میں نے حیرت سے پوچھا تو دوست نے جواب دیا کہ ٹیکسی والے نے میرے علم میں ایسی ایسی گالیوں کا اضافہ کیا جو ایک زمانے سے معدوم اور متروک ہو چکی ہیں۔  تاہم سوال یہ ہے کہ یہ گالیاں کس کو اور کیوں پڑ رھی ہیں ِ احمد ندیم قاسمی صاحب کا مصرع بھی کہاں یاد آیا

جیسے آسیبِ حقیقت خلد کے خوابوں کے بعد

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).