ایک طوفان کی آمد ہے


دہائیوں کی پیشہ ورانہ صحافت کو طویل بندش کے بعد طوعاً و کرہاً فی الوقت خیر باد کہہ کر پھر سے میدان سیاست میں قدم رکھنے کو پر تول ہی رہا تھا کہ سیاست پھر سے اک لاینحل بحران کے ایسے خوفناک مرحلے میں داخل ہو چلی ہے جس کے سنگین نتائج کی فرشتوں کو بھی خبر نہیں اور ٹیلی وژن ٹاک شوز میں بیٹھے طوطوں کو تو بالکل بھی نہیں۔ آسمان صبح شام کیسے رنگ بدلے گا، انگشت بدنداں ہوں۔ گزشتہ جمعے کے روز سپریم کورٹ کے ایک معزز تین رکنی بنچ نے بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے مضحکہ خیز ترین نام نہاد سائفر کیس کے وہ پرخچے اڑائے کہ اس کے پلے کچھ تھا بھی تو کچھ بچا نہیں۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں ضمانت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ خان صاحب کے لاکھوں متوالے سمجھے کہ بس خان ابھی جیل سے رہا ہو کر انتخابی طوفانی مہم پہ چل نکلے گا۔ لیکن تحریک انصاف کی سیاسی قسمت کے مقدر ابھی نادیدہ بھنور سے نکلنے والے کہاں تھے۔ حالانکہ سپریم کورٹ کے بنچ کے معزز ججوں (جنہیں اب اپنی اخلاقی و سیاسی ساکھ ڈوبنے کی فکر لاحق ہو چلی ہے ) نے تحریک انصاف کی شکایت پر یہ محسوس کیا کہ تحریک انصاف کو ہموار سیاسی میدان میسر نہیں، لہٰذا الیکشن کمیشن کو ہدایت کی گئی کہ وہ تحریک انصاف کی شکایات کا ازالہ کرے۔

اور ازالہ ہوا بھی تو اسی شام نہایت سرعت سے الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے پارٹی انتخابات ہی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پارٹی کو اس کے دیرینہ انتخابی نشان بلے سے ہی محروم کر دیا۔ یک جنبش قلم سے نہ صرف تحریک انصاف بلے کا نشان کھو بیٹھی، بلکہ اب اقلیتوں کی 10 اور خواتین کی 60 مخصوص نشستوں جن کا تعین کسی بھی پارٹی کو پڑنے والے ووٹوں کے تناسب سے ہوتا ہے سے محروم ہو گئی ہے۔ اب 171 کی اکثریت میں سے 70 اراکین تو منہا کر دیے گئے یا قومی اسمبلی کی کل 342 نشستوں میں سے تحریک انصاف کے لئے باقی بچیں بھی تو 272 نشستیں یا کل نشستوں کا 20 فیصد انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہی اس کے انتخابی کھاتے سے نکل گیا۔ آج کاغذات نامزدگی کا آخری دن ہے اور امیدواروں کو پارٹی کے انتخابی نشان کی الاٹمنٹ 13 جنوری کو ہونی ہے۔

گویا تحریک انصاف کے پاس الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کرنے اور اس پر اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کے لئے فقط 17 روز بچے ہیں۔ اگر اعلیٰ عدلیہ اس نا انصافی پر اگلے ہفتے دس روز میں فیصلہ نہیں کرتی تو پھر پی ٹی آئی بغیر بیٹ کے میدان میں اترے گی۔ شفاف انتخابی میدان میں فرشتے پہلے ہی اپنی پسند کی پچیں بنا چکے ہیں اور انہیں ہائبرڈ انتخابی نظام کی ضرورتوں کے مطابق صبح شام بدلا جا رہا ہے۔ ایسے میں الیکشن کے انعقاد کی 8 فروری کی تاریخ پتھر پر لکیر ہونے کے باوجود انتخابی عمل پر ہی بنیادی سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے جو 70 اور 77 کے انتخابی المیوں کی جو یاد دہانی کرائی ہے، اس سے کسی کے سر پر جوں تک نہیں رینگی۔ اب تحریک انصاف کرے تو کیا کرے؟ بلا شاید ملے نہ ملے، اس کا متبادل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ”عوام دوست“ کی طرح ”انصاف دوست“ بھی ہو سکتا ہے اور بلے کی جگہ کہیں ہتھوڑا اور کہیں درانتی تو کہیں کچھ بھی نشان ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کے دور میں ایک نہیں، ہر حلقے کے لیے علیحدہ انتخابی نشان کو آگ کی طرح پھیلانا کوئی مشکل نہیں۔

تحریک انصاف کو اب ایک ایسی آسانی میسر آئی ہے جو کسی دوسری پارٹی کو نہیں۔ ہر حلقے سے درجنوں امیدوار کھڑے ہو گئے ہیں اور وہ ان میں سے کسی کا بھی مناسب انتخاب کر سکتی ہے، نئی نسل کے عقاب راتوں رات گلی گلی ان نشانوں کی دھوم مچا سکتے ہیں۔ لینڈ سلائیڈ نہ سہی، مقابلہ خون خوار نہ سہی جگہ جگہ زبردست جوڑ پڑ سکتا ہے۔ ایسے وقت میں جب پنجاب میں نون لیگ اپنے وسیع تر مقامی انتخابی نیٹ ورک کے باوجود اپنی عوامی حمایت کی تاریخ کے سب سے نچلے درجے پہ کھڑی ہے، کے لیے لاڈ پیار اور ریاستی سرپرستی کے باوجود انتخابی جیت مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔

ضلع بہاولنگر جہاں میں خود قومی اسمبلی کے حلقہ 161 سے امیدوار ہوں، وہاں اس کے دیرینہ امیدواروں کے خلاف فضا نہایت مخدوش ہوتی نظر آتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے جیالوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اگر کسی پارٹی کی فضا ہے تو وہ ہے تحریک انصاف۔ اس علاقے میں وڈیروں کی اجارہ داریوں سے لوگ تنگ ہیں اور ان کے مابین زبردست رسہ کشی جاری ہے جو ووٹرز کو ایک حد تک تقسیم کردے گی۔ تحریک انصاف کے ممکنہ امیدواروں کا بھی لگتا ہے کوئی اتا پتا نہیں اور کوئی تنظیمی ربط ضبط نہیں۔

وہ بس انتظار میں ہیں یا پھر چھپتے چھپاتے پھر رہے ہیں۔ صرف ایک شوکت محمود بسریٰ ہیں جنہیں اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرانے میں جو مشکلات پیش آئی ہیں ان کا میں خود گواہ ہوں۔ اب تحریک انصاف کے پاس کیا آپشنز اور پلان بی اور سی ہیں؟ کچھ خبر نہیں! یہ خیال کہ تحریک انصاف فقط شہروں تک محدود ہے، حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ دیہی پدر شاہی برادریاں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں اور محنت کش عوام مہنگائی اور بیروزگاری سے نالاں ہیں اور ان کے لیے روشنی کی کہیں لکیر نہیں۔

متوسط طبقے کے لوگ بہت تلخ نوا ہو چلے ہیں۔ جبکہ حیران کن طور پر عوامی بیزاری کا زیادہ تر بوجھ شہباز حکومت کے سر بندھ گیا ہے۔ اور جانے کیا کیا عوامل ہیں جو عمران خان کی کرشماتی اپیل کو بڑھاتے جا رہے ہیں۔ وہ اب ایک زندہ شہید ہیں۔ مجھے اگر فکر ہے تو پنجاب سے بلوچستان تک ناراض نوجوانوں کی ایک لہر ہے جو اپنی منزل کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹک رہی ہے۔ انہیں ایک واضح روشن خیال اور عوامی جمہوری سمت کی ضرورت ہے اور وہ ہی اس ملک کی کایا پلٹ سکتے ہیں۔

اس وقت تک تو انتخابی مہم فقط پارٹی ٹکٹوں کی دوڑ تک محدود ہے۔ زیادہ تر کا رخ تو نون لیگ کی طرف ہے اور اس کے امیدواروں کو عوامی بیزاری کا سامنا ہے۔ ایسے میں الگ سے ایک عوامی جمہوری ایجنڈے کے ساتھ میدان میں اترنے کی مہم جوئی پہ اترا ہوں۔ محنت کشوں میں کیا پرانا کام بہت کام آ رہا ہے اور جانے کہاں کہاں سے لوگ آ کر ہمت بندھا رہے ہیں۔ غالباً اس وقت میں واحد امیدوار ہوں جس نے اپنا تفصیلی سیاسی، معاشی اور سکیورٹی معاملات پر اپنا چارٹر جاری کیا ہے جس کی پڑھے لکھے لوگوں میں کافی پذیرائی ہوئی ہے اور محنت کشوں خاص طور پر کسانوں کے لئے تھوڑی بہت امید پیدا ہوئی ہے۔

لیکن اب دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے کا مقصد صرف اسمبلی کی سیٹ نہیں بلکہ ملک کی جمہوری کایا پلٹ، خوشحال مستقبل اور محنت کش عوام کی آسودہ حالی اور استحصال سے نجات کے لئے جدوجہد کرنا زیادہ ضروری ہے۔ بہاولنگر میرا آبائی ضلع ہے جہاں سے میرے بھائی ممتاز عالم گیلانی دو بار ایم این اے منتخب ہوئے اور ان کی ایماندارانہ عوامی سیاست کا پھل بھی مجھے مل رہا ہے۔ لیکن لوگ جانے کیوں مجھ سے اتنی امیدیں وابستہ کر رہے ہیں۔ وہ شاید اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ جانے میں کیا معجزہ کر دکھاؤں۔ لیکن اکیلا چنا بھاڑ نہیں جھونک سکتا! عوامی نجات، جمہوری استحکام اور انقلابی کایا پلٹ کی جدوجہد طویل ہے۔ اک کوشش اور سہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

امتیاز عالم

بشکریہ: روزنامہ جنگ

imtiaz-alam has 58 posts and counting.See all posts by imtiaz-alam

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments