جمال خاشقجی کا وحشیانہ قتل


قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ

کئی مواقع پر میں نے محسن نقوی کا یہ شعر اپنے کالم کی ابتدا میں لکھا، یقیناً واقعات دہشت گردی اورقتل و غارت گری کے ہی تھے جن کی مذمت کے لیے محسن نقوی کے اس شعر کا سہارا لیتا رہا۔ محسن نقوی کوئی قافیہ پیما نہ تھے۔ ایک مکمل شاعر تھے۔ اس شعر میں انھوں نے وحشتوں کی پوری تاریخ سمو دی ہے۔ اے کاش مگر ہم تاریخ سے کوئی سبق حاصل کرتے؟ انسانی سماج تاریخ کو لطف اندوزی کے لیے پڑھتا ہے اور اپنے اسلاف کے پسندیدہ کارناموں پر فخر کرتے ہوئے کسی نئے واقعہ کے ظہور کا انتظار کرنے لگتا ہے۔

گذشتہ سے پیوستہ روز ایک دوست نے کہا کہ عربوں سے زیادہ وحشی شاید ہی کوئی ہو۔ لاکھوں کی تعداد میں اللہ رب العزت کے جلیل القدر انبیاؑ جن کی تربیت کو آتے رہے، اور انھوں نے انبیاؑ کو بھی نہ بخشا۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں۔ ایک عام صحافی بھلا ان کے نزدیک کیا اہمیت رکھتا تھا؟ اس کے ٹکڑے کرنا؟ یا اس کی لاش کی بے حرمتی کرنا بہت تکلیف دہ منظر ہو گا۔ مہذب دنیا کا کوئی بھی باسی اس واقعے کے حق میں کوئی بھی دلیل نہیں دے سکتا۔ بلا مبالغہ ان میں آج بھی قبائلی عصبیت اوروحشت موجود ہے۔ میڈیا میں شائع ہونے والی خبریں ترکی، واشنگٹن اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات کا زاویہ بھی لیے ہوئے ہیں۔ لیکن سچ یہی ہے کہ جمال خشوگی، جنھیں جمال خاشقجی بھی لکھا جا رہا ہے، کابہیمانہ قتل کیا گیا اور وہ بھی سفارت خانہ کے اندر۔

جمال خاشقجی کا جرم کیا تھا؟ لمبی چوڑی تحقیق اور پھر اس سے نتائج اخذ کرنا تحقیقاتی ادروں کا کام ہے اور وہ اس میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک قلم کار کا جرم کیا ہو سکتا ہے؟ یہی کہ وہ عرب معاشروں میں پائی جانے والی گھٹن پر کھل کر بات کرتے تھے۔ فارسی شعر کا مصرعہ یاد آتا ہے ”نازک مزاج شاہاں تابِ سخن ندارد“ بادشاہوں کے مزاج نازک ہی نہیں ظالمانہ بھی ہوتے ہیں۔ عالمی میڈیا نے تفصیلی رپورٹس اور تجزیے دیے ہیں۔ پاکستانی میڈیا مگر عالمی معاملات پر کم ہی کھل کر بات کرتا ہے، بالخصوص اردو میڈیا۔

ایک خبر یہ ہے کہ سفارت خانے میں لڑائی کے دوران جمال خاشقجی کو قتل کیا گیا۔ دیگر خبریں جو عالمی میڈیا میں تسلسل سے شائع ہو رہی ہیں ان کے مطابق جمال کا قتل منصوبہ بندی سے مگر انتہائی بے دردی سے کیا گیا۔ پہلے انگلیاں کاٹی گئیں۔ تاریخ کی کتابوں میں واقعات ملتے ہیں کہ زندہ انسانوں کو آروں سے چیر دیا گیا۔ ان کی کھال ادھیڑ دی گئی۔ جدید تاریخ میں تاریخی مظالم کو داعش، دیگر دہشت گرد گروہوں سمیت میں ترکی میں قائم سعودی قونصل خانے نے دہرایا ہے۔ بے شک عرب صحافی جمال کو اردو نہیں آتی ہو گی مگر ایسا خیال تو ضرور آیا ہو گا کہ،
لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

جمال کے مگر ہاتھ ہی قلم نہ ہوئے بلکہ مظلوم کی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے غائب کر دی گئی۔ جمال خاشقجی کے بیٹے کا سعودی ولی عہد سلمان سے مصافحہ بھی الگ داستان ہے، دیکھا جا سکتا ہے کہ مقتول کے بیٹے کی آنکھوں میں انتقام کی آگ صاف نظر آ رہی تھی۔ ترک صدر طیب اردغان نے اپنی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی صحافی کو سفارت خانے کے اندر ہی قتل کیا گیا اور ترکی کے پاس ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ بین الاقوامی دباؤ بڑھا تو سعودی بادشاہوں نے ایک بیان جاری کر دیا۔

کہا یہ آپریشن بہت اچانک اور غیر متوقع تھا، اور اس آپریشن کی سعودی انٹیلی جنس سروسز کو بھی خبر نہ تھی۔ یہ بھی کہا گیا کہ جمال کو قتل کرنے والوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔ جمہوریت، جمہوری اداروں کے کردار اور پھر بادشاہت اور اس کے مزاج کا مطالعہ کرنے والےجانتے ہیں کہ ترکی میں تعینات سعودی سفیر کی اپنے اختیارات سے تجاوز کی جرات ہی نہیں ہو سکتیتھی چہ جائیکہ اسے ریاض سے ہدایات نہ ملیں۔ لیکن اب قربانی کا بکرا ترکی میں تعینات سٹاف ہی بنے گا، مگر جمال خاشقجی کا قتل صرف آل سعود کے لیے ہی بھاری ثابت نہیں ہو گا بلکہ سعودی عرب، کے امریکہ اور ترکی و یورپ سے تعلقات کی نئی جہت بھی متعین کر دے گا۔

کیا اتنا کہہ دینے سے یہ بات ٹل جائے گی کہ ترکی میں تعینات سفیر اور دیگر عہدیداران نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا؟ بالکل نہیں۔ کیونکہ اقوامِ متحدہ کی نمائندہ خاص نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کو ماورائے عدالت قتل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنہوں نے یہ منصوبہ بندی کی تھی وہ ریاست کی نمائندگی کرنے والے اعلیٰ سطح کے افراد ہیں۔ الجزیرہ سےگفتگو کرتے ہوئے ایگنیز کلیمرڈ کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہم جانتے ہیں اس سے ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ جمال خاشقجی ماورائے عدالت قتل کا شکار ہوئے۔ پہلے ہمیں یہ پتا چلا کہ ان کا قتل سعودی قونصل خانے میں کیا گیا، جس کے بعد یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ موقع واردات پر موجود افراد ریاست کے اعلیٰ عہدیدار تھے۔

یہی بات ترک صدر بھی کہہ چکے ہیں کہ جمال خاشقجی کو منصوبہ بندی کے تحت قونصل خانے میں ہی قتل کیا گیا۔ رجب طیب اردغان نے تو یہاں تک انکشاف کیا تھا کہ سعودی صحافی کے قتل کی منصوبہ بندی 29 سمتبر کو کی گئی تھی، اور خاشقجی کو قتل کرنے کے لیے 2 خصوصی ٹیمیں استنبول پہنچی تھیں جبکہ وہ لوگ اس وقت سعودی قونصل خانے میں ہی موجود تھے جب صحافی کو قتل کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).