عمران خان اور پنجاب یونیورسٹی کے غنڈے


ہارورڈ یونیورسٹی کے سکول آف انجینرنگ کے ماہرین نے کسی بھی ملک کی مجموعی ترقی مانپنے کا نیا طریقہ ایجاد کیا ہے۔ اس طریقے کے تحت یہ رات کے وقت کسی بھی ملک میں روشنی کا ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں اور اس ملک میں آبادی کے نقشوں سے اس ڈیٹا کا موازنہ کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ملک کتنا ترقی یافتہ ہے۔ آمدورفت کی فریکوئنسی کیا ہے؟ بجلی کی ترسیل کتنی ہے؟ کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج کتنا ہے؟ آبادی میں اضافے کی شرح کیا ہے؟ جی ڈی پی کی مقدار کتنی ہے؟ اور غربت کے احوال کیا ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح مستحکم ترقی کا بھی ایک بیرومیٹر ہے۔ ایک ملک میں جتنی تحقیق ہو رہی ہے اس ملک کی ترقی اتنی ہی مستحکم ہوتی ہے۔ اسی لئے سعودی عرب اور دوسرے معدنی وسائل کی وجہ سے ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک تعلیم پے بھرپور اخراجات کر رہے ہیں۔ نئی یونیورسٹیاں بنا رہے ہیں اور دنیا بھر سے پڑھے لکھے لوگوں کو من مرضی کے پیکج دے رہے ہیں۔ کیونکہ تحقیق تو یونیورسٹیوں میں ہی ہوتی ہے۔

دنیا کی دو سو بڑی پرائیویٹ کمپنیوں کے پاس پوری دنیا کی حکومتوں سے زیادہ دولت ہے لیکن پرائیویٹ سیکٹر تحقیق کا کوئی متبادل نظام دینے سے قاصر ہے۔ بالآخر تحقیق کا ڈھول پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے گلے میں ہی ڈالنا پڑتا ہے۔ پچھلے ہفتے یونیورسٹیوں کی بین الاقوامی رینکنگ شائع ہوئی۔ سال 2018 کے لئے آبادی کے حساب سے دنیا کے چھٹے بڑے ملک پاکستان کی ایک بھی یونیورسٹی علمی شہرت کے حوالے سے 978 یونیورسٹیوں کی اس لسٹ میں نہیں ہے۔ اوور آل رینکنگ میں چھ یونیورسٹیاں ہیں وہ بھی آخری نمبروں پے۔ لیکن علمی حوالے سے کوئی نہیں ہے۔

نہ یونیورسٹیوں نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینا ہے۔ نہ ہندوستانی یونیورسٹیوں سے کوئی دشمنی نبھانی ہے۔ نہ مالی خسارہ ہے اور نہ طلبا کا قحط ہے اور نہ ہی کوئی پروفیسر کم پڑ گئے ہیں۔ پھر رولا کیا ہے۔ آپ ذرا تھوڑا سا پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والے حالیہ واقع کو غور سے دیکھیں تو آپ کو سمجھنے میں دقت نہیں ہو گی۔ تنظیمی لحاظ سے پنجاب یونیورسٹی پاکستان کی ایک مائکرو فوٹوکاپی ہے۔

اسلامی جمعیت کے کارکنان نے یونیورسٹی میں اپنی بیوی کو لینے کے لئے آنے والے مرد کی ٹھکائی کر دی۔ یہ کوئی انوکھا واقع نہیں ہے۔ راقم نے پنجاب یونیورسٹی میں آٹھ سال گزارے اور اس طرح کے درجنوں واقعات چشم گناہگار نے دیکھے ہیں۔ یہی کچھ ملک میں ہو رہا ہے۔ چند عناصر نے ملکی نظام پے اتنا اثر و رسوخ بنایا ہوا ہے کہ منتخب وزیر اعظم بھی بے بس ہو جاتا ہے، پھر میڈیا پالیسی بھی وہی بناتے ہیں، اخبار میں کیا چھپے گا، یہ فیصلہ بھی ان کا ہوتا ہے، پولیس کا متبادل بھی وہی ہوتے ہیں، کسی کی ٹھکائی کب کہاں کرنی ہے کرتے ہیں، پھر بقول شاعر وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا، نہ کسی منصف نے آج تک پوچھا ہے نہ آئندہ کوئی آثار ہیں۔ اسی طر ح اسلامی جمیت طلبہ کے مشٹنڈوں نے بھی پنجاب یونیورسٹی ہے قبضہ کیا ہوا ہے۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے ذہین لوگ آتے ہیں اور جمیعیت کی بدولت ملک و قوم کا وقت ضائع کر کے چلے جاتے ہیں۔

ٹٹولنے سے معلوم پڑتا ہے کہ پاکستان کی ہر سرکاری یونیورسٹی اور بڑے تعلیمی ادارے کی جڑوں میں اسی طرح کا کوئی نہ کوئی مشٹنڈوں کا ٹولہ بیٹھا ہوا ہے۔ اس میں مقامی سیاست دان، کچھ اساتذہ اور طلبا کی شراکت ہوتی ہے۔ ہر ایک اپنے مفاد کی تگ و دو میں ہوتا ہے۔ میں ذاتی طور پے پنجاب یونیورسٹی کے کچھ ایسے پروفیسر حضرات کو جانتا ہوں جنہیں ہم نے پچھلی دھائی میں صرف سیاست بازی کی تنخواہ لیتے دیکھا ہے۔ ہر وقت چہرے پے منافقت کی مسکراہٹ سجائے ایک ڈیپارٹمنٹ سے دوسرے ڈیپارٹمنٹ پھرنا، پڑھانا تو دور کی بات، کلاسز میں جانے کو حرام سمجھنا۔ بھلا ہو پچھلی دو انتظامیہ کا جنہوں نے پچھلے پندرہ سال میں تقریباً ہر ڈگری کو سمسٹر سسٹم میں بدل دیا ورنہ بہت سے اساتذہ اور طلباء صرف امتحان لیتے اور دیتے دقت ملتے تھے۔ ان میں سے کئی ریٹائر ہو گئے ہیں اور کچھ چند سال اور رہیں گے۔

لاہور میں جماعت اسلامی کی سیاست نہ ہونے کے برابر ہے، برس ہا برس سے جماعت کا حامی اساتذہ کا ایک گروہ اسلامی جمیت طلبہ کی پس پردہ سر پرستی کرتا ہے۔ اسے پریشر گروپ کے طور پے استعمال کرتا ہے۔ عمران خان صاحب کو بھی 2006 میں اسی طلبا اور اساتذہ کے مذموم گروہ نے ا یک سیاسی جماعت کے کہنے پے پنجاب یونیورسٹی میں حبس بے جا میں رکھا اور پھینٹی بھی لگائی۔ گوگل پے تصویری جھلکیاں ابھی بھی موجود ہیں۔ قومی ہیرو کی یہ درگت بنتے دیکھ کر ملک بھر میں لوگوں نے شور مچایا تو یہی اساتذہ کے گروہ اس واقع کی مذمت کرنے میں بھی سب سے آگے تھے۔

سوچیں بھلا پروفیسرز کا کیا کام ہے کہ وہ وائس چانسلر اور رجسٹرار کی تعیناتی جیسے خالصتاً انتظامی فیصلوں پے اثر انداز ہونے کی کوشش کریں، لابنگ کریں یا مقدمہ بازی میں پڑیں۔ شاید عام لوگوں کے لئے یہ خبر ہو۔ جب بھی کسی بڑی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری کے لئے آسامی مشتہر کی جاتی ہے تو سیاسی میلان طبع رکھنے والے نام نہاد پروفیسرز کی لابیاں ارکان صوبائی اسمبلی اور صوبائی وزراء کے پیچھے دم ہلاتی پھرتی ہیں۔ اور جب بات بنتی نظر نہ آئے تو پھر صحافیوں کو من گھڑت سازشی خبریں فیڈ کی جاتی ہیں، عدالتوں میں جا کر متوقع امیدواروں کی اہلیت کو پہلے ہی متنازع بنا دیا جاتا ہے۔

یہ چال بھی کامیاب نہ ہو تو پھر سرعام ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ آخر کار سب ان کی مرضی سے ہوتا ہے۔ بھلے کوئی کتنا ہی طاقتور اور نیوٹرل وائس چانسلر آجائے اسے ان کے آگے جھکنا پڑتا ہے۔ پھر اس وائس چانسلر اور وزیراعظم میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا جس کا آئینی اختیار اس کے ماتحت اداروں کی غیر آئینی خواہشات کے تلے دب جاتا ہے۔ اس سارے گھناؤنے کھیل کی قیمت قوم کو چکانی پڑتی ہے۔

اگر آپ نے سنا ہے کہ پاکستان کو زیادہ نقصان ان پڑھوں نے نہیں بلکہ پڑھے لکھے لوگوں نے پہنچایا ہے تو اس سے بہتر اس کی کوئی اور مثال کیا ہو گی۔ یہ جان لینا چاہیے کہ ہمارے تعلیمی ادارے اگر اسی طرح چلتے رہے تو یہ ملک بھی اسی طرح چلتا رہے گا۔ تبدیلی کا آغاز تعلیمی اداروں سے ہوگا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے چند نادان پرندے نہیں بلکہ اس کی جڑیں اکھاڑ پھینکنی ہوں گی۔ وہ جڑیں جو نام نہاد سیاسی پروفیسروں کے حلق سے اتر کر ان کے دل و دماغ میں پیوست ہیں۔

اس وقت ان سے نمٹنے کے لئے عمران خان سے بہتر کوئی بندہ نہیں، کیونکہ وہ پہلا شخص ہے جو ان سے پھینٹی کھا کر وزیر اعظم بنا ہے۔ ورنہ ہمیشہ پھینٹی لگانے والے ہی وزیر مشیر بنتے رہے ہیں۔ ہارورڈ سکول آف انجینرنگ کے ماہرین کی طرح شاید ابھی ہم رات کی تاریکی میں تو نہ دیکھ پائیں لیکن ہمیں دن کے اجالے میں دیکھنے کے قابل ضرور ہو جانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).