خادم رضوی کا قرض سے نجات کا نسخہ


علامہ خادم رضوی صاحب نے قرض اتارنے کے لئے ایک نسخہ پیش کیا ہے رضوی صاحب کا کہنا ہے کہ پچھلی حکومتوں نے جتنے بھی قرضے سود پر لیے ہیں حکومتِ وقت ان تمام معاہدات کو ختم کرے اور یہ کہے کہ ہم سود ہرگز نہیں دیں گے کیونکہ سود اسلام میں حرام ہے۔

رضوی صاحب کے اس بیان پر دو رائے سامنے آرہی ہیں پہلی رائے والوں کی نظر میں خادم رضوی کا یہ بیان محض ایک لطیفہ ہے اور دوسری رائے والے کہتے ہیں کہ رضوی صاحب کا پیش کردہ نسخہ قرضوں سے نجات کا بہترین حل ہے۔ جو لوگ رضوی صاحب کے بیان کو لطیفہ سمجھ رہے ہیں ان کا مؤقف کچھ یوں ہے وہ کہتے ہیں اگرچہ سود کے لئے کوئی ملک ہم سے جنگ نہیں کرے گا مگر اسلام میں معاہدات کی پاسداری پر عمل کرنا لازم ہے۔ ہم پچھلی حکومتوں کے سودی قرضوں والے معاہدات کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔

دوسری رائے والے جو رضوی صاحب کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں ان کی دلیل ہے کہ جو چیز سرے سے ہی اسلام میں جائز نہ ہو اس پر ہونے والے تمام معاہدات بھی باطل ہوتے ہیں اور یہ سب جانتے ہیں کہ اسلام میں سود حرام ہے اور سود پر جتنے بھی معاہدات ہوئے ہیں اسلامی اصولوں کے مطابق سرے سے ہی ( ab initio ) باطل ہیں۔ لہذا ایسے معاہدات جو اسلام میں باطل قرار پاتے ہیں ان کی پاسداری مسلمانوں پر لازم نہیں۔ بلکہ ایسے معاہدات سے نکلنا مسلمان حکمرانوں پر واجب ہے جو حرام چیزوں پر کیے گئے ہیں۔ اگرچہ پچھلی حکومتوں نے ایسے معاہدات کیے بھی ہیں تو ہمیں ان معاہدات سے دستبردار ہونا چاہیے اور سود دینے سے انکار کرنا چاہیے۔

دونوں رائیں آپ قارئین تک پہنچا دی ہیں آپ لوگ بہتر رائے کا انتخاب کرسکتے ہیں مگر یہاں کچھ چیزیں ذکر کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ حقیقت ہے سود اسلام میں حرام ہے سود لینے اور دینے والے دونوں کے لئے قرآن مجید اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سخت وعید سنائی گئی ہے۔

اسی طرح سود کو رب تعالی کے ساتھ اعلانِ جنگ بھی کہا گیا ہے اور بھی بہت سی احادیث ہیں۔ زیادہ حوالے دینے کی حاجت درپیش نہیں آرہی کیونکہ سود کی حرمت اظہر من الشمس ہے سب جانتے ہیں سود اسلام میں حرام ہے جو نصِ قطعی سے ثابت ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم صرف قرض سے بچنے کے لئے سود کو حرام کہہ رہے ہیں اور اسلامی اصول کا سہارا لے رہے ہیں کہ ہم تو مسلمان ہیں اور اسلام میں سود حرام ہے لہذا ہم سود نہیں دے سکتے یا پھر ہم بحیثیت مسلمان دل سے بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ واقعی سود اسلام میں حرام ہے جس سے جان چھڑانی چاہیے؟

اگر واقعی حکومتِ وقت خادم رضوی کے نسخے پر عمل کرنا چاہتی ہے تو اس کی شروعات اپنے ملک سے کرے۔ پاکستان میں جتنا بھی سودی کاروبار ہے سب پر پابندی عائد کرے۔ بینکوں کو نوٹس بھیجنا چاہیے کہ آج کے بعد سود پر قرض نہیں دیا جائے گا۔ اور جن لوگوں نے سود پر قرضے لیے ہیں وہ بھی صرف اپنا اصل قرض واپس کریں گے اس قرض کی مد میں سود نہیں دیں گے۔ سودی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو ہنگامی بنیادوں پر علماء کرام کو بلایا جائے ان کی رائے سے استفادہ کرتے ہوئے پہلے پاکستان میں اسلامی معاشی نظام نافذ کرنا چاہیے۔

سودی نظام سے نجات حاصل کرنے کے لئے ایک کونسل تشکیل دی جائے جو روزانہ کی بنیاد پر ملک کے تمام جید علماء کرام کو بلائے ان سے اسلامی معاشی نظام پر سفارشات لے۔ اور ایسا اسلامی متبادل نظام تشکیل دینے کی کوشش کرے جو سودی نظام کے متبادل نظام بھی ہو اور ملکی معیشت کو بھی اس مشکل حالات میں زیادہ نقصان نہ پہنچے۔ اگر محض سودی قرضوں سے بچنے کے لئے اسلامی اصولوں پر عمل کرنا ہے اور دنیا والوں کو یہ کہنا کہ ہم تو مسلمان ہیں ہم سود نہیں دیں گے۔ کیونکہ ہم سود کھاتے ہیں اور نہ کسی کو کھلاتے ہیں سود اسلام میں حرام ہے لہذا ہم سود نہیں دے سکتے یہ دوغلا پن ہوگا۔

پہلے اپنے ملک سے سود کو ختم کریں پھر آپ دنیا والوں کو بھی قائل کرسکتے ہیں کہ سود اسلام میں حرام ہے ہم سود نہیں دے سکتے اگر محض قرضوں سے بچنے کے لئے سود کو حرام کہنا جبکہ اپنے ہی ملک میں سودی کاروبار کو جاری رکھنا احکامِ الہیہ کے ساتھ مذاق ہوگا جو کسی صورت بھی درست نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).