مریضوں کا حق ڈیم کی نذر


کراچی کے جناح ہاسپیٹل سے کون واقف نہیں۔ نہ صرف صوبے بھر کے تمام اضلاع سے مریض یہاں علاج کے لئے آتے ہیں بلوچستان سے بھی بڑی تعداد مریضوں کی آخری امید جناح اسپتال ہی ہوتی ہے۔

سندھ کے گاؤں دیہاتوں اور چھوٹے شھروں کے عطائی ڈاکٹروں، پرائیویٹ کلینکس اور سرکاری اسپتالوں میں علاج کراتے ہوئے مریضوں کا مرض جب بڑھ جاتا ہے تو ان مریضوں کے ورثاء کو سندھی زبان میں ایک ہی جملہ سننے کو ملتا ہے۔ ( مریض ۾ ہاڻ چاڙھو ڪونھی جناح کڻائی وڃوس ) یعنی مریض کی حالت بہتر نہیں ہورہی اسے جناح لے جائیں۔ ان قصائی صفت ڈاکٹروں کے ریفر کیے گئے مریض یا تو راستے میں ہی دم دیتے یا پھر جناح میں وہ کچھ دن بعد اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں۔

ایسا بھی نہیں کے جناح اسپتال میں کوئی علاج نہیں ہوتا۔ وہاں اچھے اور قابل ڈاکٹرز کی بھی کوئی کمی نہیں۔ کسی ایمبیسی کے تعاون سے اسی اسپتال میں جدید سہولیات سے آراستہ زچہ بچہ سینٹر بھی قائم ہے کئی اور شعبے بھی یہاں قائم بہت اجھے طریقی سے کام کر رہے ہیں لیکن اگر آپ کو کسی مریض کو اسپتال جانے کا اتفاق ہوا ہو یا آپ کسی کی تیمارداری کے لئے جائیں تو بخدا کانوں کو ہاتھ پھیرتے توبہ توبہ کرتے ہوئے لوٹیں گے۔ اکثر وارڈز کے اندر صفائی کا ناقص انتظام، ڈاکٹرز اور اسٹاف کا رویہ برداشت نہ کرنے جیسا ہوتا ہے۔

مجھے سال دو سال کراچی میں رپورٹنگ کا تجربہ رہا اور اتفاق سے ہیلتھ کی بیٹ ہونے کی وجہ سے اکثر اسپتالوں میں جانا ہوتا تھا۔ یقین مانیں جناح اسپتال سمیت کراچی کے کچھ اسپتالوں کا حال لکھنے بیٹھوں تو آپ خود کو دکھوں اور اذیتوں کے سمندر میں غوطہ زنی کرتے محسوس کریں گے۔

جناح کے برابر میں واقع بچوں کے اسپتال کا تو نام ہی دیہات سے آئے ہوئے لوگوں نے( بچہ مار اسپتال) رکھ دیا ہے۔ مریض کراچی کے علاقے کورنگی سے آیا ہو یا لیاری سے تھر کے نگرپارکر کا مریض ہو یا شھداد کوٹ کا، مریضوں کی اکثریت آپ کو ب دانتظامی سہولیات کی کمی، دواؤں کے نہ ہونے کی شکایت کرتے نظر آئیں گے۔ لیکن پھر بھی یہ اسپتال غریبوں اور نادار لوگوں کی ایک آخری امید بنا رہتا ہے۔

اسی جناح اسپتال کی انتظامیہ کے ایک فیصلے نے مجھے تو چونکا دیا ہے۔ خبر ہے کہ جناح اسپتال کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی صاحبہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے ڈیم فنڈ میں اسپتال کی طرف سے ترپن لاکھ سے زائد رقم کا چیف جمع کروایا ہے، کیا اسپتال کے سارے مسائل حل ہوگئے ہیں کے ڈاکٹر صاحبہ نے اتنی سخاوت کر دی وہ بھی غریب اور نادار مریضوں کے علاج کے فنڈ سے۔

اسپتال انتظامیہ کے اس اقدام پہ بس مرزا غالب کے غزل کا اک مصرع کہنے کو دل کرتا ہے۔ حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).