صحافت کا پوسٹ مارٹم: لاش پر تشدد کا کوئی قابل شناخت نشان نہیں


ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ مگر پاکستان میں جب ظلم بڑھتا ہے تو مظلوم مٹ جاتا ہے اور اسی طرح یہاں ثبوت پھر ثبوت ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ اتنے کچھ ہونے اور دکھائی دینے کے بعد بھی آج مظلوموں سے ظلم کا ثبوت مانگا جا رہا ہے۔ ظالم ہیں کہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔ انسانیت اور آزادی کے خلاف جرائم کے مرتکب سگ آزاد ہیں اور جرم ضعیفی کے مرتکب سنگ قید اور سزائے مرگ مفاجات کے منتظر ہیں۔

ظالم کی آواز گونج رہی ہے اور مظلوموں کی آہیں اورسسکیاں میڈیا مالکان کی تجوریوں میں سونے کی اینٹوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہیں۔ عین اس وقت جب عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری کی دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے تو ان کے آنکھ، کان اور زبان میڈیا پر نام نہاد معاشی بحران کی پٹیاں باندھی جا رہی ہیں۔ اسی طرح سیاسی نمائندوں کو کرپشن کا پھندا دکھا کر آواز بلند کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ کٹھ پتلی سویلین حکومت ابھی تک اقتدار کی سہاگ رات کے سحر اور اس کے بعد شروع ہنی مون پیریڈ سے باہر نہیں نکل پا رہی۔

ہمارے اداروں کے ”فارنسک ماہرین“ جمہوریت اور انسانی حقوق کے قتل کے بعد جائے وقوعہ کو فوری دھونے میں ایسے مگن ہیں کہ بے نظیر بھٹو اور جمال خشوگی کے قتل اور بعد کے واقعات کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ جمال خشوگی کو قتل کرنے اور جائے وقوعہ پاک صاف کرنے والی سعودی عرب کی پندرہ رکنی فارنسک ٹیم ہمارے اداروں کے آگے کیا بیچتی ہے۔ سعودی حکومت یا اس کی فارنسک ٹیم نے اگر ہمارے مقتول پاکستانی صحافی سلیم شہزاد سے متعلق عدالتی کمیشن رپورٹ پڑھ لی ہوتی تو آج اتنی مشکل نہ ہوتی۔

تحقیقات کرنے اور تعلقات بنانے کا یہ کمیشن ہی وہ تجربہ تھا جس سے ہماری عدلیہ آج بھرپور استفادہ کر رہی ہے۔ نجانے سعودی حکومت کو ایک بندہ مارنے اور اس کی لاش کو ٹھکانے لگانے کے واسطے پندرہ بندوں کی ضرورت کیوں پڑی، اور مقدمہ علیحدہ بن گیا بین الاقوامی سطح پر۔ ایسے قتل اور مقدمہ دفنانے کے لئے تو محض پانچ بزدل اور بددیانت لوگ چاہئیں۔ ایک بزدل اور بد دیانت قاتل جو چھپ کر وار کرتا ہے، ایک بزدل اور بد دیانت تفتیشی جس کے قدم اونچے دروازوں پر جا کر رک جاتے ہیں، ایک بزدل اور بددیانت جج جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ثبوت نہ مانگے اور پھر عدم ثبوت کا رونا روئے، ایک بزدل اور بد دیانت صحافتی نمائندہ نمائندگی کا حق نہ ادا کرے، اور ایک بزدل اور بد دیانت عام شہری جو سچ تو مانگے مگر اس کی خاطر جان دینے والے صحافی کے لئے آواز نہ اٹھائے۔

آج بھی ہماری جمہوریت، ہمارے میڈیا اور معاشرے کے ساتھ وہی کچھ ہو رہا ہے جو ایک صحافی سلیم شہزاد کے ساتھ ہوا تھا۔ مقتول میڈیا ہے، سیاست ہے، جمہوریت ہے، انسانی حقوق ہیں جبکے قاتل اور منصف بدلے ہی نہیں۔ وہی تفتیشی، وہی گواہ، وہی منصف، وہی صحافتی یونین کے نمائندے اور وہی فیصلے۔ دست قاتل سے قتل جاری ہیں، دست فیصل پہ فیصلے بھاری ہیں۔ ستم ضریفی یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں سے جمہوریت اور صحافت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔

اب کہ جب صحافت ایک زندہ لاش بن چکی ہے، کسی صحافی کی لاش ضروری نہیں۔ بظاہر سب کچھ اس آئین اور قانون کے مطابق ہو رہا ہے جس آئین اور قانون کی بالا دستی کے لئے ہم سب نے قربانیاں دی ہیں۔ اسی لئے تو شاید بڑے بڑے وکلاء اور ان کی تنظیمیں خاموش بیٹھی ہیں اور اپنے بڑے بڑے موکلوں سے کروڑوں روپوں کی فیس لے کر مائی لارڈ، مائی لارڈ کا ورد جاری ہے۔

ملک میں ایک معاشی بحران ہے، اس سے انکار نہیں۔ مگر جس ملک میں سیاست یرغمال ہو، وہاں معیشت میں اتار چڑھاؤ کتنا آزاد معیشت کے منصفانہ اصولوں پر مبنی ہو گا؟ پاکستان کی معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سیاست کی طرح یہ بھی آزاد نہیں۔ قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں سے منسلک پچاس سے زائد کاروباری ادارے خصوصی حکومتی رعایات، ٹیکس چھوٹ اور ارزاں اراضی کے ساتھ جس طرح اپنا اداراتی اثر و رسوخ استعمال کر رہے ہیں ویسی سہولیات سویلین کاروباری اداروں کو حاصل نہیں۔

متعلقہ کاروباری قوانین کا ان اداروں پر بلا تفریق اطلاق تو خواب میں بھی ممکن نہیں۔ اپنی اسی معاشی قوت اور ”خفیہ صلاحیتوں“ کے بل بوتے پر اسٹیبلشمنٹ نے کافی حد تک میڈیا بلکہ پورے ملک کی کاروباری دنیا پر اپنی دھاک بٹھا دی ہے۔ پارلیمنٹ تو دور کی بات اس کاروباری دنیا اور اس سے حاصل آمدنی کا حکومت یا اس کے متعلقہ اداروں کو بھی کچھ علم نہیں۔ اور تو اور اب پچاس سے زائد مقامی ریڈیو چینل تو طالبان کے پروپیگنڈہ کے مقابلے کے نام پر فوج کے ترجمان دفتر نے بغیر پیمرا کی اجازت کے کمرشل بنیادوں پر کھول دیے ہیں۔

یہ سب آج پاکستانی میڈیا کے ساتھ ہو رہا ہے جو الیکشن سے پہلے شروع ہو چکا تھا۔ ایسے ہی حالات میں کالے دستانے والوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ ایک ایڈورٹائز کو جیل بھیج دیا جس پر چار ارب کی کرپشن کا الزام تو بے بنیاد نہیں تھا مگر پھر اس کے مقدمے کو لٹکا دیا گیا جس باعث میڈیا کو اس کی طرف سے ملنے والے واجبات بند ہو گئے۔ اسی طرح پہلے سرکاری اشتہارات کی پالیسی پر سو موٹو نوٹس لے کر اشتہارات بند کرا دیے گئے۔ نئی حکومت آنے تک میڈیا کی سانس پھول چکی تھی۔

الیکشن سے پہلے اور بعد میں خلائی مخلوق کی گردان کے باعث عالمی سطح پر ہونے والی ہزیمت کا بدلہ لینے کا وقت آ گیا تھا۔ نئی حکومت نے اشتہارات بغیر کسی وارننگ اور مرحلہ وار متبادل پالیسی کے بند کر دیے۔ ٹیکس کے پیسے پر اشتہارات بے شک قابل بحث ہے مگر اتنے غصے اور جلدی میں یہ کرنا عوامی احتساب کے ایک ذریعے کو جان بوجھ کر ناکارہ بنانے کے مترادف ہے۔ حتی کہ پرانے واجبات پر بھی اتنا بلیک میل کیا گیا کہ مالکان نے متحد ہو کر لڑائی کی بجائے وہی روایتی کاروباری سوچ اپنائی اور ”چند شرپسند“ صحافیوں کی قربانی دے کر اپنے کاروبار بچا لئے۔

جو کچھ الیکشن میں کیا جانا تھا اس کے لئے پہلے سے جمہوریت پسند صحافیوں کا ناطقہ بند کیا گیا۔ یرغمال نجی کاروباری حلقوں نے عسکری ترجمان کی طرف سے چند صحافیوں اور میڈیا کے اداروں کو ریاست مخالف اور فوج مخالف ہونے جیسے جھوٹ کو سنجیدہ لینے میں غنیمت جانی اور ہاتھ کھینچ لئے۔ پھر الیکشن سے ہی پہلے نیکٹا سے جاری ایک سیکیورٹی الرٹ کے مطابق پانچ صحافیوں کی جان کو دہشت گردوں سے خطرہ ہونے کا اعلان کیا گیا۔ یہ تھریٹ زیادہ اور الرٹ کم تھا۔

اب جب یہ سب کچھ ہو چکا ہے تو میڈیا کی بحران کو کون بیوقوف ایک معمول کا معاشی یا مالیاتی بحران کہے گا۔ خاص کر جب اس بحران کا زیادہ شکار روایتی طور پر نظریاتی اور صحافتی و جمہوری اقدار کی پاسداری کرنے والے ادارے ہو رہے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ بھارت جیسے دشمن ملک کے طاقت ور میڈیا کے مقابلے میں اپنے میڈیا کو کمزور کر کے آخر کس کو فائدہ ہو گا؟ ہم نے پہلے بھی کارگل اور بھارتی جہاز کے اغوا پر بھارتی میڈیا کے پروپیگنڈہ سے گھبرا کر نجی ٹی وی میڈیا کا قانون بنایا تھا۔ اب ایک نئی صورت حال میں میڈیا کو نئے طریقے سے “قابل استعمال” بنانا ہے تاکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ پر کسی غیر قانونی کام کی چھینٹ نظر نہ آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).