بیگم اختر کی گائیکی میں درد اور تنہائی


اختری بائی کو جب انہوں نے شادی کی پیشکش کی تو وہ بلاتامل راضی ہو گئیں۔ 1945 میں اکتیس سالہ اختری بائی کا نکاح پانچ چھ افراد کی موجودگی میں اشتیاق صاحب کے دفتر میں انجام پایا۔ مولوی، دلہن، دلہا، ان کا مشترکہ دوست جوڑا سیدہ اور عباس رضا کے علاوہ گلاب نامی نوکر۔ گو بیگم اختر نے تمام زندگی اپنے سہاگ کو سر پہ بیٹھا کے رکھا۔ مجھے اس نکاح میں محبت سے زیادہ سماجی تحفظ کی حصولی اور دوست اور محبوب سے زیادہ سرپرستی کا عنصر غالب نظر آتا تھا۔ اگر یہ نہیں تو نکاح میں یہ شرط نہ رکھی جاتی کہ اختری بائی پردہ نشین گھریلو عورت بن کر گائیکی کو تیاگ دیں۔

اختری بائی سے بیگم اختر عباسی کا رتبہ حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اپنی جادوئی سریلی آواز کا گلا گھونٹ دیا۔ اور برسوں گانا نہیں گایا۔ عوامی محفلوں سے بچھڑ کر گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ لیکن اس کا نتیجہ شدید ڈیپریشن کی صورت میں ظاہر ہوا اور وہ درد کی تصویر بن کر رہ گئیں۔ ایسی تنیائی اور بے بسی میں جب ان کی ماں کا انتقال ہوا تو گویا ان کا سینہ درد سے پھٹ پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ صدمہ سے ماں کی قبر میں کود پڑیں۔

بیگم اختر سٹیج کی جانب جاتے ہوئے: اندرا گاندھی صف اول میں بیٹھی ہیں

اپنی فنی قامت کے باعث وہ واحد فنکارہ تھیں کہ جنہیں انڈیا ریڈیو کے اسٹوڈیو میں سگریٹ پینے کی اجازت تھی۔ بیگم اختر نے اپنے زمانے کے شعرا کی غزلوں کے علاوہ اساتذہ کے کلام کو بڑے سلیقے اور شعور سے گایا۔ مثلا

کوئی امید بر نہیں آتی (غالب)
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا (مومن)

انکی گائیکی نے اس دور کے شعرا کی غزلوں کو شہرتِ دوام دی۔ مثلا
آئے کچھ ابرِ شراب آئے (فیض)
کوئی یہ کہہ دے گلشن گلشن (جگر)
اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا (شکیل بدایونی)

اس مضمون کی تیاری میں مجھے ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو جاننے میں سب سے زیادہ مدد ان کی موسیقی کی شاگردوں کی گفتگو اور تحاریر سے ملی جو انہیں امی پکارتیں اور اولادوں کی طرح پیار کرتیں۔ ان میں ایک شانتی ہرنند اور دوسری ریٹا گانگلی ہیں۔ جنہوں نے ان کی گائیکی کے انداز کو آگے بڑھایا اور خود بھی اس فن میں نام کمایا۔ ان کے مطابق باوجود کم پڑھی لکھی ہونے کے بیگم اختر کی شخصیت میں بلا کا سلیقہ، شعور، شائستگی اور اردو ادب کی سمجھ تھی۔ وہ صوفی مزاج، محبتی اور فراخ دل خاتون تھیں۔ سادہ کھانے بالخصوص ارہر کی دال پسند تھی۔ گھر میں مردانہ کرتی اور لنگی پہنتی تھیں۔ اپنی زندگی کے تجربات کے سبب دکھ کے دوروں کی کیفیت سے گزرتیں جو دنوں برقرار رہتی۔ ایک برسات کی صبح انہوں نے گانا شروع کیا۔

چھا رہی ہے کالی گھٹا جیا مورا لہرائے ہے

بیگم اختر پٹیالہ گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں

جسے وہ وقفہ کے بغیر مسلسل گاتی رہیں اور اس تمام وقت ان کے رخساروں پہ آنسو بہتے ہی رہے۔ ان کی شاگرد ریٹا کا کہنا تھا کہ وہ ایک تنہا انسان تھیں۔ اور ہر بڑی پرفارمنس کے بعد گھر آ کر بہت روتی تھیں۔ ان کی زندگی اور حالات کی بے یقینی نے ان میں انگزائٹی کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ اور وہ“ یا اللہ! اب کیا ہو گا؟ ”کی مستقل گردان کرتیں۔

ان کا بچپن سے اللہ اور مذہب سے قلبی ناتہ جڑ گیا تھا۔ ہر کانسرٹ سے قبل وہ اپنی امی کی شکل کا تصور کر کے مولا علی سے مدد کی طالب ہوتیں۔ نماز، روزے اور حج کی ادائیگی کی۔ اور محرم کے مہینہ میں گانے کا سلسلہ منقطع کر دیتیں۔ محرم کی نو تاریخ کو فیض آباد کے محلے میں مشتری بائی کا چپ تعزیہ کا جلوس نکلتا جس میں مشتری اور اختری بائی کالے لباس پہنے جلوس میں آگے آگے ہوتیں۔ وہ اپنی شاگردوں کو مخاطب کر کے یہ بھی کہا کرتیں“ دیکھو بیٹا ہمارے لیے خدا کہیں نہ کہیں بیٹھے رہتا ہے تو ہم اس خدا کو ڈھونڈتے ہیں اور اسی کے لیے گاتے ہیں۔ ”بیگم اختر نے اکثر اپنی تین خواہشوں کو بار بار دھرایا۔ کہ وہ سہاگن مریں۔ گانے کو خوبصورتی سے گاتے ہوئے مریں۔ اور مرنے کے بعد ماں کے پہلو میں دفن ہوں۔

یہ کیا عجب اتفاق ہے کہ وہ احمد آباد کے ایک کانسرٹ میں گا رہی تھیں کہ سُر اٹھاتے ہوئے انہیں دل کا دورہ پڑا۔ یہ بات 27 اکتوبر 1974 کی تھی۔ اسپتال میں داخل ہوئیں اور پھر 30 اکتوبر 1974 کو احمد آباد میں انتقال ہوا۔ ان کے شوہر موت کے وقت سامنے نہ تھے مگر وہ سہاگن مریں اور پھر ان کی میت کو لکھنو میں ماں کے پہلو میں دفنایا گیا۔ تاہم غزل کی ملکہ جنہوں نے غزل کو کوٹھے سے اتار کر عوامی محفلوں میں پہنچایا۔ عوام کے دلوں میں برسوں راج کریں گی۔

بیگم اختر نے اپنے فنی کیرئیر کے دوران 400 سے زائدگیت اور غزلیں گائیں۔ انہیں حسبِ ذیل ایوارڈز سے نوازا گیا۔
ایوارڈز۔ 1968 پدما شری ایوارڈ
1972 سنگیت نکت اکیڈمی ایوارڈ
1975 پدما بھوشن حکومتِ ہند کی جانب سے (موت کے بعد)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2