بیمار شہروں کے چہرے


ایک شخص بے حال ہورہا ہے۔ اس کابس نہیں چل رہا کہ وہ میونسپل کارپوریشن کے ”کارندوں“ کا کیا کرے۔ میونسپل کا ایک گندا سا ٹرک کھڑا ہے اور کارندے گنے کے جوس کی ایک مشین اٹھا کر گاڑی میں رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ گنے کی مشین کا مالک شخص گونگا ہے۔ وہ بول بھی نہیں سکتا۔ وہ اپنے درد سے چیخ بھی نہیں سکتا۔ زبان پر قدرت کا قفل لگا ہے۔ ہاتھ پاوں بے بس ہیں کہ پولیس کے غراتے، کالے اہلکار سامنے کھڑے ہیں۔ مشین زمین پر گری، ٹوٹی، ادھڑی ہوئی پڑی ہے۔

کارندوں نے مشین اٹھاکر گاڑی میں ڈال دی۔ گونگے کا صبرجواب دے گیا۔ اینٹ اٹھا کر مارنے لگا۔ کارندوں اور اہلکاروں نے اسے پکڑ لیا۔ گاڑی چل پڑی۔ کارندے دوڑ کر گاڑی میں بیٹھ گئے اور وہ لاغر سا گونگا جوان سڑک پر بیٹھ کر بے بسی سے سرپیٹتا اور بین کرتا رہ گیا۔ یہ پنجاب کی کوئی سڑک تھی جہاں سے میونسپل کارپوریشن ناجائز تجاوزات کا خاتمہ کررہی تھی۔

ایک طرف دیکھیں تو ان ناجائز تجاوزات نے شہروں کا حسن تباہ کردیا ہے۔ سڑکیں تنگ کرکے رکھ دی ہیں۔ مارکیٹیں انہیں کی وجہ سے گنجان ہیں۔ ٹریفک کے سارے مسائل انہیں تجاوزات اور سڑک پر قائم پارکنگ کی وجہ سے ہیں۔ اگر سڑکوں کو آج بھی ان کی اصل حدود مل جائیں تو ٹریفک کے مسائل آدھے سے زیادہ حل ہوجائیں۔

دوسری طرف دیکھیں تو ملک کی آدھی آبادی کا روز گار اسی تھڑے، ریڑھی، ڈھابے اور چھپر سے وابستہ ہے۔ انہیں میں روزانہ کروڑوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ ہر غریب سے غریب شخص ایک چھوٹا سا کاروبار کھول کر اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتا ہے۔ ایک ریڑھی، چاول کی ایک دیگ، چند پلیٹیں اور چمچ جمع کرکے بھی ایک شخص روز شام کو بچوں کی روزی کمالیتا ہے۔ چند بنیان اور جرابیں رکھ کر بیچنے والا بھی اپنے چھوٹے موٹے اخراجات کے لیے پیسے جوڑ لیتا ہے۔

تھڑے صاف کرنے، سڑکیں کھولنے اور ڈھابے گرانے کا مطلب ہے آپ ہزاروں لاکھوں لوگوں کا روزگار چھین کر انہیں بھیک مانگنے یا چوری کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔ یہ جو کمزور اور نچلا طبقہ اپنی محنت سے کما کر کھا رہا ہے۔ حکومت کو بجلی، گیس، پانی اور دیگر ٹیکس بھر رہا ہے۔ جس کو عیاشی کی فرصت نہیں ملتی۔ جس کو کبھی غلط حرکتوں اور جرائم کے لیے ٹائم نہیں ملتا۔ صبح سویرے اذانوں سے پہلے اس کی دیگ چڑھتی ہے۔ آٹھ بجے سے پہلے وہ چوراہے پر کھڑا ہوتا ہے۔

ایسے لاکھوں، کروڑوں لوگوں کو آپ روزگار مہیا کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتے۔ آپ چیخ کر کر کہہ رہے ہیں کہ خزانہ خالی ہے۔ مہنگائی پر مہنگائی بڑھائے جارہے ہیں مگر معیشت کو سہارا نہیں دے سکتے۔ آپ کا ملک بیروزگاری کا شکار ہے۔ بڑے بڑے کاروبار تباہ ہورہے ہیں۔ مگر آپ ہیں کہ ملک میں بیروزگاری کو مزید بڑھانے پر تلے ہیں۔ قانون اندھا ہوتا ہے۔ مان لیا کہ قانون اندھا ہوتا ہے مگر حاکم تو اندھا نہیں ہوتاناں؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں مشہور ہے کہ قحط میں آپ نے چوری کا حد کالعدم کردیا۔ کہ ایسے ایمرجنسی حالات میں چوری کرنے والا کسی نفسانی خواہش یا اخلاقی بگاڑ سے نہیں اپنی بھوک کی مجبوری سے چوری کرتا ہے۔ حکومت اگر نا اہل ہے، یا اس کی پوری کوشش کے باوجود اس کے بس میں نہیں ہے کہ وہ عوام کو روٹی دے سکے تو پھر اپنے جرم کی سزا انہیں کیوں دیتی ہے؟

ناجائز تجاوزات کے خاتمے کے لیے کوئٹہ کی ہماری شہری حکومت نے بھی اپنے آغاز میں کام شروع کیا تھا۔ نتیجہ کیا نکلا وہ آج ہم کوئٹہ کے شہری اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ پارٹی اپنی ساکھ برباد کرکے اپنا ووٹ ختم کراچکی۔ جبکہ تجاوزات سے اب بھی شہر اٹا پڑا ہے۔

بات اصل کیا ہے؟ وہی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تجاوزات ہمارے شہروں کی بدصورتی ہیں۔ مگر یہ وہ بدصورتی ہے جو ہماری اندر کی بیماری کے باعث ہمارے چہرے پر عیاں ہے۔ دق اور ٹی بی کے مریض کا چہرہ اگر ہڈیوں کا پنجرہ بن جائے، جلد سیاہ ہوجائے، آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ جائیں تو اس کا علاج یہ ہرگز نہیں کہ آپ اس کے چہرے پر سفیدہ، میک اپ، کریمیں اور ملتانی مٹی مل مل کر اسے گورا کرنے کی کوشش کریں۔ آپ جب تک مریض کی بیماری کا علاج نہیں کریں گے اس کاچہرہ کبھی گورا نہیں ہوگا۔ آپ اس کی بیماری کا علاج کریں۔ جب اس کے جسم میں خون کی مقدار پوری ہوجائے۔ ہڈیوں میں جان آجائے۔ بدن کی لاغری چلی جائے۔ جسم تندرست وتوانا ہوجائے تو آپ دیکھیں گے کہ اس کے چہرے پر خود بخود نکھار آجائے گا۔ معمولی سے میک اپ سے اس کا چہرہ دلکش نظر آئے گا۔ بشاشت اس کی آنکھوں میں عیاں ہوگی۔

بالکل یہی طریقہ ہے اپنے شہروں کو خوبصورت بنانے کا۔ ہمارے ہاں مہنگائی عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔ بے روزی کا عفریت ننگا ناچ رہا ہے۔ غریب خط غربت سے روز بروز نیچے گر رہا ہے۔ خزانہ خالی ہے۔ ایسے میں کمائی کے لیے لوگوں کو کچھ تو کرنا پڑے گا۔ بنیان اور جرابیں بیچنے والے کا کل سرمایہ آٹھ دس ہزار روپے ہے جو اس نے کاروبار میں پھنسا رکھا ہے۔ وہ دن میں چند سو روپے کماتا ہے اس میں سے وہ اپنے بچوں کے کھانے، تعلیم اور صحت کے اخراجات پورے کرتا ہے۔

لوگوں کو تھڑے سے اٹھانے کا وقت تب آئے گا جب آپ کا خزانہ بھرا ہوگا۔ آپ اپنے شہروں کو یورپ وامریکہ کے شہروں جیسا تب بنا پائیں گے جب آپ کا روپیہ ڈالر اور یورو کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔ جب آپ برطانیہ کی طرح بیروزگاروں کے لیے وظائف جاری کریں تو بے روزگار ریڑھی لگانے بازار نہیں نکلیں گے۔ آپ کے عوام کی قوت خرید جب بڑھے گی تو یہ لوگ مہنگی چیزیں بھی خرید سکیں گے تب انہیں تھڑے پر رکھی چیزیں خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ جب آپ کی معیشت مضبوط ہوگی تو آپ ملک کو بہترین تعلیم دے کر شعور دے سکیں گے۔ انہیں صفائی ستھرائی کی تہذیب بھی سکھاسکیں گے۔ جب لوگوں کی معاشی حالت درست ہوگی تو وہ خوبخود چھابڑے، چھپر، ڈھابے اور ٹین کے کیبن چھوڑ کر شیشوں کی دکانیں سجالیں گے۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے یورپ اور امریکہ کو فالو کرنا ہوتا ہے مگر سوچے سمجھے بغیر۔ ہم نہیں سوچتے یورپ کو یہ تہذیب یافتہ شہری، کھلی سڑکیں، صاف عمارتیں، خوبصورت شاپنگ مال اور روشنیاں کتنے صدیوں کی جد وجہد کے بعدملی ہیں۔ ہم ان بیماریوں کی صحیح تشخیص نہیں کرتے جس نے ہمارے چہرے پر سیاہ حلقے ڈال دیے ہیں۔ جس نے ہمارے چہرے کی سفیدی سیاہی میں بدل دی ہے۔ ہم چل پڑے ہیں میونسپل کے بے رحم کارندوں کے ذریعے اپنے شہروں کو صاف کرنے۔ اپنی بے روزگاری، مہنگائی، بے تعلیمی اور غربت کا علاج کیجیے آپ کے شہر خود بخود یورپ بن جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).