نانا نفرت نہیں کرتے تھے!


 نانا جی کسی اور ہی دنیا کے باسی تھے۔ شاید اس دنیا کی خوبصورتی بیان کرنے کے لئے معروف استعاروں سے کچھ زیادہ کی ضرورت ہے۔ خوبصورت، حسین ، تابناک، خواب ناک اور رنگوں سے مزین جیسے استعارے اپنے مفاہیم میں تو اپنے قد کے برابر ہیں مگر نانا کی دنیا میں بونے ہیں۔ معلوم نہیں آپ کے ساتھ ایسا ہوتا ہے یا نہیں مگر میرے ساتھ بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ خیال کو مقید کرنے کے لئے لفظ کا قالب چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ میں جب بھی اس دنیا کا تصور کرتا ہوں تو اس کے آسمان پر جو سورج نظر آتا ہے وہ ن۔م۔ راشد کی نظم کا کریم سورج ہوتا ہے۔ گرم شاموں میں خود غروب ہو جاتا ہے مگر سائے چھوڑ جاتا ہے۔

میں اس کی زمین پر غور کرتا ہوں تو مجھے جیکسن پولاک کے وہ فن پارے یاد آتے ہیں جس میں ہزاروں رنگ کینوس پر ایک دوسرے میں مدغم اور ایسے بکھرے ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے کا حصہ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے جدا نظر آتے ہیں۔ اس دنیا کی کسی گھر میں جھانکیں تو صحن سے بچوں کے ہنسی کی آوازیں آتی ہیں۔ پیڑوں پر پرندے صدیوں سے بیٹھے محسوس ہوتے ہیں کیونکہ ناناجی کے گھر میں ان کو انسان جیسا امان حاصل تھا۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے استاد بسم اللہ خان کہیں بیٹھ کر شہنائی بجا رہے ہیں اور ان کا ساتھ دینے کے لئے کسی کونے سے ذاکر حسین کے طبلے کی آواز آتی ہے۔

صحن میں نانا جی اجلے سفید لباس میں چارپائی پر بیٹھے ہیں اور میں بالکل ان کے ساتھ جڑ کے بیٹھا ہوں۔ ان کی سفید ریش ان کے سفید لباس سے زیادہ اجلی ہے۔ وہ کوئی کہانی سنا رہے تھے یا کچھ اور بتا رہے تھے مگر یوں لگتا تھا جیسے گوتم کا آخری وعظ سنائی دے رہا ہو۔ کہیں پڑھا تھا کہ لیونارڈو ڈونچی کو مونا لیزا تخلیق کرنے میں سولہ برس لگے تھے۔ نانا جی کو اپنی دنیا بسانے میں پینسٹھ سال لگ گئے۔

مجھے اندازہ ہے کہ یہ باتیں خیالی محسوس ہوتی ہیں۔ ہو سکتا ایسی دنیا میرا اپنا تخیل ہو مگر میں اس تخیل کے ساتھ چھبیس برس جیا ہوں۔نانا جی کے انتقال کو چھبیس برس ہو گئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو زندگی میں جب بھی کہیں خوبصورتی نظر آئی، کہیں محبت نظر آئی، کہیں خوشی، ایثار، ہمدردی یا رحم نظر آیاتو محسوس ہوا جیسے یہ سارے استعارے معصوم بچوں کی صورت دھار کر نانا جی کا دامن تھامے، چہرے پر مسکراہٹ سجائے گزر رہے ہیں۔نانا کوئی سماجی کارکن نہیں تھے۔ ان کو کسی مسیحائی کا کوئی دعوی نہیں تھا۔ وہ بس خاموشی سے اپنی زندگی جیئے جا رہے تھے۔ ایسے جیتے تھے کہ وہ خوش تھے اور ان کے ارد گرد ان کے سارے متعلقین بھی خوش تھے۔

 میں بہت چھوٹا رہا ہوں گا جب گرمیوں میں رمضان کا مہینہ آیا تھا۔ گاﺅں میں خال ہی کسی کے پاس گاڑی ہوا کرتی ہے۔ نانا جی کے پاس ایک اچھی گاڑی تھی جسے ہم موٹر کہتے تھے۔ گاﺅں میں بجلی نہیں تھی۔ رمضان کی تپتی دوپہر میں نانا جی آواز دیتے، تورو چلو۔ تورو پشتو میں سانولے کو کہتے ہیں۔ میں شاید سانولا رہا ہوں گا تو انہوں نے تورو نام رکھا۔

ہم گاﺅں سے کوئٹہ جاتے۔ اس زمانے میں آنے جانے میں چار گھنٹے صرف ہو جاتے تھے۔ نانا جی وہاں عالمو چوک سے برف کی دو لادیاں خریدتے۔ پھر وہاں سے قریبا پانچ کلومیٹر کا مزید جناح روڈ تک کا سفر کرتے تاکہ مجھے ایک دکان سے چاکلیٹ لے دیں۔ واپس گاﺅں آتے۔ اپنے ہاتھوں سے برف کو ٹکڑوں میں توڑتے۔ ان کو شاپروں میں ڈال کر پورے گاﺅں کے بچوں میں بانٹ دیتے تاکہ روزہ دار ٹھنڈا پانی سکیں۔ مغرب کی اذان ہوتی تو آرام سے افطار کر کے مجھے ساتھ مسجد لے جاتے۔ اکثر مولوی صاحب یا پہلی یا دوسری رکعت میں ہوتے۔

ایک دن نماز کے بعد مولوی صاحب سے کہنے لگے، ’مولوی صاحب، آپ ان روزہ داروں کو اتنا وقت تو دیا کریں کہ یہ گھر سے کم ازکم پانی یا شربت پی کر آرام سے مسجد تک تو پہنچ سکیں‘۔ مولوی صاحب نے کہا، ‘ حاجی صاحب مغرب کی نماز جلدی قضا ہوتی ہے‘۔ نانا جی مسکرائے اور دھیرے سے کہا، ’ جس کے لئے پڑھتے ہیں اس کے ہاں قضا نہیں ہوتی‘۔ باغ بیچتے تو پورے گاﺅں کے لئے ایک ایک سوٹ تحفے میں لاتے۔راہ چلتے کسی بچے کو دیکھتے تو ضرور اسے کچھ پیسے دیتے۔ ہر پیدل چلنے والے کو لفٹ دیتے۔ ہر مریض کی عیادت کو جاتے۔ہر خوشی غمی میں شرکت کرتے۔ پھولوں، پیڑوں اور پرندوں سے محبت کرتے تھے۔ ہمیشہ مسکراتے نظر آتے۔

ایک د ن اپنے باغ جا رہے تھے تو مولوی صاحب بھی ساتھ تھے۔ مجھے صحیح یاد نہیں کہ باتوں کی پوری تفصیل کیا تھی تاہم اب جب غور کرتا ہوں تو سمجھ آتا ہے کہ وہ مولوی صاحب کو کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ اندازہ اس کہانی سے لگایا جو انہوں نے مولوی صاحب کو سنائی تھی۔

 انہوں نے مولوی صاحب سے پوچھا تھا کہ اگر آپ میری یہ گاڑی چلا رہے ہوں اور ایک ایسی جگہ آجائے جہاں سڑک پر چھ مزدور کام کر رہے ہوں اور آپ کے پاس صرف دو راستے ہوں، یا تو گاڑی ان چھ مزدوروں پر چڑھا دیں یا پھر سڑک کے دوسری طرف بس کے انتظار میں بیٹھی ایک خاتون پر گاڑی چڑھا دیں، آپ دونوں میں سے کیا کریں گے؟ مولوی صاحب نے پہلے تو کہا کہ بریک لگاﺅں گا۔ نانا جی بولے بریک فیل ہے مولوی صاحب۔ مولوی صاحب بولے کہ چھ لوگوں کو بچاﺅں گا۔ کیوں نانا نے پوچھا؟ مولوی صاحب نے کہا کہ ایک کے مقابلے میں چھ جانیں بچ جائیں گی۔

نانا جی نے پھر پوچھا، اچھا اب یوں کر لیتے ہیں کہ آپ ایک پل پر کھڑے ہیں۔آپ کے ساتھ ایک موٹا آدمی کھڑا ہے جو بدصورت بھی ہے اور گونگا بھی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہی چھ مزدور سڑک پر کام کر رہے ہیں۔ ایک گاڑی ان کو کچلنے آ رہی ہے۔ آپ کے پاس صرف ایک راستہ ہے کہ اس موٹے، بدصورت اور گونگے آدمی کو دھکا دیں تو یہ گاڑی کے سامنے گر جائے گا اور گاڑی رک جائے گی۔ کیا آپ ان چھ مزدوروں کی جان بچائیں گے؟ مولوی صاحب ہڑبڑائے، بولے بچانا تو چاہتا ہوں مگر اس آدمی کا کیا قصور ہے کہ اسے دھکا دوں؟

نانا جی نے پوچھا کہ اس عورت کا کیا قصور تھا جو بس کا انتظار کر رہی تھی؟ مولوی صاحب نے کہا، مگر وہاں تو مجبوری تھی۔ کیا مجبوری تھی؟ وہاں چھ آدمیوں کی زندگی بچانی ضروری تھی۔ نانا بولے یہاں بھی وہی چھ آدمیوں کی زندگی کا سوال ہے۔ مولوی صاحب نے کہا مجھے نہیں پتہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ نانا جی بولے، ’ میں کچھ نہیں کہہ رہا، میں بس اتنا کہہ رہا ہوں کہ سچائی یا حق پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہوتی۔ انصاف اور اخلاق کے سارے پانے متعین نہیں ہوتے۔ حق صرف کسی ایک گروہ کے پاس نہیں ہوتا۔ صرف ایک عینک سے چیزوں کو نہیں دیکھنا چاہیے‘۔

 بہت عرصے بعد کہیں جا کر لاءکالج کی کسی کتاب میں انصاف کے حوالے سے یہ پیراڈوکس پڑھا تھا جو نانا جی نے کہانی میں بیان کیا تھا۔ نانا جی ایسے ہی تھے۔اب غور کرتا ہوں کہ اپنی دنیا بسانے کے لئے نانا جی کیا کرتے تھے، تو جواب ملتا ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں بانٹتے تھے۔ انسانوں سے پیار کرتے تھے۔ پیڑوں اور پرندوں سے محبت کرتے تھے۔ کسی کا دل نہیں دکھاتے تھے۔سادہ عقل و فہم کی باتیں کرتے تھے۔ نفرت نہیں کرتے تھے۔ اور ہاں مجھے کہانیاں سناتے تھے۔

چند پہلے گاﺅں جانا ہوا۔ کچھ بھی ویسا نہیں تھا۔ زمین بنجر تھی اور آسمان روٹھ چکا تھا۔ شہر میں چلتے چلتے جانے کیوں ذہن میں یہ خیال آیا کہ کسی بھی بیٹھے ہوئے، چلتے ہوئے یا کھڑے ہوئے شخص کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں تھی۔ یوں جیسے خوشی روٹھ چکی ہو۔ یہ مشاہدہ آپ اپنے ارد گرد بھی کر سکتے ہیں۔ہماری زندگیوں سے خوشیاں جانے کیوں روٹھ چکی ہیں؟ اس کی بہت سے سیاسی، سماجی ، لسانی اور مذہبی وجوہات ہوں گی مگر ان سب وجوہات میں اصل چیز جو کارفرما ہے وہ سماج میں اثر پذیر گروہوں کا جبر ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا میں اور آپ اس جبر میں حصہ دار ہیں جس نے انسانوں سے خوشی چھین لی ہے؟

یہ ٹھیک ہے کہ آپ اپنی طرح کی دنیا بنانا چاہتے ہیں، میں اپنی طرح کی دنیا بنانا چاہتا ہوں۔ مجھے اور آپ کو ایک دوسرے سے کئی طرح کے اختلاف ہو سکتے ہیں مگر کیا پیاس لگے تو پانی پینا چاہیے اس بات میں کوئی اختلاف ہے؟ کیا میں اور آپ یا دو بدترین اختلاف رکھنے والے احباب ایک ٹرین میں سفر کرنے سے اس لئے انکار کر سکتے ہیں کہ فلاں جا رہا ہے تو میں اس ٹرین میں سفر نہیں کروں گا؟ ظاہر ہے ایسے کسی اختلاف کا امکان نہیں ہے۔

پھر اس بات پر کیا اختلاف ہو سکتا ہے کہ دکھ سب کو ہوتا ہے۔ تکلیف ہر ایک کو پہنچتی ہے۔ درد ہر شخص کو ہوتا ہے۔ اس بری طرح منقسم سماج اور بہت سطحی وجوہات کی بنا پر منقسم سماج میںآپ کی چاہت کچھ بھی ہو سکتی ہے مگر اپنی فکر، اپنی چاہت، اپنے نظریئے، اپنے عقیدے کے لئے کسی دوسرے کو تکلیف اور اذیت دینا کیسا ٹھیک ہو سکتا ہے؟ نفرت کرنا ٹھیک کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا میں اور آپ مل کر اپنی اپنی جگہ نانا جی جیسی دنیا تخلیق نہیں کر سکتے جس میں انسان کم از کم مسکرا تو سکیں؟

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah