محبت کا ایورسٹ


مُحبی ظفر عمران نے پچھلے کچھ عرصہ میں ناسٹیلجیا لکھنے کی “ات” مچا رکھی تھی۔ اک دم ہی خاموش ہو گئے، یا بیلن کا دیدار کروا کر خاموش کروا دیئے گئے۔ ابھی اس بات کا فیصلہ باقی ہے۔

مگر خدا بھلا کرے فطرت کے گھومتے ہوئے نظام کا، جسے شاید زمان و مکاں سے مبرا ہی کوئی ہستی ہی سمجھ سکتی ہو، میری سمجھ سے تو باہر ہے۔ اس نظام کے گھومتے گھمانے میں خادم ایک تو مستنصر حسین تارڑ کے “جپسی” پر جا دوبارہ وارد ہوا، اس اب کی بار جو شاید کوئی بیس برس بعد پڑھا، تو یہ رپورتاژ نما ناول گلے پڑ گیا۔ اور ایسا پڑا کہ شاید اب تاعمر اس کی خوشبو آتی رہے گی۔ پھر حال ہی میں پالو کوہلو کا “تارڑانہ” کتابچہ “ہپی” کے نام کا ہاتھ لگ گیا، تو گویا جپسی کے سیاہ گلاب کے ساتھ ساتھ، چنبیلی کا گلدستہ بھی ہاتھ لگ گیا۔

صاحبانِ علم اختلاف کریں، بسم اللہ، مگر مجھے تو تارڑ اپنے محدود سے پڑھے جانے والے ادب میں سب سے طویل قامت لکھاری محسوس ہوتے ہیں۔ جپسی کا ناسٹیلجیا، ہپی سے کہیں بہتر ہے، مگر یارو، ہپی بھی کسی سے کم نہیں، بالکل بھی کم نہیں۔ جپسی شاید تیس، پینتیس برس قبل کی تخلیق ہے، ہپی اس سال کی تخلیق ہے۔

تارڑ صاحب کے جپسی پر اک مکمل مضمون مجھ پر ادھار ہے، مگر ہپی، جو پرسوں دیہاڑے ہی ختم کیا، اس میں پالو اور کارلا کے کرداروں کا ارتقاء اور اٹھان بھی کمال ہے، جو، میری رائے میں، بہرحال جپسی کے تارڑ اور اس سوئس خاتون کے کرداروں کی اٹھان سے کمتر ہے، مگر یہاں شاید میرے اندر کا متعصب پاکستانی بول رہا ہے جس کی قومی زبان اردو ہے۔

مگر سچ کہتا ہوں کہ دونوں کتب کو نیوٹرل ہو کر پڑھا اور دیکھا ہے تو جپسی، ہپی کی انسانی قامت کے سامنے اک دیو ہے۔ اس پر بھی بات پھر کبھی، مگر جلد ہی۔ فی الحال تو ہپی کے اک پیراگراف کا لطف اٹھائیے جس میں پالو، اپنی روحانی تکمیل کی خاطر، کارلا کی محبت کو ترکی کے شہر استنبول میں ٹھکرا دیتا ہے اور یوں، دونوں اپنی اپنی زندگی کی لکیر پر اک دوسرے سے الگ ہو کر چل پڑتے ہیں: کارلا نیپال، پالو ترکی میں رہتا ہے۔

پالو روحانی تکمیل حاصل نہیں کرپاتا، مگر یہ کارلا کی محبت کی فتح ہی ہے جس نے پالو کو چالیس، شاید پچاس برس بعد بھی یہ روئداد لکھنے پر مجبور کر دیا۔

اب پیراگراف پڑھئیے جناب:

“مجھے قطعا معلوم نہ تھا کہ میں کسی سے ایسے محبت کر سکوں گی، جیسے میں نے تم سے کی۔۔۔۔۔۔ یہ کچھ ایسا ہے کہ جس کو میں بیان نہیں کر سکتی، مگر تم سے محبت ہوتے ہی جیسے میرے دل کی دنیا وا ہو گئی، اور صرف اس اک لمحہ کے صدقے ہی میں تم سے ساری عمر محبت کروں گی۔ میں جب نیپال میں ہونگی، میں تم سے محبت کروں گی۔ جب میں واپس ایمسٹرڈیم آؤنگی، میں تم سے محبت کروں گی۔ میں جس دن، جس وقت کسی اور کے ساتھ ہو لوں گی، میں تب بھی تم سے ہی محبت کر رہی ہوں گی۔

“خدا – میں نہیں جانتی کہ وہ موجود بھی ہے کہ نہیں – مگر شاید وہ اگر یہاں موجود ہے اور میرے لفظ سن رہا ہے تو میں کہتی ہوں کہ میں، جو محبت کرنے سے کتراتی تھی، اب محبت کرتی ہوں۔ میں، جو محبت کے بغیر زندگی گزارنے کی بےچارگی سے واقف ہوں، کہتی ہوں کہ یہ بےچارگی کسی بھی تاریک اور ٹھنڈے کمرے جیسی ہوتی ہے کہ جہاں شاید تکلیف کا احساس بھی نہیں پہنچ سکتا۔

“مجھے تم سے محبت ہوئی تو میں نے محبت کرنا سیکھا۔ ہم جب محبت کرتے ہیں تو ہمیں خود ہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم محبت میں ہیں۔”

محبت، شاید کسی بھی روحانیت کی رائی کے سامنے ایورسٹ کا پہاڑ ہوتی ہے۔ نہ ہوتی تو تقریبا پچاس برس بعد بھی پالو اِس ایورسٹ کے پیروں میں نہ پڑا ہوتا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).