خالد حسینی کی چوتھی کتاب، بے بس باپ کی صدا


افغان نژاد امریکی مصنف خالد حسینی کا پہلا ناول ’دی کائٹ رنر‘ سن دو ہزار تین میں شائع ہوا۔ ناول نے دنیا بھر کے قارئین کو متاثر کیا اور خالد حسینی ایک شہرہ آفاق مصنف بن گئے۔ ناول کی کہانی اور زبان اتنی دلکش ہے کہ پڑھنے والوں پر سحر طاری ہو جاتا ہے۔ ایک بار شروع کرتے ہیں تو بس پھر پڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ پورا ناول ایک ہی نشست میں پڑھنا چاہتے ہیں۔
خالد حسینی کا لکھنے کا انداز ہی کچھ ایسا ہے کہ ہر لفظ قاری کے دل میں اترتا چلا جاتا ہے۔

‘سی پرئیر‘ (Sea Prayer) خالد حسینی کی چوتھی کتاب ہے۔ یہ ایک مختصر سی کہانی ہے۔ اگرچہ کتاب کے کل چھیالیس صفحے ہیں لیکن اگر کہانی کے الفاظ کو اکٹھا کیا جائے تو دو تین صفحوں میں سمٹ آئے۔ جنگ سے اجڑے علاقوں سے ہجرت کر کے دوسرے ملکوں میں محفوظ ٹھکانوں کے متلاشی پناہ گزینوں کا درد اس کہانی میں بھرا ہوا ہے۔ اپنا گھر بار، اپنا ملک، سب کچھ پیچھے چھوڑ کر جان بچا کر نکلنے والوں کے دلوں پہ کیا بیتتی ہے وہ اس چھوٹی سی کہانی میں نظر آتا ہے۔

یہ کتاب پناہ گزینوں کے موجودہ بحران کے رد عمل میں لکھی گئی ہے۔ ’سی پرئیر‘ ایک خط کی صورت لکھی کہانی ہے جس میں ایک باپ اپنے بیٹے سے مخاطب ہے۔ باپ اپنی گود میں سوئے بچے کو دیکھتا ہے جب وہ ایک پرخطر سمندری سفر پہ روانہ ہونے والے ہیں۔ اس میں شام کے شہر حمص کی پرامن اور خوبصورت زندگی کی جھلک ہے جب جنگ ابھی وہاں نہیں پہنچی تھی۔ جنگ ایک مہلک بیماری ہے جو ہنستے بستے شہروں کو کھنڈر بنا دیتی ہے۔ یہ ایسی بلا ہے جو انسانوں کی جنت سی زندگی سے خوشیاں اور سکھ اچک لیتی ہے اور پل بھر میں جیون جہنم بنا دیتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہومز شہر بھی جنگ زدہ اجڑے ہوئے دیار میں بدل جاتا ہے۔

دو ستمبر 2015 کو ترکی کے ساحل پہ تین سالہ بچے ایلان کردی کی اوندھے منہ پڑے مردہ جسم کی تصویر نے دنیا بھر میں حساس دلوں کو جنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ ایلان کردی کا تعلق شام سے تھا۔ جو اپنے خاندان کے ہمراہ یورپ جانے کی کوشش میں سمندر میں ڈوب گیا تھا۔

‘سی پرئیر‘ ایلان کردی اور ان جیسے ہزاروں پناہ گزین خاندانوں کو خراج تحسین ہے جن کو جنگ اور موت نے اپنے ہی گھروں سے جدا کیا اور وہ پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ خالد حسینی دنیا کی توجہ پناہ گزینوں کے المناک حالات کی طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں۔

وہ پناہ گزین جن کے گھر اجڑ چکے ہیں۔ جن کے کئی پیارے بموں اور گولیوں کی نظر ہو گئے۔ جن کو ایک چھت کی تلاش ہے۔ جو زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ اپنے بچوں کے لیے بہتر مستقبل کی آس لیے ہوئے ہیں۔ جو چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار ہو کر بے کراں سمندر کی بے رحم موجوں کے رحم و کرم پہ نکل پڑتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں ان لٹے پٹے مہاجرین کو ظالم سمندر نے نگل لیا۔ جو بچ گئے ان کو کوئی اپنی زمین پہ قدم نہیں دھرنے دیتا۔ جو خیموں میں بس گئے ان کو شناخت نہیں ملتی۔ بنیادی انسانی حقوق بھی ان کے لیے خواب ہوئے۔

ایلان کردی کی وہ تصویر ایک طرف پناہ گزینوں کی لا محدود مشکلات کا استعارہ ہے تو دوسری طرف حضرت انسان کی ہمدردی اور انسانیت اوندھے منہ گر کر مر جانے کی علامت بھی ہے۔

سی پرئیر میں خالد حسینی نے چند الفاظ میں یہ سارے دکھ سمو دیے ہیں۔ کتاب میں ڈان ویلیمز کی پینٹنگز بھی شامل ہیں جو کہانی میں موجود خیالات کو واٹر کلرز کے ذریعے تصویروں میں ڈھال دیتی ہیں۔

چاندنی رات میں باپ اپنے سوئے ہوئے معصوم بیٹے کو بانہوں میں لیے ساحل پہ کھڑا ہے۔ صبح طلوع ہونے اور کشتی کے پہنچنے کا انتظار ہو رہا ہے۔ باپ بیٹے سے مخاطب ہوتا ہے اور اپنے بچپن کو یاد کرتا ہے۔

میرے پیارے ماروان

میرے بچپن میں، طویل موسم گرما میں، جب میں آپ کی عمر کا بچہ تھا، میں اور تمہارے چچا ہومز شہر سے تھوڑی دور تمہارے دادا جان کے فارم ہاؤس کی چھت پہ گدے بچھا کے سوتے تھے۔ زیتون کے درختوں کو جب باد صبا چھیڑتے ہوئے گزرتی تھی، یا پھر تمہاری دادی کی بکری جب منمناتی تھی تو ہماری آنکھ کھل جاتی تھی۔

پھر باپ وہ سفر یاد کرتا ہے جب وہ ماروان کے ساتھ اپنے آبائی فارم ہاؤس پہ گئے تھے۔ جب ماروان کی ماں نے اسے گائیوں کا ریوڑ دکھایا تھا جو جنگلی پھولوں سے بھرے میدان میں چر رہی تھیں۔ باپ کی حسرت ہے کہ ’کاش تب تم بہت چھوٹے نہ ہوتے۔ کاش تمہیں وہ فارم ہاؤس یاد ہوتا۔ اس کے در و دیوار یاد ہوتے جہاں میں اور تمہارے چچاؤں نے لڑکپن کے خواب بنے تھے۔
کاش تمہیں ہومز ویسے ہی یاد رہتا جیسے مجھے یاد ہے۔

باپ شہر کی پر رونق زندگی کو یاد کرتا ہے جس میں مسلمانون کے لیے مسجد اور عیسائیوں کے لیے چرچ تھا۔ جہاں بڑا بازار تھا جس میں عروسی جوڑے اور زیورات کی خریداری پر دکاندار اور گاہکوں کی تکرار ہوتی تھی۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ کلاک ٹاور سکوائر کے قریب چہل قدمی کو بھی یاد کرتا ہے۔
پھر وقت بدل جاتا ہے۔

‘وہ سب کچھ خواب سا لگتا ہے۔ گویا وہ سب کوئی پرانی افواہ ہو۔ پہلے احتجاج شروع ہوئے۔ پھر محاصرہ ہوا۔ آسمان سے بم برسنے لگے۔ بھوک۔ جنازے۔
یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں آج تم جانتے ہو۔ ’

جنگ کی تباہ کاریوں کو خالد حسینی کم الفاظ میں طاقتور احساسات کے ساتھ سمو دیتا ہے۔ شہر کھنڈر ہوئے۔ مائیں، بہنیں اور دوست ملبے میں دب گئے۔ گھر جو امن، محبت اور حفاظت سے بھرے تھے وہ اپنے ہی باسیوں کی قبریں بن گئے۔
خون کتاب کے صفحوں سے رستا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

پھر ساحل پہ کھڑے لوگوں کا تذکرہ ہے۔ روتے بچوں اور اداس ماؤوں کی تصویر کشی ہے۔ ساحل پہ افغانی، صومالی، عراقی، ایری ٹیرینز اور شامی لوگ جمع ہیں جو جنگ کے مارے ہوئے ہیں۔
‘ہم سب سورج طلوع ہونے کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ اور اسی صبح کا خوف بھی ہم پہ طاری ہے۔ ہم سب گھر کی تلاش میں ہیں۔ ’

ساتھ یہ افسوس بھی ہے کہ ہمیں کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اس سے بڑا دکھ اور کیا ہو سکتا ہے جب آپ کو کہیں بھی امان نہ ملے۔
باپ سوئے بچے کو دلاسا دیتا ہے۔ ’میرا ہاتھ تھام لو۔ کچھ برا نہیں ہو گا۔ ’

ایک بے بس باپ اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ پیچھے آگ، بارود اور موت ہے اور آگے گہرا، وسیع اور بے پرواہ سمندر ہے۔ اس سے بچانے کے لیے باپ کے پاس بے بسی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ وہ بے بسی کا اظہار کرتا ہے۔
”میں صرف دعا کر سکتا ہوں بس۔ میری دعا ہے کہ کشتی سلامت رہے۔
تم بہت قیمتی چیز ہو ماروان بیٹے۔ کاش سمندر یہ جان پاتا۔ “

خالد حسینی کی یہ کہانی ان تمام بے گھر پناہ گزینون کی داستان ہے جن کے ایک طرف ان کے جنگ سے خاکستر ہوئے گھر ہیں جہاں موت برس رہی ہے۔ دوسری طرف دنیا کے لوگوں کے سرد رویے کا گہرا اور تلاطم خیز سمندر ہے۔ جس میں پناہ گزینوں کے روشن خواب، سہانے مستقبل، بچوں سے محبت اور زندگی جی لینے کی تمنا کی گٹھڑی اٹھائے ان کی امید کی کشتی ہچکولے کھاتی جاتی ہے۔
ان کو ڈر ہے کہ یہ کشتی کنارے نہیں لگے گی۔
کتاب پڑھتے ہوئے ایک سمندر قاری کی آنکھوں میں بھی امڈ آتا ہے۔

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 76 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti