انصاف کی تازہ کہانی!


قصہ مختصر یہ ہے کہ باجوڑ کا ایک ”دہشت گرد کنبہ“ اسلام آباد کے مضافاتی علاقے میں رہائش پزیر ہے جہاں امراء کے فارم ہاوسسز بھی ہیں جہاں کبھی کبھار یہ صاحبان ”سستانے“ کے لئے تشریف لے جاتے ہیں۔ ہوا یہ کہ اس غریب یعنی ”دہشت گرد“ پختون کے ”بدمعاش گائے“ نے تحریک انصاف کے مرکزی راہنما اور وفاقی وزیر قبلہ اعظم سواتی کے فارم ہاؤس میں گھسنے کی حماقت کی جسے یہاں کے نوکروں نے اپنی اوقات بھی دکھلائی یعنی اس بے زبان مخلوق پہ تشدد بھی کیا اور قبضہ بھی کیا۔

ان غریبوں کو جب پتہ چلا کہ ان کا تو کل سرمایہ چھینا گیا ہے تو چھوٹے چھوٹے غریب بچے اسے لینے کے لئے وہاں حاضر ہوئے مگر اس بیباکی پر انھیں بھی مارا پیٹا گیا اور مزید سبق سکھانے کے لئے ان کے جھونپڑی نما گھر پہ حملہ بھی کیا گیا اور بچوں و خواتین تک کو معاف نہیں کیا گیا۔ مبینہ طور پر اس پوری کارروائی میں وزیر صاحب محترم کا بیٹا بھی بنفس نفیس موجود رہا۔ معاملہ یہیں نہیں رکا یعنی اس پہ تسلی نہیں ہوئی اور مزید سبق سکھانے اور اپنی طاقت دکھلانے کے لئے انھیں پولیس کے ذریعے اٹھوایا گیا اور ان کے کھاتے میں وہ سب کچھ ڈالنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا جو خود ان لوگوں نے ہی کیا تھا یعنی ”گھر پہ حملہ، خواتین و بچوں پہ تشدد، ڈنڈوں و کلہاڑی کا استعمال اور فائرنگ“ ان بیچاروں کو حوالات میں بند کیا گیا مگر آئی جی اسلام آباد نے باقاعدہ ایف آئی آر کاٹنے اور دہشت گردی کے دفعات ڈالنے سے انکار کیا کہ قانونی طور پہ ایسا ممکن نہیں کیونکہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں ہے اور عملاً تو ساری دہشت گردی اعظم سواتی کے بیٹے اور نوکروں نے ہی کی ہے۔

اس گستاخی کو وزیر موصوف دل پہ لے کر وزیراعظم صاحب کے علم میں معاملے کو لائے۔ ہمارے دبنگ وزیراعظم نے اپنے رعب کوجمانے اور ”حکومتی رٹ“ کو منوانے کے لئے آئی جی اسلام آباد کو چھٹی کے دن زبانی آرڈر کے ذریعے ٹھکانے لگایا اور دراصل بیوروکریسی کو انگلی دکھائی کہ ہم اتنے بھی کمزور نہیں ہے۔ آگے کی کارروائی ملاحظہ فرمائیے کہ آئی جی صاحب کا تو تبادلہ کرایا گیا مگر ساتھ ان خواتین اور بچوں کو ”قانونی“ راستے پر سیدھا جیل بھیج دیا گیا۔

یہ ہے جناب، انصاف کی کل کہانی اور تبدیلی والے سرکار کی ”غیر سیاسی حرکات“ یعنی جناب وزراعظم نے اعلان فرمایا تھا کہ ”نئے پاکستان“ میں تمام ادارے خاص کر محکمہ پولیس سیاسی مداخلت سے پاک ہوں گے اور پولیس گردی کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی۔ قانون کی بالادستی ہوگی اور ہر مظلوم اور غریب کو انصاف ملے گا مگر ”سچ ہوا کرتی ہے ان خوابوں کی تعبیریں کہی“ کے مصداق یہ سب دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور وہی دھات کے تین پات والا قضیہ بدستور برقرار ہے۔

پہلے پہل ڈی پی او پاکپتن کو خاتون اوّل کے سابق شوہر کی شان میں گستاخی کرنے پر سبق سکھایا گیا اور پھر بیروکریسی کو للکارتے ہوئے آئی جی پنجاب کو برطرف کر دیا گیا اور اب کے بار آئی جی اسلام آباد کو اپنی اوقات دکھلائی گئی۔ ذاتی حثیت میں اگر اعظم سواتی میں تھوڑی سی بھی اخلاقی جرات ہوتی تو وہ فوری اس واقعے کا نوٹس لے کر اس غریب خاندان کی داد رسی کرکے معزرت کرتے وگرنہ وزیراعظم کی حثیت سے عمران خان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس شرمناک کردار پر اعظم سواتی کو وزارت سے برطرف کرتے اور ایک مثال قائم کر لیتے تاکہ آئندہ کے لئے کوئی حکومتی اور سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے کسی غریب کی چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرنے کی جرات نہ کرتے۔

مگر قبلہ خان صاحب نے تو تمام حدیں ہی پار کردی۔ خاں صاحب، آئندہ کے لئے مدینہ ریاست کی بات بالکل مت کیجیے گا یہ بہت برا لگتا ہے۔ خدارا یہ مذاق مزید مت کیجیے گا کیونکہ اپ کہاں اور مدینہ ریاست کہاں؟ ذرا اس دور کو غور سے پڑھ لیجیے گا تو اندازہ ہوگا کہ اس ریاست میں لوگوں نے کتنے احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ اختیارات کا استعمال کیا اور مظلوموں کو کتنا سستا انصاف ملا۔ اگر کبھی کسی نے بھول میں بھی اختیارات کے استعمال میں بے احتیاطی کی تو فوراً سے پیشتر اس کی خبر لی گئی۔

خان صاحب، الیکٹیبلز اور لوٹوں کو قابوں میں رکھنا اتنا بھی آسان کام نہیں ہے۔ اس طرح ”کھوٹے سکوں“ کی وجہ سے تو قائداعظم جیسے لیڈر کو بے بسی کا اظہار کرنا پڑا تھا۔ ہم اس غریب اور بے بس خاندان کے ساتھ ہیں اور ان غریب بچوں اور خواتین کو جیل میں ڈالنے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور چیف جسٹس آف پاکستان کے اس واقعے کا از خود نوٹس لینے کی تحسین کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اس غریب خاندان کو انصاف بھی ملے گا اور اختیارات کے غلط اور ناجائز استعمال پر مذکورہ کرداروں کو سزا بھی ملے گی۔ باجوڑ کے منتخب ممبران اور سینٹرز کی اس واقعے پہ مجرمانہ خاموشی قابل مذمت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).