افغانستان کی افسوسناک اشتعال انگیزی


\"afghan\"طورخم سرحد پر افغان فوج کی بلا اشتعال فائرنگ سے پاک فوج کے میجر علی جواد زخموں کی تاب نہ لا کر پشاور کے سی ایم ایچ اسپتال میں شہید ہو گئے ہیں۔ سرحد پر افغان افواج نے اتوار کی رات اچانک فائرنگ کا آغاز کیا تھا۔ اس حملہ میں متعدد پاکستانی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ بعض کی حالت نازک ہے۔ طورخم بارڈر پر پاکستانی علاقے میں ایک گیٹ تعمیر کیا جا رہا ہے تاکہ دونوں طرف سے داخل ہونے والے لوگوں کو بہتر طریقے سے کنٹرول کیا جا سکے۔ ایک ایسے موقع پر پاکستان کے ساتھ تنازعہ کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ افغانستان میں طالبان قوت پکڑ رہے ہیں اور افغان حکومت اور فوج اپنی سرحدوں میں امن قائم کرنے میں ناکام ہے۔

افغانستان دونوں ملکوں کے درمیان 1893 سے قائم ڈیورنڈ لائن کو باقاعدہ سرحد تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔ افغانستان اور پاکستانی علاقوں کو تقسیم کرنے والی اس سرحد کا یہ معاہدہ برطانوی حکومت نے افغان حکمران عبد الرحمان خان کے ساتھ کیا تھا۔ اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان اڑھائی ہزار کلو میٹر طویل علاقے کو باقاعدہ سرحد تسلیم کرلیا گیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد یہ علاقہ پاکستان میں شامل ہو گیا۔ اس طرح ڈیورنڈ لائن بھی دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ سرحد قرار پائی۔ اگرچہ پوری دنیا اس تقسیم کو قبول کرتی ہے لیکن افغانستان کی حکومت اسے مسترد کرتے ہوئے پاکستان کے ان تمام علاقوں پر دعویٰ کرتی ہے جو کبھی افغان حکمران کے زیر تسلط تھے لیکن برطانوی حکومت نے انہیں چھین لیا تھا۔ اس مؤقف کو تسلیم کرلیا جائے تو پاکستان کا ساٹھ فیصد حصہ افغانستان کے قبضہ میں جا سکتا ہے۔ پاکستانی علاقوں پر اس بچگانہ اور غیر حقیقی دعویٰ کو بنیاد بنا کر افغانستان، سرحد پر کسی بھی قسم کے رد و بدل پر اعتراض کرتا رہتا ہے۔ لیکن سفارتی اعتراض اور معاملہ کو سیاسی طور پر حل کرنے کی بجائے ، فوجی حملہ کی کوشش دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ اور علاقے میں سیکورٹی کی صورت حال کے لئے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔

پاکستان افغانستان کے ساتھ سرحد پر چیک پوسٹوں میں اضافہ کرنے اور باڑ لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ افغانستان کی طرف سے اکثر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس کے علاقوں میں دہشت گردی کرنے والے لوگ اکثر پاکستانی قبائلی علاقوں میں پناہ لیتے ہیں۔ اسی طرح تحریک طالبان پاکستان کے بھگوڑے بھی افغانستان کے علاقوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں اور موقع ملنے پر دہشت گردی کے لئے پاکستان میں داخل ہوتے رہتے ہیں۔ پاک فوج کے سربراہ نے حال ہی میں امریکی وفد کے ساتھ ملاقات میں بھی اس معاملہ کو اٹھایا تھا اور بارڈر کے بہتر انتظام کے علاوہ افغان علاقوں میں موجود پاکستانی طالبان کے لیڈر ملا فضل اللہ اور دیگر رہنماؤں کو نشانہ بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ پاک افغان سرحد کے دونوں طرف پشتون قبائل آباد ہیں جن کی آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں 25 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں ۔ دونوں طرف کے باشندے ایک دوسرے سے ملنے کے لئے سرحد پار کرتے رہتے ہیں۔ دہشت گرد عناصر اسی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک سے دوسرے ملک میں بلا روک ٹوک داخل ہوتے ہیں۔ پاکستان اب اس نقل و حرکت کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ لیکن افغانستان ڈیورنڈ لائن پر اپنے اختلاف کا سہارا لے کر ایسی سب کوششوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے اتوار سے شروع کی جانے والی اشتعال انگیز فائرنگ کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بارڈر پر کسی قسم کا رد و بدل دونوں ملکوں کے باہمی معاہدہ کے بغیر نہیں ہو سکتا۔

اس بیان سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ طورخم پر یہ فائرنگ کابل حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کی منظوری سے کی گئی ہے۔ یہ نہایت خطرناک اور اشتعال انگیز صورت حال ہے۔ اس کا فوری خاتمہ ہونا چاہئے۔ افغان حکومت اپنے ملک پر کنٹرول کرنے، عوام کو تحفظ فراہم کرنے اور طالبان کے ساتھ معاملات طے کرنے میں ناکام ہے۔ لیکن بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات اور پاکستان اور امریکہ کے درمیان فاصلہ کی وجہ سے افغانستان کو حوصلہ ہؤا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اشتعال انگیزی اور چھیڑ چھاڑ کرے۔ لیکن یہ حکمت عملی افغانستان کے مفادات، امن اور مستقبل کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ڈیورنڈ لائن پر اختلافات کو سفارتی سطح پر حل کرنے کی ضرورت ہے لیکن افغانستان کو یہ گمان نہیں ہو نا چاہئے کہ وہ کبھی پاکستانی علاقوں پر قبضہ کرسکتا ہے۔ ایسی کسی بھی کوشش کا منہ توڑ جواب دیا جا سکتا ہے۔ اگر تنازعہ کو دونوں ملکوں کے درمیان مسلح جھڑپوں کی وجہ بنایا گیا تو اس سے صرف انتہا پسند عناصر فائدہ اٹھائیں گے ۔ ایسی صورت میں پاکستان بھی افغان حکومت کے ساتھ برسر جنگ طالبان کی حمایت کرنے پر مجبور ہوگا۔

امریکہ کو بھی افغان حکومت کی اس عاقبت نا اندیش حکمت عملی کا نوٹس لینا چاہئے۔ افغانستان میں امن صرف پاکستان کی ذمہ داری نہیں ہے اگرچہ اس عمل سے پاکستان کو بھی انتہا پسندوں سے نمٹنے میں آسانی ہو گی۔ لیکن سرحد پر تنازعہ کو بڑھانے اور پاکستانی علاقوں پر ناجائز دعوے کرنے کی صورت میں سب سے زیادہ نقصان افغانستان اور امن کو پہنچے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments