ملک کو تجربہ گاہ مت بنائیے


کہا جاتا ہے کہ معروف سائنس دان ایڈیسن ہزاروں تجربات کے بعد بلب ایجاد کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ اس حوصلہ مند سائنس دان کا کمال یہ تھا کہ اس نے ہزاروں ناکام تجربات کواپنی ناکامی نہیں سمجھا بلکہ کامیابی کا رستہ قرار دیا اور کہا کہ اس عمل کے دوران میں، میں نے ہزاروں ایسے طریقوں کے بارے میں جانا کہ جن سے بلب نہیں بن سکتا۔ یہ تو ہو گئی نیچرل سائنس کی تجربہ گاہ کی بات کہ جس میں ایک ایجاد کے لیے سیکڑوں بلکہ ہزاروں تجربات کیے جاسکتے ہیں اور ان کے پاس وقت بھی بہت ہوتا ہے، اور ناکامی کی صورت میں اس جواز کی گنجائش بھی موجود ہوتی ہے کہ ناکامی سے ہم نے سیکھا ہے۔ سو ان کے ناکام تجربوں کا کوئی زیادہ منفی اثر بھی نہیں پڑتا۔ لیکن سماجیات اور معاشیات میں تجربات کے اصول مختلف ہیں۔

سماجی نظام کسی بندعمارت میں بنائی گئی تجربہ گا ہ میں نہیں بنتا بلکہ وہ زمانوں کے تسلسل اور لاکھوں انسانوں کی جدوجہد کے نتیجے میں کسی معاشرے کے اندر تشکیل پاتا اور اپنے خدوخال واضح کرتا ہے۔ اس نظام کے پیچھے چھپی انسانی ریاضت اجتماعی ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کی تجربہ گاہ انسانی معاشرہ ہوتا ہے اس لیے اس کی تشکیل میں جتنی تاخیر ہو گی اس سے معاشرے یا ملک کو اتنا زیادہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ رہے گا۔ انسانی تجربہ گاہوں نے مشکلات کے طویل ادوار دیکھے ہیں۔ انسانی تہذیب ازل سے ارتقا پزیر ہے،  کبھی اس کا سفر تیز ہو جاتا ہے کبھی سست لیکن یہ سفر جاری رہا ہے اور رہے گا۔ اس سفر میں انسان نے کئی خون کی ندیاں عبور کی ہیں۔ انسانی تاریخ اس پر گواہ ہے۔

پاکستان میں جو نظام رائج ہے یہ بھی کوئی بہت آسانی سے نہیں بنا۔ قیام پاکستان کے بعد مشکل سے جو آئین بنا اسے توڑ دیا گیا۔ خدا خدا کر کے 1973 میں متفقہ آئین تشکیل پایا، جس پر کئی حملے ہو چکے ہیں۔ آئین ہمارے ملک کے نظام کی بنیاد ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ یہ کوئی صحیفہ نہیں تو اس کی دماغی حالت پر شک ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو کسی نے نہیں کہا کہ یہ صحیفہ ہے۔ یہ واقعی صحیفہ نہیں کیونکہ صحیفہ تو خدا کا حکم نامہ ہوتا ہے ۔ وہ تو زندگی کا ایسا آئین ہوتا ہے جس میں ردوبدل ممکن نہیں ہوتا۔ جسے من وعن قبول کرنا اس مذہب کے ماننے والوں کی مجبوری ہوتی ہے۔ لیکن ملک کا آئین انسانوں کا بنایا ہوا ہوتا ہے۔ انسانوں کا بنایا ہوا عہد جدید کا آئین صحیفہ نہیں ہوتا اسی لیے اس کا تحفظ بھی عوام کی اور اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اسی سبب اس میں بوقت ضرورت تبدیلی کی گنجائش بھی ہوتی ہے۔

بات کچھ دور نکل گئی۔ کہنا یہ تھا کہ پی ٹی آئی کی نئی حکومت جو پہلی بار مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے، تجربات کے عمل سے گزر رہی ہے۔ ہمارے وزیراعظم صاحب کا کوئی ایک برس پرانا بیان ریکارڈ پر موجود ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ شکر ہے ہمیں مرکز میں حکومت نہیں ملی ورنہ ہمارا وہاں بھی وہی حال ہوتا جو پختون خوا میں ہوا، شکر ہے ہم اب سیکھ جائیں گے۔ لیکن لگتا ہے انہوں نے کچھ نہیں سیکھا۔ وہ دھرنوں اور احتجاج میں مصروف رہے اوران کی ٹیم نے نہ کے پی میں کچھ سیکھا نہ مرکز میں حکومتی امور میں کوئی دلچسپی لی۔ چار ماہ تو کنٹینر پر گزار دیے۔ وہ چاہتے تو پارلیمانی کمیٹیوں میں بیٹھ کر حکومتی امور کا قریب سے مشاہدہ کر سکتے تھے۔ خود وزیراعظم اور ان کے وزراء اکثر یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ اس ملک میں سب کچھ ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ سب کچھ اب کہاں ہے؟ اب اداروں سے شکوے شکایت شروع ہونے والے ہیں، بیوروکریسی کے ساتھ تو جنگ شروع ہو چکی ہے،  آئی جی پنجاب،  آئی جی اسلام آباد کے تبادلے اور ناصر درانی کے استعفٰی نے بہت کچھ بتا دیا ہے۔

سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ تجربہ گاہ میں کام کرنے کے لیے جو لوگ چنے گئے وہ سب ایک خاص فکر سے متعلق ہیں اور وہ فکر سابق سربراہ جنرل مشرف کی ہے۔ لیکن افسوس کہ مشرف کے ساتھی نئی حکومت کے لیے اتنا بھی نہیں کر پا رہے جو مشرف کے لیے کرتے رہے۔ نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی صلاحیت نہیں تو موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے کچھ ڈیلیور کرنے کی کوشش تو کی جا سکتی ہے۔ خدانخواستہ اگر اس تجربہ گاہ میں زیادہ وقت گزار دیا تو اس کا نقصان پی ٹی آئی سے کہیں زیادہ ملک اور قوم کو پہنچے گا۔ دیکھا جائے تو خان صاحب اور ان کی ٹیم نے خیبر پختون خوا میں بھی سوائے کچھ چھوٹی موٹی تبدیلیوں کے کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی۔

اگرپنجاب کے سابقہ حکمرانوں کو میڑو پر توجہ مرکوز کرنے کے طعنے دیے گئے تو پشاور کی میٹرو تو اپنا تخمینہ دو گنا کرنے کے بعد بھی ادھوری پڑی ہے اور اہلیان پشاور کا احوال پوچھیں تو حالیہ ضمنی الیکشن کے نتائج اس کے آئینہ دار ہیں۔ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ پھر جنرل الیکشن کے وقت کیا سب ایسا ہی نہیں تھا اور دوماہ میں ایسی کون سی قیامت ٹوٹ پڑی تو اس کے دو ہی ممکنہ جواب ہیں، تیسرا نہیں۔ یا تو پی ٹی آئی کی کارکردگی دو ماہ میں بہت بری ہو گئی ہے یا پھر جنرل الیکشن کے نتائج بھی در حقیقت یہی تھے، بس سامنے کچھ اور آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).