گائے، بھینسیں اور نیا پاکستان


جب سے ہوش سنبھالا ہے میرا ملک پاکستان نازک دور سے گزررہا ہے، مارشل لاء کا دور ہو یا جمہوری دور ”ملک نازک دور سے گزررہا ہے ہمیں مشکل فیصلے کرنے ہوں گے“ سابقہ حکومتوں نے معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے، ہم اس ملک کی معیشت کو سیدھے راستے پر گامزن کررہے ہیں اور پھر حکومت کے آتے ہی مشکل فیصلے کیے جاتے ہیں، سارا وزن عوام پر ڈال دیا جاتا ہے اور عوام سمجھتے ہیں کہ شاید یہ مشکل فیصلے آخری مرتبہ ہورہے ہیں، آنے والی حکومت شاید یہ راگ الاپنا بند کردے گی، مگر ایسا نہیں ہوتا، ہر بار مشکل فیصلے کا سیدھا بوجھ عوام پر مسلط کردیا جاتا ہے، اسی طرح روتے دھوتے پانچ سال گزرجاتے ہیں، پھر نئیں حکومت کے آتے وہی سرکل دوبارہ شروع ہوجاتا ہے، یہ سلسلہ کب ختم ہوگا کسی کو معلوم نہیں۔

البتہ موجودہ حکومت کے آتے ساتھ اوپر بیان کیے گئے بیانیہ کے ساتھ ساتھ کچھ شگوفے بھی سننے کو مل رہے ہیں۔ کبھی ڈی پی او کو فقط اس لئے برطرف کردیا جاتا ہے کہ انہوں نے حکومتی اعلیٰ شخصیات سے ان کے گھر جاکر معافی نہیں مانگی، اور پھر سپریم کورٹ کے سوموٹو کے بعد وزیراعلٰی کے خلاف آرٹیکل 62 اور 63 کے اطلاق کی باتیں ہوتی رہیں اور پھر بات معافی تلافی پر ختم ہوئی۔

اس کے علاوہ کبھی بھینسیں بیچی جارہی ہیں، کبھی کار سے سستے ہیلی کاپٹر کی کہانیاں ہیں، کبھی پچاس لاکھ گھر کی باتیں، کبھی سعودی عرب سے سخت شرائط کے سبب قرض نہ لینے کی باتیں اور پھر کچھ دن بعد قوم سے خطاب میں قرض لینے کی خوش خبری سنائی جاتی ہے، کبھی سعودی کو پاک چائنہ اقتصادی راہداری میں شرکت کی باتیں کی جاتی ہیں اور پھر کچھ دن بعد شراکت دار نہ بنانے کی باتیں سننے کی ملتی ہیں، یہ سب چل رہا ہے، اگر کچھ نہیں چل رہا تو وہ ہے معیشت کا پہیہ، جو رکا ہوا ہے۔

اوپر بیان کردہ اندرون ملک کے معاملات تھے، لیکن سفارتی سطح پر ہونے والی کوتاہیاں، زیادہ خطرناک ہیں، کبھی مودی کے خط کی غلط تشریح، تو کبھی امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے بات چیت جس کی ہمارے طرف کی جانے والی تشریح کو امریکی سفارت خانے نے رد کرتے ہوئے مختلف موقف پیش کیا، کبھی فرانس کے صدر کی ٹیلی فون کی کہانیاں، اور اب کچھ دن قبل اخبارات میں وزیراعظم کا بیان شائع ہوا جس میں کہا گیا پاکستان کو پیسوں کی سخت ضرورت ہے اور اس کے لیے desparately needed جیسے الفاظ کو کوٹ کیا گیا، بعد ازاں اس خبر پر الگ تماشا لگا، اس معاملے پر پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ٹویٹر پر بھی بحث اور تکرار جاری رہا، وزیراعظم کے معاون خصوصی نے اس انٹرویو سے لاتعلقی کا اظہار کیا، پھر خاتون صحافی نے جب تصویر شئر کی تو آئیں بائیں اور شائیں کرکے جان چھڑانا پڑی۔ آج کل ملک کی فضاؤں میں اور خاص طور پر ٹھنڈے موسم کی طرف سفر کرتے اسلام آباد میں انسپکٹر جنرل پولیس اور گائی کی خبر گرم ہے۔

ایک وفاقی وزیر کے باغیچے میں کسی کی گائے گھس گئی، اور وفاقی وزیر نے وزیراعظم کو شکایت لگائی، وزیراعظم نے زبانی احکامات پر آئی جی اسلام آباد کو برطرف کر دیا، یہ کیس بھی اب سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے، دیکھتے ہیں یہ معاملہ بھی معافی تلافی پر ختم ہوتا ہے یا واقعی کسی کو سزا دی جائے گی، چونکہ یہ مسئلہ اسلام آباد کا تھا، اور آج کل میڈیا پر خوب چرچا ہورہا، حکومت کے ناقدین اس حکومت کو کبھی مغلیہ تو کبھی شغلیہ حکومت قرار دے رہے ہیں۔

حکومت کو تین مہینے مکمل ہونے والے ہیں، اس لئے حکومت کو جلد از جلد اپنی سمت کا درست تعین کرنا ہوگا، اچھے اور بروقت فیصلے کرنے ہوں گے، اب تک ہونے والی فیصلوں سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ سابقہ حکومتوں اور موجودہ حکومت میں فرق نہیں صرف چند چہرے تبدیل ہوئے ہیں۔

رب نواز بلوچ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

رب نواز بلوچ

رب نواز بلوچ سماجی کارکن اور سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہتے ہیں، عوامی مسائل کو مسلسل اٹھاتے رہتے ہیں، پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ ٹویٹر پر @RabnBaloch اور فیس بک پر www.facebook/RabDino اور واٹس ایپ نمبر 03006316499 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

rab-nawaz-baloch has 30 posts and counting.See all posts by rab-nawaz-baloch