بدعنوان کون – سیاسی قائدین یا ایک مخصوص ٹولہ؟


عظیم چینی فلسفی کنفیوشس سے کسی نے پوچھا تھا کہ اگر ایک قوم کے پاس تین چیزیں انصاف، معیشت اور دفاع ہوں اور بوجہ مجبوری اِن تین چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو ترک کرنا مقصود ہو تو کس چیز کو ترک کیا جائے؟ کنفیوشس نے جواب دیا۔ دفاع کو ترک کر دو۔ سوال کرنے والے نے پھر پوچھا اگر باقی ماندہ دو چیزوں یعنی انصاف اور معیشت میں سے بھی کسی ایک کو ترک کرنا لازمی ہو تو کیا کیا جائے؟ کنفیوشس نے جواب دیا، معیشت کو چھوڑ دو۔

اس پر سوال کرنے والے نے حیرت سے کہا کہ ”معیشت اور دفاع کو ترک کیا تو قوم بھوکوں مر جائے گی اور دشمن حملہ کر دیں گے“۔ تب کنفیوشس نے جواب دیا، ”نہیں! ایسا نہیں ہو گا بلکہ انصاف کی وجہ سے اْس قوم کو اپنی حکومت پر اعتماد ہو گا اور لوگ معیشت اور دفاع کا حل اِس طرح کریں گے کہ پیٹ پر پتھر باندھ کر دشمن کا راستہ روک لیں گے“۔ اگر ہمیں کنفیوشس کے نقطہ نظر پر یقین نہیں ہے تو غزوہ خندق کا عملی ثبوت دیکھ لیں کہ کس طرح عوام نے اپنی ریاست کو بچانے کے لئے پیٹ پر پتھر باندھ کر خندق کھودی اور بھاری بھرکم دشمن کا راستہ روک دیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انصاف جس قوم میں ناپید ہو جائے تو وہ کسی بھی شعبے میں ترقی نہیں کر سکتی۔

بدقسمتی سے ہمارے یہاں ووٹ دشمن طاقتوں نے حکم نہ ماننے والے عوامی نمائندوں کو بدعنوانی کے الزامات لگا کر ہی رخصت کیا ہے۔ اور ہر وزیر اعظم پر بدعنوانی کا الزام اسٹیبلشمنٹ کا پسندیدہ ہتھیار رہا ہے۔ اس کا سلسلہ پاکستان کے دوسرے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی 1954 ء میں برطرفی سے لے کر 2017 ء میں میاں نواز شریف کی عدالتی نا اہلی تک چلا رہا ہے۔ اس تمام عرصہ میں پاکستان کے 20 وزرائے اعظم ایسے ہیں جنہیں قومی اسمبلی نے منتخب کیا اور تمام کے تمام ایسے رہے جنہیں پورے 5 سال تک حکومت کرنے کا آئینی وقت نہیں مل سکا۔ اگرچہ ان کی اکثریت کو بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا مگر کسی بھی عدالت میں آج تک یہ الزامات ثابت نہیں ہو سکے۔

وزرائے اعظم کے برعکس آج بھی پاکستانی سیاست میں تقریبا ”200 سیاستدان ایسے ہیں جو ہر دور میں آنے والی حکومت کا حصہ بنتے رہتے ہیں اور اس طرح اپنی مبینہ بدعنوانی پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ زیادہ دور نہیں جاتے مگر سنہ 2002 ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے 140 اراکین اسمبلی ایسے تھے جنہوں نے اپنی مبینہ بدعنوانیوں کو پردہ غیب میں رکھنے کے لئے مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس دوران جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی اور انہوں نے قومی ادارہ احتساب (نیب) کا سارا استعمال پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف ضرور کیا مگر اپنی صفوں میں شامل ہونے والے 140 اراکین کے معاملات پر کسی نے انکوائری اور تفتیش تک بھی نہیں کی۔

سنہ 2008 ء میں بھی فصلی بٹیروں کی ایک کثیر تعداد یعنی 89 اراکین اسمبلی نے مسلم لیگ (ق) کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ پیپلز پارٹی حکومت کا یہ دور اس حوالہ سے منفرد رہا کہ اس دوران وہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے طویل ایکسٹرا جوڈیشل ایکٹوازم کا شکار رہے اور حکومت نے اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائی وں اور بدعنوانی کے الزامات کی تفتیش کو شہہ نہیں دی۔ ان فائدہ اٹھانے والوں میں وہ 89 اراکین اسمبلی بھی شامل تھے جو حکومت کے ساتھ تازہ تازہ شامل ہوئے تھے۔

سنہ 2013 ء کے انتخابات میں 121 سیاستدانوں کے ایک بڑے گروپ نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کو خیر آباد کہا اور اکثریت نے دوبارہ مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لی جبکہ ایک قابل ذکر تعداد نے اقتدار کے ایوانوں میں نئی جگہ بنانے والی تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ امسال 2018 ء کے الیکشن بھی سیاسی وفاداریاں بدلنے کے حوالہ سے محفوظ نہیں رہ سکے اور تحریک انصاف کے دامن میں اب 200 سیاستدانوں کے مشہور ٹولہ کی واضح اکثریت موجود ہے جو ہر دور میں حکومت کا حصہ رہی ہے۔

ہر حکومت نے احتساب کا جب بھی نعرہ لگایا اس کا نشانہ صرف مقبول عوامی جماعتوں کے وزرائے اعظم ہی بنے ہیں مگر ہر حکومت کا حصہ بننے والے ان 200 سیاستدانوں کے اس گروپ کی مبینہ مالی بدعنوانیوں پر کبھی کوئی انکوائری نہیں ہوئی یا اگر انکوائری شروع بھی ہوئی تو وہ“ نامعلوم ”وجوہات کی بنیاد پر اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکی۔ جبکہ اس کے مقابلہ میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ قیادت کو ہر ممکن طریقہ سے بدعنوانی کے مقدمات میں پھنسانے کے پوری کوششیں کی گئیں۔

اگر میاں نواز شریف کے خلاف لگنے والے بدعنوانی کے الزامات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے سنہ 1999 ء اور سنہ 2000 ء کے اوائل میں نواز شریف کے خلاف کل 28 مقدمات شروعکیے جن میں سے 15 ناکافی شواہد کی وجہ سے اگلے 4 برسوں میں خارج ہو گئے جبکہ 9 مقدمات 18 سال گزر جانے کے بعد ابھی بھی زیرِ تفتیش ہیں۔

محترمہ بےنظیر بھٹو شہید اور آصف علی زارداری کے خلاف لگنے والے بدعنوانی کے الزامات کی ابتداء سنہ 1988 ء میں اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان، آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ، آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل اور ان طاقتوں کی طرف سے کی گئی جنہوں نے ہمیشہ عوام کے ووٹوں پر بھروسہ نہیں کیا اور اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومت بنوانے کی کوششیں کی۔ سنہ 1990 ء سے لے کر سنہ 2004 ء تک غلام اسحاق خان، مسلم لیگ (ن) ، فاروق لغاری اور جنرل پرویز مشرف نے محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف زرداری پر کرپشن کے تقریباً ڈیڑھ درجن ریفرینسز فائل کیے۔

اِس کے بعد پرویز مشرف کی حکومت نے بھی اندرون و بیرونِ ملک ان الزامات، ریفرینسز اور مقدمات کو آگے بڑھایا مگر محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور آصف علی زرداری نے ہمیشہ اپنا مؤقف برقرار رکھا کہ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات خالصتاً سیاسی تھے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹس محترمہ بینظیر بھٹو کے دعوٰے کی تصدیق کرتی ہیں کہ اُن پر اور اُن کے شوہر آصف علی زارداری کے خلاف کرپشن کے مقدمات دائر کرنے کے لئے ملکی خزانے سے خطیر رقم خرچ کی گئی۔

اکیلے غلام اسحاق خان نے 1990 ء کی دہائی کے شروع میں پیپلز پارٹی راہنماؤں پر بدعنوانی کے جعلی مقدمات شروع کروانے کے لئے قانونی مشیروں کو 28 ملین روپے ( 2 کروڑ 80 لاکھ روپے) اداکیے۔ اس کے بعد دوسرے حکمرانوں نے بھی سرکاری وکیلوں اور مقدمات پر اُس وقت قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کر دیے لیکن ووٹ دشمن طاقتوں کی بھرپور کوششوں کے باوجود آج تک کوئی ایک اِلزام محترمہ بےنظیر بھٹو اور آصف علی زرداری پر ثابت نہیں ہو سکا اور سنہ 2015 ء میں آصف علی زارداری اپنے خلاف درج آخری مقدمہ میں بھی باعزت بری ہو گئے۔

پیپلز پارٹی قیادت پر درج مقدمات کے سلسلہ میں میاں نواز شریف نے نامور صحافی سہیل وڑائچ سے“ غدارکون؟ نوازشریف کی کہانی اُن کی زبانی ”نامی اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 137 پر کچھ یوں بیان کیا ہے کہ:۔

سوال: آپ کے دوسرے دور میں کئی پیچیدہ سیاسی مسائل پیدا ہوئے اور آپ نے احتساب کا ایسا طریق کار اپنایا کہ اپنی قائد حزبِ اختلاف بےنظیر بھٹو کا پتہ ہی صاف کر دیا، کیا یہ جمہوری رویہ تھا؟

نواز شریف: احتساب کا طریق کار غلط تھا۔ ہمیں اس حوالے سے اکسایا گیا تھا۔ فوج اور آئی ایس آئی کا ہم پر دباؤ تھا۔ جان بوجھ کر ہم سے بے نظیر اور اپوزیشن کے خلاف ایسے اقدامات کروائے گئے تاکہ عوام کا سیاست دانوں پر اعتبار ختم ہو جائے۔

واقفان۔ حال کہتے ہیں کہ اِس کے بعد جب بھی نواز شریف کی آصف علی زرداری سے ملاقات ہوئی، اُنھوں نے بار بار قسمیں کھاتے ہوئے آصف علی زرداری کو یہ یقین دہانی کروانے کی بھرپور کوشش کی کہ ان کے خلاف جھوٹے مقدمات ملٹری کے پریشر پر بنائے گئے تھے۔ یاد رہے کہ نواز شریف کے پہلے دونوں ادوار میں آصف علی زرداری مکمل طور پر قید رہے، وہ ایک بار بھی ضمانت پر رہا نہیں ہوئے۔ حتٰی کہ والدہ کے جنازے میں شریک ہونے کے لیے پیرول پر تک رہا نہ کیا گیا۔

میاں نواز شریف کے اس بیان سے یہ تاثر اور قوی ہوتا ہے کہ سیاسی قیادت کے خلاف بنائے جانے والے یہ مقدمات بدعنوانیوں پر سزا کے لئے نہیں بلکہ کچھ اور طرح کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ عوامی ووٹ مخالف طاقتیں سیاسی قیادت سے اپنی کشمکش کے دوران ان بدعنوانوں سیاستدانوں کے معاملات سے نظر چرا لیتی ہیں جو درحقیقت بدعنوانی کے اصلی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ معاشرہ میں عدل کو برقرار رکھنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ مقبول عام سیاسی جماعتوں کی بجائے اصلی بدعنوان سیاستدانوں کے معاملات کی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تحقیقات کی جائیں چاہے اس میں حکومت کے وزراء، اراکین اسمبلی بھی شامل ہوں یا اپوزیشن کے جفادری سیاستدان۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).