مکالمے کی جیت


چند ماہ قبل ایک ری ٹریٹ کے دوران  ہمیں بہت سے  مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مل کر ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد  کی روک تھام کے لئے غوروخوض اور عملی منصوبے  تشکیل دینے کا موقع ملا ۔ ری ٹریٹ میں     مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکنان کے علاوہ  ہر مسلک کے علمائے کرام بھی شامل تھے۔  آخری صبح   ہر مسلک  کے ہاں دوسرے مسالک کے بارے میں پائے جانے والے منفی  تصورات پر بات ہونی تھی    اور  ہم نے سوچا کیوں نہ پہلی بار مذہبی حلقوں میں  سیکولر ازم  کے بارے  میں پائے جانے والے  منفی  تصورات  پر  بھی بات کی جائے ۔  میں نے یہ  رائے دی    تو  سیکولر خیالات کے مالک دوستوں نے مجھے ہی اپنا نمائندہ بناکر سٹیج پر بٹھا دیا  اور پھر   مختلف مسالک  سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنماوں نے سیکولرز کے بارے میں پائے جانے والے عام خیالات کی روشنی میں مجھ سے سوالات کئے ۔

کچھ علمائے کرام کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ میں  سیکولر گروپ کی نمائندگی کررہا ہوں ۔ اُن کی حیرت کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ  چند روز ہ گفتگو کے دوران  میں  اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کرتا رہا تھا  کہ   پاکستان میں صرف مدارس ہی انتہا پسند پیدا کرنے کی نرسریاں ہیں ۔میرا خیال تھا  کہ ہمارے ملک کے سرکاری اور غیر سرکاری سکول بھی اس ‘کارِ خیر’ میں  مدارس  سے چند جوتے آگے ہیں۔

 ہمارے دوستوں کے پاس  اس سوال کا جواب  نہ تھا کہ  لمز اور اس جیسے کئی  نجی اداروں کے طلبا دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر سبین محمود کا قاتل  کسی مدرسے نہیں آیا تھا ۔میں نے اپنے  دلائل میں  اقوامِ متحدہ کی اُس رپورٹ کا حوالہ دیا    کہ  دہشت گردوں میں سے اکثر اس احساس کے ساتھ انتہا پسندی کی راہ اختیار کرتے ہیں کہ دُنیا بھر میں مُسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے   اور یہ سوال  کہ ‘‘دُنیا میں مُسلمانوں پر کہاں کہاں ظلم ہورہا ہے ’’ مہنگے  نجی تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی  کتب میں شامل ہے لیکن ان اداروں کو بند کرنے کی بات کوئی نہیں کرتا ۔

اس دوران میں نے اپنے  دوست  اور ماہرِ تعلیم  راشد سلیم  کا حوالہ دیا جن کی تحقیق یہ بتاتی ہے  کہ مدارس سے فارغ التحصیل لوگ انتہا پسندوں کے بیانیے  کو رد کرسکتے ہیں جبکہ   پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں کے طلبا  مذہب کی انتہا پسندانہ عسکری تشریح کے سامنے اندھے ، گونگے اور بہرے بن کر  جھک جاتے ہیں ۔

اس لئے  علمائے کرام کو خوشگوار حیرت ہورہی تھی ۔

سیکولرز  کے بارے میں پائے جانے والے  عام تصورات پر بات ہوئی تو چند  دن اکٹھے گذارنے سے علمائے کرام کے بہت سے شکوک و شبہات پہلے ہی  دُور ہوچکے تھے۔ سیکولر خواتین کے بے پردہ ہونے پر بے حیا ہونے کی تہمت بھی نہیں لگائی جاسکتی تھی کیونکہ  ہمارے گروپ میں موجود خواتین  ، بقول علمائے کرام کے، ان خواتین کی نسبت زیادہ مضبوط کردار اور اعصاب کی مالک تھیں  جنہیں  سماجی یا مذہبی دباؤ کے تحت گھروں میں بند رکھا جاتا ہے ۔ ایک عالم دین نے کھل کر کہا کہ جن پر اعتماد نہیں کیا  جاتا  انہیں ہم خود ہی  ناقابلِ اعتماد بنا دیتے ہیں ۔ چند روز ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے یہ بھی پتہ چل چکا تھا کہ  مذہبی حلقوں میں  سیکولر خواتین و حضرات کے خلاف جس  قدر غلط پروپیگنڈا کیا جاتا ہے   وہ  حُسن ظن کے اصول کے منافی ہے اور اس لئے  مذہبی حلقوں کو ہرگز ذیب نہیں دیتا ۔

ایک مولانا نے سوال کیا  کہ آپ اپنے آپ کو کھلے عام لادین کہتے ہیں تو اس سے قبل کہ میں جواب دیتا دُوسرے عالم نے خود جواب دیا، ‘‘لادین نہ کہیں ۔ یہ مجھے ہمہ دین لگے ہیں ۔میں معذرت خواہ  ہوں کہ میں بھی  سیکولر خواتین و حضرات کے بارے میں غلط  فہمی کا شکار تھا ’’۔

یہ حضرت ایک روز قبل صوفی شاعری پر بات کرتے رہے تھے ۔

اسی روز کھانے اور چائے کے وقفوں کے دوران بات چیت کا سلسلہ جاری رہا ۔اس بات چیت سے چند علمائے کرام کو یہ ادراک ہوا کہ  سیکولرازم مذہب دشمنی کا نام نہیں بلکہ مذہب دوستی کا نام ہے ۔ کیونکہ سیکولرازم وہ ڈھال ہے جو   مذہب کا  سیاسی اور عسکری  استحصال  نہیں ہونی دیتی  ۔ اگر مذہب کا سیاسی و عسکری استعمال ہونے لگے تو  سیاسی  و عسکری طاقتیں اپنے  ذاتی مفادات  کے لئے جنگ کو خُدا کے لئے جنگ قرار دے کر مذہب کی اخلاقی سالمیت کا شیرازہ بکھیر  کر رکھ دیتی  ہیں ۔ مفاد پرست   اپنے دشمنوں کو خُدا یا مذہب کے دشمن قرار دے کر عام لوگوں  کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہیں ۔

اس پر علمائے کرام نے خود مثالیں پیش کرتے ہوئے اُن سیاسی جماعتوں کی مثالیں دیں جو اپنے سیاسی حریفوں کو اسلام دشمن یا کافر قرار دے دیتی  ہیں ۔ خیبر پختونخواہ سے آئے ہوئے عالم ِ دین نے  بتایا کہ وہاں کچھ مذہبی سیاسی جماعتوں نے الیکشن کے دنوں میں یہ مشہور کررکھا تھا کہ انہیں ووٹ دینے والا بلا روک ٹوک  جنت میں جائے گا ۔ ملتان سے آئے ہوئے ایک عالم نے بتایا کہ   ملتان میں گیلانی ہوں یا قریشی  ، انتخابات سے قبل یہ افواہ پھیلا دیتے ہیں کہ اگر کسی نے  گدی نشینوں  کو ووٹ نہ دیا  تو  خُدا ناراض ہوجائے گا  اور ان کی  بھینسیں دودھ دینا بند کردیں  گی ۔  المختصر ہر ایک کے پاس کئی ایسی مثالیں تھیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ ہر طاقتور گروہ   نے اپنے مفادات کے  ڈھیر کو مذہب   اور اس کے تحفظ کو مذہب پرستی قرار دے رکھا ہے ۔

اس مختصر بات چیت میں اس بات پر اتفاق پایا گیا کہ سیکولر ازم کی مخالفت کرنے والے  دراصل  مذہب کے نادان دوست ہیں  اور وہ مذہب کے نام پر اپنے مفادات کی عبادت کرتے ہیں ۔

چند روز قبل ان میں سے ایک  مولانا صاحب نے  اسلام آباد میں ہونے والی ایک کانفرنس میں    پچاس سے زائد مذہبی رہنماوں کی موجودگی میں خطاب کرتے ہوئے  کھل کر کہا کہ سیکولرز کے بارے میں پائے جانے والے تمام منفی خیالات غلط ہیں ۔ ہمیں شکلوں اور لباس کو دیکھ کر لوگوں کے بارے میں رائے قائم نہیں کرنی چاہیے ۔ وہ بار بار زور دیتے رہے کہ انہوں نے سیکولرز کو انسان دوست ، زندگی کا احترام  کرنے والے اور امن پسند پایا ہے۔ اس لئے وہ انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سب کو انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے ۔ انہیں معاشرے کا اثاثہ سمجھنا چاہیے   جو حورو قصور کے وعدوں  کے  بغیر امن  و سلامتی کی راہ پر چل رہے ہیں ۔ ان کی بات سننی چاہیے ۔انہوں نے ہماری ایک ماہر تعلیم دوست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے  کہا کہ  انہوں  نے سچ بولنے کی جرات ان سے سیکھی ہے۔ مولانا صاحب اس حد تک جذباتی ہوئے کہ یہ سوچ کر ان کی آنکھیں بھر آئیں کہ وہ کچھ لوگوں سے ملے بغیر ، ان کی بات سنے بغیر انہیں گمراہ سمجھتے  رہے ۔۔

  میں  کئی روز  مولانا صاحب کی وسعتِ نظری ، اپنے خیالات پرنظرِ ثانی اور پھر برملا اظہار کی طاقت کے سحر  میں رہا  اور اسی دوران  میں نے یہ واقعہ سوشل میڈیا پر شئیر کردیا ۔ اس پر   سیکولر دوستوں نے   مجھے مبارک باد کے پیغامات بھیجنا شروع کردیے  کہ جیسے میں  نے اپنی سپہ سالاری میں انہیں کسی جنگ میں فتح دلا دی ہو ۔ میں ان سب دوستوں سے اس  مضمون کے توسط سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ    میری فتح  نہیں  بلکہ   مولانا صاحب  کی جرات اور ایمانداری کی فتح ہے  ۔ یہ  مجادلے ، مناظرے، تبلیغ  اور بحث  پر   مکالمے کی  فتح ہے ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ  جب ہم  مسائل پر سختی اور لوگوں پر نرمی کا اصول اپنا کر کسی کو مٹانے      کا خیال ترک کرتے ہیں  تو دُوسرے بھی ہمیں   مٹانے کا خیال ترک کردیتے ہیں۔

مولانا صاحب نے یہ سب باتیں   مذہبی رہنماؤں اور میڈیا کی موجودگی میں کیں لیکن  مناظروں اور مجادلوں کے لئے وقف ٹاک شوز  میں  ‘جو چیخا وہی سکندر ’ کا  کھیل کھیلا جاتا رہا ۔اس صورتِ حال  میں   میڈیا پر مکالمے کا کلچر اپنانا  ملک کے لئے تو  فائدہ مند ہوسکتا ہے    لیکن  ہیجان خیز تفریحی مواد نہ ہونے کی  وجہ سے شوز کی ریٹنگ کم ہوسکتی ہے ۔ جیسے  امن کے ادوار  کلاسیکی مورخ کے لئے  خشک سالی اور قحط کے ادوار ہوتے تھے ۔ ویسے  ہی پُرامن گفتگو سے   ٹاک شوز کی رونقیں ختم ہوسکتی ہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments