کیا مولانا فضل الرحمان حزب اختلاف کو متحد کرسکیں گے؟


عمران خان کو اقتدار سنبھالے تقریبا ڈھائی مہینے ہونے کو ہیں، لیکن ملک میں سیاسی انتشارعروج پرہے۔ حالانکہ قومی انتخابات کے بعد وفاق اور چاروں صوبوں میں پرامن طریقے سے انتقال اقتدار کے بعد سیاسی بے چینی کو ختم ہونا چاہیے تھا۔ صدرمملکت اور چاروں صوبوں میں گورنرز بھی تبدیل ہوچکے ہیں، اس تبدیلی کے اثرات عملی سیاست میں نظر آنے چاہیے تھے، لیکن بو جہ سیاسی درجہ حرارت سرد موسم میں بھی مسلسل گرمی کی طرف بڑھ رہی ہے۔

ممکن ہے کہ سیاسی درجہ حرارت میں گرمی کی ایک وجہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے سربراہ اور مسلم لیگ (ن)کے صدر میاں شہباز شریف کی گرفتاری ہو۔ ایک وجہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری کی متوقع گرفتاری بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن ان دو وجوہات کے ساتھ ساتھ تیسری وجہ خود حکومت کی ”زبان درازی“ بھی ہے۔ وزیراعظم عمران خان خود ”زبان دراز برگیڈ“ کے سرخیل ہیں۔ جو کسر باقی رہ جاتی ہے وہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری پوری کر دیتے ہیں۔

اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے ابھی تک عوام کو کوئی سہولت نہیں دی۔ اس لئے کسی حد تک پارٹی کارکنوں اور کافی حد تک ووٹرز میں اضطراب پایا جارہا ہے۔ بجلی، گیس اور ایل این جی کی قیمتوں میں اضا فے سے مہنگائی کا جن دہشت گردوں کی طرح دندناتے پھر رہا ہے۔ لیکن وزیراعظم عمران خان، وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر اور تحریک انصاف کے کارکن عوام کو تسلی دے رہے ہیں کہ یہ سب مشکلات عارضی ہیں۔ بس ایک سال صبر کرنا ہے، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جو کچھ عمران خان کاٹ رہے ہیں، وہ پرویز مشرف، آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کا بویا ہوا ہے۔ اس وجہ سے عوام کی اکثریت ایک سال صبر پر قناعت کرنے پر راضی ہو رہی ہے۔

ڈھائی مہینے بعد ملک میں سیاسی درجہ حرارت کو اب ٹھنڈا ہونا چا ہئے تھا، لیکن حالا ت معمول پر آنے کی بجائے درجہ حرارت میں مسلسل اضا فہ ہو رہا ہے۔ ان حالات میں یہ سوال اہم ہے کہ کیا مولانا فضل الرحمان، میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کے درمیان فاصلوں کو کم کرکے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو متحد کر سکیں گے؟ اگر وہ اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جائے تو کیا عمران خان کو قبل از وقت وزارت عظمیٰ سے بے دخل کر سکیں گے؟ جہاں تک تعلق ہے، میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کے درمیان مو جود تلخیوں کو کم کرنے کا تو اس کا امکان نہیں۔

اس لئے کہ آصف علی زرداری کے جتنے بھی دوست اس وقت پابند سلاسل ہے یا ان پر مقدمات ہیں، وہ میاں نوازشریف کو اس کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین اور شرجیل میمن پر قائم مقدمات کا ذمہ دار وہ میاں نوازشریف اور ان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان کوہی سمجھتے ہیں۔ اس لئے ذاتی معاملات میں شریف خاندان اور زرداری خاندان میں تعلقات اس حد سے آگے جا چکے ہیں کہ جس میں صلح کی گنجائش مو جود ہوتی ہے۔ اس لئے یہ ایک سعی لا حاصل ہے۔ بہر کیف مولانا فضل الرحمان نے اپنے آپ کو پانچ سال مصروف رکھنے کے لئے بہانے تلاش کرنے ہیں، ان مشاغل میں ایک شریف خاندان اورزرداری خاندان کے درمیان صلح شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

رہی بات مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی پارلیمان میں متحد ہو نے کا تو اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) اس وقت سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے۔ پنجاب میں وہ ایک مضبو ط اپوزیشن ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پیپلز پارٹی سندھ میں برسر اقتدار ہے۔ اس لئے وہ اقتدار کا سودا کبھی نہیں کریں گے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) پورے ملک میں کہیں بھی اقتدار میں نہیں۔ دوسرا پیپلزپارٹی اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہے کہ حالات کچھ بھی ہوں مرکز میں اقتدار ان کو ملنا نہیں، اس لئے وہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ کبھی بھی اس حد تک متحد ہونے پر تیار نہیں ہو نگے کہ عمران خان کی بجائے میاں شہباز شریف کو وزیراعظم بنایا جائے۔

ایک صورتحال یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مولانا فضل الرحمان حزب اختلاف کو متحد کرنے میں کامیاب ہو جائیں، لیکن اس صور ت میں ان کی خواہش کی تکمیل ممکن نہیں۔ یعنی وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور اس کی کا میابی۔ لہذا ایسی کا میابی کا کیا کہ جس میں انسان کی پہلی اور آخری خواہش پوری نہ ہو۔ اس اتحاد سے مولانا کے کندھوں پر صرف بو جھ میں اضا فہ ہو سکتا ہے۔ ان کو صرف ایک اور عہدہ مل جائے گا۔ صدر متحدہ اپوزیشن۔

موجودہ سیاسی صورتحال میں لگ ایسے رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی دو الگ کشتیوں کے سوار ہیں۔ دونوں حکومت کے خلاف سڑکوں پر احتجاج یا کسی بڑے عوامی احتجاج کے لئے بالکل تیار نہیں۔ مسلم لیگ (ن) قومی اور پنجاب اسمبلی میں بھر پور احتجاج جاری رکھے گی۔ یہ سلسلہ پانچ سال تک چلتا رہے گا۔ اگر میاں شہباز شریف کو رہا کر دیا جاتا ہے تو ممکن ہے کہ اس کی شدت میں بھی کمی ہو جائے۔ اس کے بعد بھی اگر مسلم لیگ (ن) کے ارکان پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا تو فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سے بچنے کے لئے میاں شہباز شریف قومی اسمبلی اور حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی میں علامتی احتجاج پر ہی گزارا کریں گے۔

اس دوران مولانا فضل الرحمان کے ارکان اسمبلی مسلم لیگ (ن) کی بی ٹیم کا کردار ادا کریگی۔ پیپلزپارٹی حالات کے مطابق ساتھ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کریگی۔ حقیقی صورت حال یہی ہو گی کہ حزب اختلاف کے دو بڑی پارلیمانی جماعتوں کے درمیان چوہے، بلی کا کھیل پانچ سال تک ہی جاری رہے گا۔ اس دوران حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بھی نوک جھونک ہوتی رہے گی۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مو لانا فضل الرحمان ان پانچ سالوں میں اس ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کی کو شش کرے گے، لیکن مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی ہی ان کوششوں کو ناکام بنا ئے گی، ورنہ وزیراعظم عمران خان اور ان کے ”زبان دراز بر گیڈ“ بار بار ان کو مواقع فراہم کر تے رہیں گے۔ مولانا کی خا موشی ایک صورت میں ممکن ہے اور وہ ہے حکومت کی کارکردگی، لیکن حکومتی کارکردگی کے اثرات محسوس کر نے کے لئے ابھی دوسال تک انتظار کرنا ہو گا۔ اس لئے دوسال تک سیاست کا میدان گرم ہی رہے گا، لیکن حزب اختلاف منتشر رہی گے۔ جس کا فائدہ اپوزیشن کی بجائے حکومت کو ہی ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).