غیرتی قتل اور اسلامی نظریاتی کونسل کا نیا پینترا


\"edit\"ملک میں مختصر عرصے میں یکے بعد دیگرے نوجوان لڑکیوں کو جلا کر مارنے اور خاندانی غیرت و عزت کے نام پر ہونے والے قتل کے افسوسناک واقعات کے بعد بالآخر اسلامی نظریاتی کرنسل نے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بیان جاری کیا ہے۔ اس بیان میں جو وضاحتی اور معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل گزشتہ کچھ عرصہ سے سامنے آنے والی تنقید کا جواب دینے کےلئے یہ بیان جاری کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ بصورت دیگر انسانی جانوں کے ضیاع پر وہ خاموش رہنا ہی مناسب خیال کرتی ہے۔ نام نہاد غیرت کے نام پر بچیوں کو قتل کرنا ایک سماجی علت بن چکی ہے۔ اس عارضے سے نمٹنے کیلئے نظریاتی تقسیم سے ماورا ہو کر کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن بدنصیبی کی بات ہے کہ ملک کے دینی طبقے اور مذہب کی سربلندی کےلئے سیاست کرنے والی جماعتیں اس معاملہ پر آواز بلند کرنے اور معاشرتی اصلاح میں اپنا کردار ادا کرنے سے گریز کرتی رہی ہیں۔ اس حوالے سے خاص طور سے اسلامی نظریاتی کونسل سے امید وابستہ کی جاتی ہے۔ لیکن یہ کونسل بھی ایسے بھیانک واقعات ظہور پذیر ہونے کے بعد پراسرار طور سے خاموشی ہی رہتی ہے۔ اس طرز عمل سے غیرت کے نام پر قتل کو سماجی قبولیت حاصل ہوتی جا رہی ہے۔

مباحث کے دوران متعدد علما اس قسم کی قتل و غارتگری پر بات کرتے ہوئے ملک میں فحاشی اور بے شرمی کی صورت حال، نامناسب لباس، والدین کے احترام میں کمی، سماجی ضرورتوں کو نظر انداز کرنے جیسے مناظرے شروع کر لیتے ہیں۔ یا پھر اس حوالے سے سامنے ہونے والی تنقید کے جواب میں وہ رویہ اختیار کرتے ہیں جو جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر حمد اللہ نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں ایک سماجی کارکن خاتون کے ساتھ اختیار کیا۔ اس حوالے سے افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ حمد اللہ اور ماروی سرمد تنازعہ سامنے آنے کے بعد غیرت کے نام پر قتل جیسے اہم موضوع پر بحث کرنے اور صورتحال واضح کرنے کی بجائے، زیادہ تر مباحث اس بات پر ہوئے ہیں کہ حمد اللہ نے زیادتی کی تھی یا اس نے صرف اپنا دفاع کیا تھا اور اصل بدتمیزی ماروی سرمد نے کی تھی۔ یہ ٹیلی ویژن مباحثہ عورتوں کے قتل کے موضوع پر ہوا تھا، اس لئے اس تنازعہ پر اصل مسئلہ کو پس منظر میں دھکیلنے کی ہر کوشش افسوسناک ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ پر درست ہے کہ مختلف ٹاک شوز اہم موضوعات پر بحث کے ذریعے نہ تو معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں اس بات سے غرض ہوتی ہے کہ مختلف نقطہ لوگ اپنا اپنا موقف سلیقے سے پیش کریں تا کہ اصل مسئلہ کے حل کیلئے کوئی راستہ اختیار کیا جائے۔ کمرشل مفادات کے تحت کام کرنے والے ان ٹاک شوز کا اصل مقصد سنسنی خیزی پیدا کرنا اور کوئی ہنگامہ کھڑا کرنا ہوتا ہے ، تاکہ لوگ اس طرف متوجہ ہوں اور پروگرام کی ریٹنگ اور ٹیلی ویژن چینل مالکان کی آمدنی میں اضافہ ہو سکے۔

ایبٹ آباد ، مری اور لاہور میں یکے بعد دیگرے تین لڑکیوں کو جلانے کے واقعات ہوئے ہیں۔ ان تینوں سانحات میں شکار بننے والی لڑکیوں کی عمریں 17 سے 19 برس کی تھیں۔ ایک لڑکی کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنی ایک سہیلی کو فرار ہو کر اپنی مرضی سے شادی کرنے کا موقع فراہم کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن گاؤں کے جرگہ نے مل کر اسے زندہ جلانے کی ٹھان لی۔ دوسرے واقعہ میں ایک لڑکی نے اپنے سے دوگنی عمر کے مرد سے شادی کرنے سے انکار کیا تھا۔ غصے میں آ کر رشتہ کے خواہشمندوں نے اسے مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔ گزشتہ ہفتے لاہور میں ہونے والے واقعہ میں ایک 18 سالہ لڑکی نے اپنی مرضی سے کورٹ میرج کر لی تھی۔ اس کے گھر والوں کو یہ شادی منظور نہیں تھی۔ اس لئے وہ بہلا پھسلا کر اسے واپس لائے اور یہ وعدہ کیا کہ وہ باقاعدہ طور سے اسے رخصت کرنا چاہتے ہیں۔ اس وعدہ پر جب لڑکی گھس واپس آئی تو اس کی ماں نے اپنے بیٹوں اور دیگر عزیزوں کے ساتھ مل کر پیٹرول چھڑک کر اسے آگ لگا دی۔ اس طرح خاندان کی مرضی کے خلاف کرنے کی کوشش پر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ اس دوران کئی باپ اور بھائی اپنی ناک اونچی رکھنے کےلئے بیٹیوں اور بہنوں کو قتل کر چکے ہیں۔ مختلف اعداد و شمار کے مطابق ملک میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی لڑکیوں یا عورتوں کی تعداد ایک ہزار سالانہ سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں جہاں خاندان کے لوگ جرم کرنے کے بعد اس کا نشان مٹا دیتے ہیں اور لڑکی کی موت کو فطری موت قرار دے کر معاملہ دبا دیا جاتا ہے۔

صورتحال کی ہولناکی اور سنسنی خیزی کی وجہ سے ملک میں غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کیلئے مسلسل آواز بلند ہوتی رہتی ہے۔ لیکن اس حوالے سے کوئی موثر اقدام دیکھنے میں نہیں آتا۔ حال ہی میں شرمین عبید چنائے نے اس سماجی موضوع پر ایک فلم ’’اے گرل ان دی ریور‘‘ A GIRL IN THE RIVER بنائی تھی۔ اس دستاویزی فلم کو آسکر ایوارڈ بھی ملا ہے۔ وزیراعظم ہاؤس میں فلم کی نمائش کے دوران نواز شریف نے اس سماجی علت کے خاتمہ کے لئے قوانین سخت کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قسم کے جرائم کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ غیرت کے نام پر قتل ، دہشت گردی کے بعد دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں اور ملک کے نظام اور سماجی شعور کے بارے میں طرح طرح کے سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ لیکن ملک میں اس قسم کے واقعات کو صرف وقتی توجہ حاصل ہوتی ہے۔ اس جرم کی سنگینی کے باوجود معاشرے کے مختلف طبقے مل کر کام کرنے اور اس رویہ کی بیخ کنی کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ اس کی بجائے ایسی بحث کو اسلام اور اس کے حامیوں و مخالفین کا مناظرہ بنا کر معاملہ سے توجہ ہٹا دی جاتی ہے۔

اب اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک بار پھر غیرت کے نام پر قتل کو خلاف اسلام قرار دیا ہے۔ لیکن یہ بات اسلامی نظریاتی کونسل کے فاضل چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور دیگر اراکین کو بھی بخوبی معلوم ہے کہ اس بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ جرم یا انسانوں کو مارنے کا جرم یا دہشت گردی وغیرہ جیسے افعال کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ خاص طور سے غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے تو کبھی یہ بات سامنے نہیں آتی کہ ایسا اقدام عقیدے کی حفاظت کےلئے کیا گیا ہے۔ اس لئے ایک اعلیٰ قومی ادارے کی جانب سے ایسا کمزور بیان مسئلہ کو سمجھتے ہوئے بھی ، اسے نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔

اس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ غیر اسلامی فعل قرار دینے کے باوجود مذہبی تنطیمیں یا علمائے دین ان جرائم کے خلاف کمربستہ نہیں ہوتے۔ جب بھی ایسا کوئی جرم سرزد ہوتا ہے تو نہ تو علاقے کی مسجد یا قومی سطح پر اہمیت رکھنے والے علمائے دین اس واقعہ پر احتجاج کرنے، اسے مسترد کرنے اور اس کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسی لئے سماجی اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہ لوگ اس شرمناک فعل کو اسلام کے خلاف قرار دینے کے باوجود ، ایسا واقعہ ہونے کی صورت میں احتجاج کے لئے کیوں سامنے نہیں آتے۔ اگر ایسا کوئی واقعہ ہونے پر متعلقہ محلہ کی مسجد کے امام ہی جمعہ کے خطبہ میں اپنے غم و غصہ کا اظہار کریں اور لوگوں کو اس جرم کی سنگینی اور ناپسندیدگی سے آگاہ کرنے کا کام کریں تو اس جرم کی بیخ کنی کےلئے موثر کام کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اس کی بجائے دین کا جھنڈا اٹھانے والے سب لوگ نہ جانے کیوں غیرت کے نام پر قتل کی مذمت کو اسلام کے شعائر اور اخلاقی اصولوں پر حملہ تصور کرنے لگتے ہیں اور اصل موضوع پر بات کرنے سے گریز اور اس جرم پر تنقید کو اسلام دشمنوں کا چلن قرار دے کر سرگرم ہونا ضروری سمجھتے ہیں۔ اسی رویہ کی وجہ سے غیرت کے نام پر قتل جیسے جرم کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے کے کام میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔

اس حوالے سے دوسری یہ مشکل حائل ہے کہ ملک کے متعلقہ قوانین اس گھناؤنے جرم کی سزا دینے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ اس لئے ان میں تبدیلی کرنے اور انہیں موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے سینیٹر اعتزاز احسن نے گزشتہ دنوں سینیٹ میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ ایسے جرائم میں ضمانت کا حصول مشکل بنانے کے علاوہ دیت ، قصاص اور معافی کے ذریعے جرم کی سزا سے بچنے کے طریقہ کار کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اکثر صورتوں میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ خاندان کے لوگ مل کر بہن یا بیٹی کو قتل کرتے ہیں، اس کے بعد ایک فرد پر جرم عائد کروا دیا جاتا ہے۔ بعد میں خاندان کے دوسرے افراد معافی دینے کا ’’شرعی حق‘‘ استعمال کرتے ہوئے اپنے اس بیٹے یا بھائی کو بری کروا لیتے ہیں، جس نے ان سب کی مرضی و صوابدید سے ہی اس جرم کا ارتکاب کیا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے جب بھی قانون موثر بنانے کی بات کی جاتی ہے تو اسی طریقہ کار کی طرف اشارہ مطلوب ہوتا ہے۔

اب اسلامی نظریاتی کونسل نے غیرت کے نام پر قتل کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے یہ واضح کرنا بھی ضروری سمجھا ہے کہ اس جرم کی روک تھام کے لئے نئے قانون بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یوں بھی کونسل کے فاضل چیئرمین و اراکین نے اس اہم مسئلہ پر از سر نو غور کرنے کی بجائے 1999 میں مرتب کی جانے والی سفارش کو از سر نو ایک بیان کی صورت میں جاری کرنا کافی سمجھا ہے۔ اس سفارش میں اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ موقف اختیار کیا ہے:

’’بدکاری و بے حیائی اور فواحش و منکرات کا ارتکاب اگرچہ کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ شریعت میں اس کی سزا بھی بے حد سنگین مقرر کی گئی ہے، مگر دین اسلام میں کسی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اپنے کسی عزیز یا عزیزہ کو کسی اخلاقی جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھے تو قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اسے خود ہی سزا دینا شروع کر دے۔ اس کیفیت میں مشتعل ہو جانا اور غیرت کا مظاہرہ کرنا ایک طبعی بات ہے مگر فواحش و منکرات کو حرام قرار دینے کے باوجود اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شخص ماورائے عدالت از خود بداخلاقی کے مجرم کو سزا دے۔ لہٰذا اس مجرم کو بھی عدالت ہی میں پیش کیا جائے گا۔ کمیٹی کی رائے میں اس وقت ملک میں اس مسئلہ سے متعلق رائج قانون شریعت کے مطابق ہے، اس بارے میں کسی مزید قانون سازی یا ترمیم کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔

اس بیان میں یہ طے کر دیا گیا ہے کہ خاندان کے ہاتھوں جلائی جانے والی یا ماری جانے والی خواتین ہی دراصل ’’قصوار وار‘‘ تھیں لیکن اہل خاندان کو غصہ میں آ کر قانون ہاتھ میں لینے کی بجائے، ایسے معاملات قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتوں کے سپرد کر دینے چاہئیں۔ گویا اپنی مرضی سے شادی کرنا یا اس کی خواہش کرنا یا خاندان کی طرف سے جبری شادی پر اصرار کو نہ ماننا ایسا جرم ہے جو فواحش ، منکرات کے زمرے میں آتا ہے۔ حالانکہ گزشتہ دنوں خواتین کی حفاظت کے مجوزہ قانون کے لئے سفارشات دیتے ہوئے مولانا محمد خان شیرانی نے خود ہی فرمایا تھا کہ بالغ لڑکی کو مرضی کی شادی کرنے کا حق و اختیار حاصل ہے۔ لیکن آج جاری ہونے والے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کوئی عاقل و بالغ لڑکی اپنا یہ حق منوانے کی کوشش کرے گی تو وہ ’’فحاشی‘‘ کی مرتکب ہو گی۔ اور اس کی اس حرکت پر خاندان کا اشتعال اسلامی نظریاتی کونسل کے نزدیک ایک ’’طبعی بات‘‘ ہو گی۔

یہ بیان اگرچہ غیرت کے نام پر قتل کی حوصلہ شکنی کے مقصد سے مکرر جاری کیا گیا ہے لیکن دراصل یہ اس قسم کا جرم کرنے والوں کے فعل کو درست قرار دینے کی مذموم کوشش ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور اس کے چیئرمین کو غور کرنا ہو گا کہ کیا ان کا یہ نقطہ نظر مجرموں کی حوصلہ افزائی کا سبب نہیں بنتا اورکیا یہ طریقہ بھی اسلامی احکامات اور اسوۃ حسنہ کے خلاف نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments