کوک سٹوڈیو کا کوکو کورینا


کہا جاتا ہے موسیقی روح کی غذا ہے، ایک ایسا سمندر جس کی گہرائی کا اندازہ لگانا دشوار ہے۔ موسیقی میں سُر اور لے کو ملحوظِ خاطر رکھنا سب سے اہم اور مشکل امر سمجھا جاتا ہے۔ ماضی میں گانے بناتے ہوئے موسیقار اِس بات پر خاص توجہ دیتے کہ میوزک کانوں کو بھلی لگے، نتیجتاً گائیک کی میٹھی مدُھر آواز سے گانے کو چار چاند لگ جاتے۔ پاکستان فلمی صنعت میں ایسے کئی بڑے گلوکار جنہوں نے نا صرف بھرپور انداز مین اپنے فن کا مظاہرہ کیا بلکہ محنت و لگن سے اپنا منفرد مقام بھی بنایا۔

اِن ہی ناموں میں ایک ورسٹائل گائیک احمد رشدی کا ذکر یہاں لازم ہے، جن ہوں نے ساؤتھ ایشیا میں پوپ میوزک متعارف کرایا۔ اُن کے بے تحاشا مشہور گیت جن میں بندر روڈ سے کیماڑی، کبھی تو تم کو یاد آئیں گی، کچھ لوگ روٹھ کر بھی، بھولی ہوئی ہوں داستان، گول گپے والا، اے ابرِ کرم، تمہیں کیسے بتا دوں تم میری منزل ہو، سوچا تھا پیار نا کریں گے، ہاں اسی موڑ پر، اکیلے نا جانا، قابل ذکر ہیں۔ اِن کے بیشتر گیت وحید مراد اور میوزک ڈائریکٹر سہیل رانا کے ساتھ کافی پسند کیے گئے۔

اتنی لمبی تمہید باندھنے کی وجہ اِسی کومبینیشن میں بنا فلم ارمان کا گانا ”کوکو کورینا“، تقریباً 6 دہائیوں سے سنے جانے والا ایک سدا بہار نغمہ، اِتنا مقبول کے بچے بچے کو ازبر ہے۔ جس کا گزشتہ دنوں کوک اسٹوڈیو نے ری میک بنایا۔ جسے کَور سونگ کہا جاتا ہے۔ جس کا مقصد پرانے گانے کو نئے طرز اور ڈھنگ سے گایا جائے تاکہ گانا نئے سِرے سے سنا اور پسند کیا جائے۔

کوکو کورینا کو مومنہ مستحسن اور احد رضا میر نے اپنے انداز میں گایا۔ یاد رہے احد رضا میر بحیثیت اداکار اپنا لوہا منوا چکے ہیں اور بیشک وہ ایک بہترین اداکار ہیں۔ ساتھ ہی مومنہ بھی ”آفرین آفرین“ گانے کے بعد راتوں رات روشن ستارا بن گئیں، لیکن اِس بار مداحوں کو متاثر کرنے میں ناکام رہے۔ جب سے یہ گانا ریلیز ہوا شدید تنقید کی زد میں ہے۔ ناقدین اور انٹرنیٹ کی ظالم دنیا نے اِس گانے پر مومنہ اور احد کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اِس حوالے سے سوشل میڈیا پر مزاحیہ پیروڈی اور میمز کی دھوم ہے۔ حتیٰ کہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیری مزاری نے بھی لب کُشائی کرتے ہوئے بذریعہ ٹوئیٹر اِس کو انتہائی برا گانا قرار دیا۔

عادل مراد (وحید مراد کے صاحبزادے ) نے اپنے فیس بُک اکاؤنٹ سے اِس گانے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے تضحیک کا نشانہ بنایا۔ ساتھ ندامت کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ اب میں آئندہ شاید کوک اسٹوڈیو نا دیکھوں۔ 80 کی دہائی کے سب سے کامیاب سنگر زوہیب حسن نے بھی کوک اسٹوڈیو 11 کو مایوس کُن قرار دیا۔

پرانی یادوں کو تازہ کیا جائے تو اِسی گیت کو ماضی میں عالمگیر نے احسن انداز میں گایا کہ سننے والے کو لُطف آئے۔ اِسی پیپی سونگ کو کچھ سال قبل جیو کے ایک پروگرام میں عمدہ طریقے سے ری ارینج کیا گیا۔ جس میں علی حیدر، احمد جہانزیب اور امانت علی نے آواز کا کمال جادو جگایا۔ (اس کی ریکارڈنگ یو ٹیوب پہ دیکھی جاسکتی ہے )

واضح رہے کوک اسٹودیو پاکستان کا آغاز 2008 میں ہوا، اُس وقت پاکستان میوزک انڈسٹری بحران کا شکار تھی۔ دہشت گردی کے خوف سے پاکستان میں میوزک اور کونسرٹ نہیں تھے۔ میوزک چینلز پر بھارتی گانوں کا راج تھا۔ پائریسی کی وجہ سے بھی میوزک اور سنگرز کو نقصان پہنچ رہا تھا۔ پھر روحیل حیات بطور نے پروڈیوسر کوک اسٹوڈیو کا آغاز شاندار انداز میں کیا، بعد ازاں میوزک انڈسٹری بحال ہونا شروع ہوئی اور ماضی کے کئی گیت پہلے سے زیادہ مقبول، دیکھے اور سنے گئے۔ اور آج یہ پروگرام بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں زیادہ مقبول ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ واقعتہً کچھ گانے دوبارہ سن کر اچھا لگا۔ ملکہ ترنم نور جہاں کی گائی نظم ”مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نا مانگ“ ایک مؤثر کاوش ٹھہری۔ میڈم کے گائے گیت گانا آسان نہیں جسے حمیرا چنا اور نبیل شوکت نے گا کر انصاف کیا۔ ساتھ ہی بے وجہ (نبیل) من آما دیہم ( عاطف اسلم، گُل پنرا) نوازش کرم (عاصم، مومنہ) آفرین ( راحت فتح علی، مومنہ) اور تاجدار حرم (عاطف) نسبتاً بہتر کوشش کرتے ہوئے پُر اثر انداز میں پیش کیے گئے۔ جسے شائقین کی طرف سے خاصی پذیرائی ملی۔

اِس موضوع پہ قلم اُٹھانے کا مقصد صرف یہ گانا (کوکو کورینا) نہیں، چوں کہ یہ کوئی پہلا تجربہ نہیں اِس سے قبل بھی کوک اسٹوڈیو میں شامل کئی نغموں اور ترانے کا حشر نشر کیا گیا ہے۔ ماضی میں بینڈ ای پی جس کے لیڈنگ سنگر فواد خان نے کوک اسٹوڈیو سیزن 3 میں سجاد علی کا ”بولو بولو“ اور علی ظفر نے سلیم رضا کا گایا کلاسیک گیت ”جانِ بہاراں“ اِس سے سے بھی بھونڈے انداز میں گائے، جو بظاہر اُن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے گائے گئے تھے۔

بلا شبہ علی سیٹھی ایک با صلاحیت سیکھے ہوئے فنکار ہیں، مگر شہنشاہِ غزل مہدی حسن کی گائی ”رنجش ہی سہی“ جیسی دل پہ اثر کر دینے والی غزل کو صحیح نا نبھا پائے اور کچھ ایسی جگہ لیں جو نا مناسب لگیں، کیونکہ ایسی لازوال غزلیں اور گیت جو لوگوں پہ گہرے اثر چھوڑ چکے ہوں، اُن میں ترمیم کرنا کافی مہنگا پڑ سکتا ہے۔ سُروں کے دلدادہ گائیکی کے اِس معیار سے مطمئن نہیں دکھے۔ اور سب سے بڑھ کر فیض احمد فیض کی باغیانہ نظم ”ہم دیکھیں گے“ کا کیسے بیڑا غرق کا گیا۔

یہ اُس وقت کی بات ہے جب ضیاء الحق کی نادر شاہی اور قدامت پسندی کا راج تھا اور جمہوریت دم توڑ رہی تھی۔ وہاں فیض کا یہ لہو گرما دینے والا ایسا انقلابی کلام اور اقبال بانو کی پُر ترنم آواز جسے سن کر لوگوں پر ایک سحر طاری ہو گیا تھا۔ اِس سے جُڑی یادیں لوگوں کے دلوں میں آج بھی نقش ہیں۔ جس کو بے دردی سے نئی نسل کے بے سُرے ابتر اور تیسرے درجے کے گلوکاروں نے مل کر برباد کر دیا۔ یہ نظم اُن لوگوں نے مل کر گائی جن کو شین قاف کا بھی علم نہیں۔ فیض کا کلام سننا اور سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں شاید اس لیے تب اتنا چرچا نہیں ہوا جتنا کوکو کورینا پر ہوا۔

دراصل نئی نسل کے اکثر پرچی گلوکار موسیقی کی بنیادی تعلیم اور اسرار و رموز سے نا آشنا، خداداد صلاحیت سے محروم ہیں۔ کچھ منجھے ہوئے گائیک اب بھی میوزک سیکھ کر آ رہے ہے۔
بے شک نئی نسل نئے گانوں کو پسند کرتی ہے اور پرانے لوگ اِس تبدیلی پر تاسف کا اظہار کرتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے موسیقی کا عروج دیکھا ہے، دل کو چھو لینے والی موسیقی با معنی شاعری اور بہترین آواز سنی۔ ادائیگی اور تلفظ میں اُن کلا کاروں کا کا کوئی ثانی نا تھا۔ اس لیے اُن کے گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہے۔ لیکن حالیہ دور میں ایسی آواز اور میوزک جو طبیعت پہ گراں گزرے ”شور“ ہی کہلائی جا سکتی ہے۔

کوک اسٹوڈیو کے کرتا دھرتا با اختیار لوگ اگر اپنے سیزنز کو آگے کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں ہے تو انہیں چاہیے کہ بڑے لوگوں کے لافانی کلام پہ غور و فکر کے بعد ہاتھ ڈالیں۔ کلام چاہے اقبال کا ہو یا فیض، اِس کے پڑھنے گانے کے کچھ آداب ہیں، اُس کو پامال نا کیا جائے۔ اپنی مرضی سے سے کسی نظم کا حصہ منتخب کرنا باقی حذف کر دینا سراسر غیر موزوں ہے، کیونکہ کلام ایک لڑی میں پِرویا گیا وزن رکھتا ہے یا شعر کی صورت میں مرتب کیا جاتا ہے، ایک با ضابطہ ترتیب، اُس کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں اس لیے سیاق و سباق کا لحاظ کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔

کیونکہ اِن چیزوں میں زیر زبر کی غلطی بھی قبول نہیں کی جا سکتی۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈم نور جہاں، نصرت فتح علی خان، مہدی حسن اور دیگر بڑے استادوں کے گانوں کا ری میک جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اُن کی سالوں کی ریاضت کا کچھ خیال کریں۔ (جس کو با آسانی اٹھا کے تیا پانچا ایک کر دیا جاتا ہے ) اور ہاں اردو گانے گاتے وقت لہجہ اور تلفظ اردو ہی رکھیں جب غلط تلفظ کے ساتھ اردو بولی جاتی ہے، تو ہم اہلِ زبان کو بڑی تکلیف پہنچتی ہے، ایسے گانوں کو مکمل تیاری کے بعد ہی تشکیل دیں۔ ورنہ احتراز فرمائیں اور آپ شوق سے انگریزی گانے ہی گائیں بجائیں۔

ایک آخری بات جو ہمیں کَھلتی ہے وہ یہ کہ پاکستان میں بہت فن چھپا ہے تو اُس کو دریافت کریں محض خوبصورتی اور مقبولیت کی بنا پر فنکار کو نا اُٹھائیں، ”فلاں کا بھائی، فلاں کا بیٹا، فلاں کا بیٹی“ کو پلیٹ فارم دینے کے بجائے اُن نئے لوگوں کو موقع دیں جن کے پاس آپ تک پہنچنے کی رسائی نہیں۔ ”ساؤنڈ آف نیشن“ سلوگن کے تحت (منظورِ نظری اور اقربا پروری کو پروان چڑھانے کے بجائے ) قومی ٹیلنٹ کو موقع فراہم کریں۔ اُمید کرتے ہیں کے اِس کے بعد ہمیں پھر کچھ معیاری موسیقی سننے کو ملے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).