کیا تبادلوں پر فواد چوہدری کا بیان واقعی ذاتی ایجنڈے کا شاخسانہ ہے؟


غیر قانونی اور تجاوزات پر مبنی تعمیرات کے خلاف پی ٹی آئی کا ایکشن خوش آئند ہے مگر اس کی لپیٹ میں جہاں بہت سے مجبور اور پہلے سے پسے ہوئے طبقے آ رہے ہیں اور بہت سی بڑی بڑی غیر قانونی تعمیرات و تجاوزات کو چھوٹ مل رہی ہے وہیں کچھ لوگ ذاتی اختلافات کی وجہ سے اس ایکشن کا نشانہ بن رہے ہیں اور سیاسی انتقام کے لئے بھی اسے ہتھیار بنایا جا رہا ہے۔ جس میں سے کچھ کی نشاندھی ایک سابقہ مضمون میں I object my lord میں (میری وال پر موجود ہے ) کی تھی۔

یہاں عرض کر دوں کہ میری کسی سے نہ تو کوئی ذاتی دشمنی ہے اور نہ ہی عناد۔ اور لگنا میرا پیشہ بھی نہیں ہے اس لئے جو حق اور سچ ہوتا ہے وہ لکھتی ہوں۔ انسان ہوں کبھی غلط فہمی ہو سکتی ہے مگر ارادے سے کبھی جھوٹ لکھا ہے نہ رپورٹ کیا ہے۔

تو خبر یہ ہے کہ فواد چوہدری صاحب وزیر اطلاعات جو آج چیخ چیخ کے بیان دے رہے ہیں کہ اگر ہم ایک افسر بھی تبدیل نہیں کر سکتے اور ملک بیورو کریسی نے چلانا ہے تو پھر الیکشن ہی نہ کرواتے؟ اس میں بیک وقت جہاں انھوں نے الیکشن کے حوالے سے پے در پے لگنے والے الزامات کی جانے انجانے تائید کردی ہے وہیں انھوں نے اس طرف بھی اشارہ دے دیا ہے کہ وہ کن کندھوں پر سوار ہو کر آئے ہیں۔ اور حقیقی حکمران کون ہیں۔ سوال یہ ہے کہ فواد چوہدری صاحب آخر کس کو مخاطب کر کے یہ سب کہہ رہے تھے۔ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ چوہدری صاحب کیا واقعی آئی جی اسلام آباد کا تبادلہ رکنے پر سیخ پا ہیں یا اندرونی کہانی کوئی اور ہے؟

میری اطلاع کے مطابق جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اس بیان کے پیچھے کی کہانی کچھ تعمیرات کو لے کر کچھ بیوروکریٹس کے تبادلے بھی ہیں۔ کیونکہ فواد چوہدری صاحب سیاسی رنجشوں کی بنیاد پر کچھ حریفوں کی تعمیرات گروانا چاہتے تھے جس پر متعلقہ سرکاری حلقوں کی جانب سے انکار کیا گیا جس کی بناء پر چوہدری صاحب بیورو کریسی پر اس قدر سیخ پا ہیں۔ اور شومئی قسمت آئی جی اسلام آباد جان محمد صاحب کے تبادلے اور پھر آرڈر کینسل ہونے پر ان کو بھڑاس نکالنے کا موقع بھی مل گیا۔ لہذا انھوں نے بغیر سوچے سمجھے بیان داغ دیا۔ یہ بھی نہ سوچا کہ اب وہ کوئی اپوزیشن کے سیاسی لیڈر نہیں بلکہ وفاق کے وزیر اطلاعات ہیں اور ان کے اس بیان سے نہ صرف ملک میں سیاسی و اقتصادی حالات (جو پہلے ہی دگرگوں ہے ) اورنئی نویلی حکومت کے لئے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوں گی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی خارجہ پالیسی سے لے کر سرمایہ کاری تک ایک منفی تاثر جائے گا۔ خیر یہ بات میرا نہ تو موضوع ہے اور شاید نہ ہی فواد چوہدری صاحب کا سر درد۔

اس حوالے سے جب میں نے ایک پی ٹی آئی راہنما سے سوال کہا کہ پی ٹی آئی قیادت کی طرف سے مسلسل ملک کے اندر و باہر غیر سنجیدہ بیانات ملکی ساکھ پر برے اثرات ڈال رہے ہیں تو کیا وہ سمجھتے نہیں کہ پی ٹی آئی لیڈرشپ کو سیاسی تربیت کی ضرورت ہے۔ اس پر وہ ہنسے اور بولے کہ زیادہ تو میں کچھ نہیں کہتا مگر جہاں تک بات فواد چوہدری صاحب کی ہے تو ان کو حکومت کے رہنے یا نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ انھوں نے تو جھٹ سے پارٹی بدل لینی ہے۔ بھگتان تو ہمیں بھگتنا پڑے گا ان کے بیانات اور ان کے کاموں کا۔

اور حالیہ بیان کے حوالے سے خبر یہ بھی ہے کہ فواد چوہدری صاحب تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم میں واقع دو پٹرول پمپس جو کہ پی ایم ایل این کے سابقہ ایم پی اے راجہ اویس کی ملکیت ہیں ان کو سیاسی رنجش کی بنیاد پر گرانا چاہتے تھے۔ مگر متعلقی ڈی سی خالد ٹیپو اور اے سی طارق بسرا دونوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ دونوں پٹرول پمپس نہ تو غیر قانونی ہیں اور نہ ہی تجاوزات پر مبنی۔ اس پر چوہدری صاحب نے فی الفور دونوں افسران کا تبادلہ کروا دیا ہے جن کی نئی پوسٹنگ کے آرڈر شاید کل تک آ جائیں۔ اور ان کا حالیہ بیان بھی اسی غصہ کا نتیجہ ہے۔

ان افسران میں سے اے سی سوہاوہ جن کا نام طارق علی بسرا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی فرض شناس، دلیر اور نیک نام افسر ہیں اور اس کا ثبوت انھوں نے چوہدری صاحب کا حکم نا مان کر دے بھی دیا ہے ان کے نئی پوسٹنگ آرڈر کل شاید راولپنڈی کے لیے آ جائیں۔

تو اب کہنے کہ بات یہ ہے کہ فواد چوہدری صاحب اور ان جیسے باقی لیڈر جو پی ٹی آئی میں شوں کر کے آئے ہیں یہ مشکل کے وقت شاں شاں کرتے چلے بھی جائیں گے۔ ان کے کارناموں کے نتائیج کو بھگتنا پی ٹی آئی کو ہے یا اس ملک کو۔ لہذا ضرورے اس امر کی ہے کہ اول تو بیان بازی میں جوش اور جلد بازی (جو کہ پی ٹی آئی کا وطیرہ ہے ) کے بجائے حوش اور سیاسی سوجھ بوجھ و ذمہ داری سے کام لیا جائے۔ تمام لیڈر شپ کو ان کے بیانات کے لیے پارٹی قیادت کے سامنے جواب رکھا جائے۔ مبادا کہ کوئی بھی کہیں بھی بیان جھاڑ دے۔

دوسری طرف پی ٹی آئی جو کہ تبدیلی کے بلند و بانگ دعووں کے ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ آئی ہے وہ یہ بات پلے باندھ لے کہ اس کو عوام کی طرف سے پرکھا بھی اس کے دعووں اور وعدوں کی کسوٹی پر جائے گا نہ کہ سابقہ حکومتوں کے کاموں اور ان کی کوتاہیوں کے ساتھ موازنہ کر کے۔ کیونکہ سابقہ حکومتوں میں سے کوئی بھی تبدیلی کی دعویدار نہیں تھی۔ لہذا پی ٹی آئی قیادت کو دیکھنا ہو گا کہ ان کے تبدیلی پروگرام کی آڑ میں کوئی اپنا الو تو سیدھا نہیں کر رہا اور کسی غریب کا چولہا تو نہیں بند ہو رہا اور کیا کسی کو تبدیلی نیٹ سے ماورا تو نہیں جا رہا۔ کیونکہ توقعات اور امیدیں جتنی شدید ہوں ان میں معمولی سی بھی کوتاہی کا ردعمل اتنا ہی شدید ہوتا ہے۔ اور لوگوں کی توقعات اور پی ٹی آئی کے وعدے اور ان پر عوام کا یقین ہی اس کی اصل اپوزیشن ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).