یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟


ثریا کے گھر جائیے تو دور سے ہی تیز آوازیں آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ بچوں پہ چیخنا چلانا انھیں ڈانٹنے کی آوازیں گلی کے کونے سے ہی سنائی دینے لگتی ہیں۔ پہلے تو صرف ثریا کی والدہ ہی اپنے بچوں کو ڈانٹا کرتی تھیں لیکن ان کے بچے بڑے ہوئے شادی شدہ ہوئے اور بھابیاں گھر میں آئیں تو اب ان کی ڈانٹ کا مر کز پوتا پوتی تھے اور ان کی آواز میں اب ان کی بہوٶں کی آوازیں بھی شامل تھیں اگرچہ یہ کوئی اتنی خاص بات تو نہیں، ڈانٹ ڈپٹ تو ہر گھر کا معمول ہے جہاں بچّے ہوں بلکہ بڑے بوڑھے تو یہ کہا کرتے تھے کہ گونگی سے گونگی عورت کو بھی بچے بولنا سکھا دیتے ہیں۔

شاید یہ ہی وجہ ہو کہ شادی سے پہلے جن عورتوں کی آواز بھی کسی نے شاذ ہی سنی ہوتی ہے ایک بچے کے بعد ہی پورے محلے میں ان کی آواز گونجنے لگ جاتی ہے اگر کسی بھی والدین سے یہ پوچھا جائے کہ وہ بچوں پہ اتنا چلاتے کیوں ہیں تو ان کا جواب یہ ہوگا کہ وہ تنگ ہی اتنا کرتے ہیں کہ ڈانٹ سنے بغیر سدھر نہیں سکتے۔ شاید ان کا کہنا درست ہو لیکن کیا کبھی کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ جب بچوں کے ساتھ شروع سے اتنی چیخ پکار کی جائے تو اس چیخنے چلانے کے ان کی شخصیت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

بچے کی شخصیت کا خاکہ زیادہ تر اس کی جینز کے مرتب کردہ خطوط و نکات کے مطابق ہوتا ہے اگرچہ یہ بات سو فی صد لازمی بھی نہیں۔ لیکن زیادہ تر ہوتا ایسا ہی ہے پھر اس خاکے میں وقت کے ساتھ ساتھ مختلف رنگ جو بھرے جاتے ہیں۔ وہ تربیت، ماحول اور تعلیم کے مو 6 قلم سے ہوتے ہیں۔ انسان کی شخصیت کی نمایاں خصوصیات میں اس کے ابتدائی ماحول کا اثر بہت گہرا ہوتا ہے۔

چیخ کے بات کرنا شخصیت کا کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کرتا۔ ایسے افراد کے ووکل کارڈ خراب ہوجاتے ہیں اور آواز بھدی ہوجاتی ہے سامنے والا ان کی بات پہ غور کیے بغیر ان کے لہجے سے ہی خوفزدہ ہوجاتا ہے نہ اپنی کہہ پاتا ہے نہ ان کی سمجھ سکتا ہے۔

جو لوگ ہر وقت اپنے بچوں سے ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں۔ وہ یہ بات نہیں۔ جانتے کہ اس طرح وہ بچے کی شخصیت کی فطری ملائمت ختم کر کے اس میں غیر محسوس انداز سے جارحیت بھر رہے ہیں۔ یوں بچہ اوائل عمری سے ہی جارح مزاج اور متشددفطرت کا حامل ہوجاتا ہے نتیجتاً بڑے ہونے کے بعد وہ اپنی ہی بات کو درست سمجھنے اور دوسروں سے منوانے پر انتہائی شدید انداز میں مصر ہوتے ہیں۔ اب آپ ہی سوچیے اگر ہر طرف ”مستند ہے میرا فرمایا ہوا“ قسم کے لوگ ہوں تو معاشرے کا مجموعی ماحول کیسا ہوگا؟ ظاہر ہے بہت تناٶ سے بھرپور جہاں سکون تو دور دور تک نہیں۔ ہوگا البتہ مختلف قسم کی اعصابی اور ذہنی بیماریاں ضرور ڈیرے ڈالے ہوئے ہوں گی۔

ہمارے دین کی تعلیمات بھی خوش خلقی اور ملائمت سے بات کرنے کی تلقین کرتی ہیں۔ قرآن پاک میں کہیں۔ لوگوں سے اچھی طرح بات کرنے کی ہدایت ہے کہیں۔ آواز کو پست رکھنے کی اور کہیں۔ اونچی آواز سے بات کرنے سے روکنے کے لیے ایسی آوازوں کو گدھے کی آواز کی مثال بیان کر کے سمجھایا گیا۔

نبی کریمﷺ کی زندگی ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہے وہ نہ تو خود درشت لہجے میں بات کرتے تھے نہ اسے پسند کرتے تھے بچوں پہ انﷺ کی شفقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ ہم ہر بات میں دین کی بات کرتے ہیں۔ تو اس باب میں دین کو کیوں فراموش کردیتے ہیں۔ شاید لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ کرخت لہجہ اور تیز آواز کے باعث وہ دوسروں پر حاوی ہوسکتے ہیں۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ ہے۔

یہ سب سے پہلے والدین پھر اساتذہ کی ذمہ داری ہے وہ بچوں سے مدھم آواز اورملائم لہجے میں بات کرنے کیا کریں تاکہ بچے بھی وہ ہی انداز اپنائیں نرم لہجہ اور شیریں بیانی ایک اچھی شخصیت ہونے کی نشانی ہے اور ملائم الفاظ بعض اوقات وہ کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔ جو سختی اور تشدد کے ذریعے ناممکن ہے کیوں کہ مثل مشہور ہے
”زبان شیرین ملک گیری“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).