آسیہ بی بی کیس کی اصل کہانی اور اعتراضات: خصوصی تحریر


مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی سپریم کورٹ سے رہائی پر پاکستان بھر میں ”نامعقولیت“ کی وبا پھوٹ پڑی ہے اورعقل و خرد کو ہڑپ کرتی چلی جاتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس ادھیڑ عمر خاتون کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جاتا تو پیغمبر اسلام کی حرمت و تقدیس کئی گنا بڑھ جاتی۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے روایات سے ہٹ کر یہ فیصلہ انگریزی کے بجائے اردو زبان میں تحریر کیا اور بنیادی فیصلہ جو 33 صفحات پر مشتمل ہے اس میں سے 13 صفحات قرآنی آیات و احادیث کے لئے وقف کیے تاکہ اہل ایمان کے جذباتی اشتعال سے محفوظ رہا جا سکے مگر جو ناطقہ سربگریباں ہو اسے کیا کہئے۔

اس فیصلے پر کوئی بھی بات کرنے کی کوشش کی جائے تو پہلا طعنہ یہ دیا جاتا ہے کہ تم کیسے مسلمان ہو؟ اس سے بڑھ کر بے غیرتی اور بے شرمی کیا ہو سکتی ہے کہ توہین رسالت کے مرتکب کسی شخص کی وکالت کی جائے؟ حضور! جان کی امان پاؤں تو عرض کروں، پہلے یہ تو معلوم کرلیں کہ توہین رسالت کا الزام سچا ہے یا جھوٹا؟ اگر جذبہ ایمانی کا تقاضہ یہی ہے کہ اس الزام کی زد میں آنے والا ہر شخص گردن زدنی ہے تو پھر تکلف برطرف، سب کو سب سے خطرہ ہوگا، سب بیک وقت عاشقانِ رسول ﷺبھی ہوں گے اور گستاخان رسول بھی، زندگی کا انحصار محض اس بات پر ہو گا کہ وار کرنے کا موقع کسے پہلے ملتا ہے۔ اور پھر ہمارے ہاں تو معمولی نوعیت کی تکرار پر توہین کے جھوٹے الزامات عائد کرنے کی ایک تاریخ ہے۔ اس ضمن میں کئی واقعات پیش کیے جا سکتے ہیں اور ایک حوالہ تو سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں بھی موجود ہے کہ ایوب مسیح جسے 295۔c کے مقدمہ میں ماتحت عدلیہ نے سزائے موت سنا دی، جب اس کی اپیل پر سماعت ہوئی تو معلوم ہوا کہ شکایت کنندہ محمد اکرم نے اس کے پلاٹ پر قبضہ کرنے کے لئے یہ گھٹیا الزام لگایا۔

اس اعتراض کا جواب مکمل ہونے سے پہلے ہی دوسرا سوال داغ دیا جاتا ہے، اگر اس ملعونہ کو بھی سزا نہیں ہوگی جس نے ہائیکورٹ کے سامنے اقبال جرم کیا تو پھر ممتاز قادری جیسے لوگ کیوں نہ پیدا ہوں؟ اب ان اہل ایمان کو کون کیسے سمجھائے اور کیا بتائے کہ ”جب کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو“ والی آیت تمہارے لئے ہی اتاری گئی تھی۔ اقبالی بیان کی حقیقت یہ ہے کہ قاری محمد سلام نے جو ایف آئی آر درج کروائی اس میں دعویٰ کیا کہ چند روز قبل پنچایت ہوئی جس میں آسیہ بی بی نے اقبال جرم کیا لہٰذا اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس اقبال جرم کی حقیقت کیا ہے اس طرف بعد میں آتے ہیں پہلے تو وہ دروغ گو اپنی تصیح کرلیں جو اس اقبالی بیان کو ہائیکورٹ سے منسوب کر رہے ہیں۔ اگر ایسا کوئی اقبالی بیان ہے بھی تو وہ ماورائے عدالت بیان ہے جو زبردستی لیا گیا اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ آسیہ بی بی نے آج تک کسی عدالت کے سامنے یہ اعتراف نہیں کیا کہ اس نے پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی ہے۔

یہ دو کارتوس ضائع ہونے کے بعد تیسری گولی بہت سوچ سمجھ کر چلائی جاتی ہے اور اہل ایمان فرماتے ہیں، اتنے برس آسیہ بی بی مجرم تھی، ایک عدالت نے سزا دی، دوسری نے فیصلہ برقرار رکھا تو اب سپریم کورٹ اسے کیسے رہا کر سکتی ہے؟ دست بستہ گزارش یہ ہے جناب کہ سپریم کورٹ میں ماتحت عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف دائر کی گئی اپیلوں پر بلاناغہ فیصلے ہوتے ہیں، سزائے موت کے قیدی چھوٹ جاتے ہیں، باعزت بری ہونے والوں کو سزائیں ہو جاتی ہیں کیونکہ نئے حقائق سامنے آتے ہیں، اعلیٰ عدلیہ ان پہلوؤں کا جائزہ لیتی ہے جو کسی دباؤ کے پیش نظر ماتحت عدلیہ سے مخفی رہ جاتے ہیں، اس میں اچنبھے کی بات کیا ہے؟

آپ آدھا گھنٹہ نکال کر خود یہ فیصلہ پڑھ لیں تو اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ آسیہ بی بی کو رہا کرنے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں تھی۔ 14 جون 2009 ء کو ننکانہ صاحب کے ایک گاؤں میں چند خواتین فالسے چُن رہی ہیں۔ ان میں ایک مسیحی خاتون آسیہ نورین پانی پینے جاتی ہے تو دو مسلمان لڑکیوں معافیہ اور آسماء کے لئے بھی پانی لے آتی ہے لیکن وہ یہ کہتے ہوئے پانی پینے سے انکار کر دیتی ہیں کہ تم عیسائی ہو، ہم تمہارے ہاتھ سے پانی نہیں پی سکتیں۔ اس بات پر تکرار ہوتی ہے۔ معافیہ اوراسما قاری محمد سلام کی بیوی سے قرآن پاک پڑھتی رہی ہیں، وہ اسے بتاتی ہیں، بات قاری صاحب تک پہنچتی ہے اور پھر ایف آئی آر درج ہو جاتی ہے۔ اس ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ چند روز قبل ایک پنچایت ہوئی جس میں آسیہ بی بی نے اپنے گستاخانہ کلمات کا اعتراف کیا لہٰذا اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ مقدمہ چلتا ہے تو استغاثہ کی جانب سے 7 گواہ پیش کیے جاتے ہیں۔ 2 گواہ اپنے بیان سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ باقی پانچ کے بیانات میں تضاد ہے۔ پنچایت کہاں ہوئی؟ اس سوال پر معافیہ بتاتی ہے کہ پنچایت اس کے والد کے گھر پر ہوئی۔ اس کی سگی بہن اسما ء جو دوسری گواہ ہے وہ کہتی ہے پنچایت پڑوسی رانا رزاق کے گھر پر ہوئی، تیسری گواہ بتاتی ہے کہ پنچایت مختار احمد کے گھر پر ہوئی جبکہ چوتھا گواہ دعویٰ کرتا ہے کہ پنچایت حاجی علی احمد کے گھر پر ہوئی۔ اس پنچایت میں کتنے افراد شریک تھے، ایک گواہ کہتا ہے 100 لوگ تھے، دوسرا گواہ کہتا ہے 200 سے 250، تیسرا گواہ کہتا ہے 1000 جبکہ چوتھا گواہ بتاتا ہے کہ 2000 لوگ تھے۔ اسی طرح جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ آسیہ بی بی کو کون لایا تھا اور وہ پنچایت میں کیسے آئی تو اس پر پھر متضاد جواب آتے ہیں۔ اب ایسے متضاد بیانات پر عدالت کسی کو کیسے مجرم ٹھہرا سکتی ہے؟

برطانوی نژاد امریکی فلاسفر تھامس پین نے کہا تھا، نوع انسانی نے جتنے مظالم سہے ان میں سے مذہبی استبداد بدترین ہے۔ شاید ہم استبداد کے اسی دور میں زندہ ہیں۔

(کالم نگار پاکستان کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے ”جنگ“ سے وابستہ ہیں مگر یہ تحریر بالخصوص ”ہم سب“ کے لئے لکھی گئی ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد بلال غوری

بشکریہ روز نامہ جنگ

muhammad-bilal-ghauri has 14 posts and counting.See all posts by muhammad-bilal-ghauri