آسیہ گنہگار ہے تو معافی کیسی اور معصوم ہے تو سزا کیوں؟


آسیہ مسیح کو کورٹ نے بری کر دیا۔ اگر وہ بے گناہ تھی تو یہ بہت ہی جی دار فیصلہ ہے اور میں اس کی تائید کرتی ہوں۔ آواز یہ بھی اٹھی ہے کہ اگر آسیہ کو چھوڑنا ہی تھا تو پھر اس کی معافی والی درخواست قبول کرتے بری کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ کیونکہ معاف کرنے سے اسلام کا اور ہمارا سافٹ امیج بن جاتا۔ تو بات یہ ہے کہ یہ سننے میں ہی کافی مضحکہ خیز لگتا ہے کہ اس بات کا تعین کیے بغیر کہ بندہ بے گناہ ہے یا گناہگار اس کو معاف کر دیا جائے۔

ایسا نہیں ہو تا۔ معافی دینے کے لئے بندے کا گناہگار ہونا ضروری ہے اور عدالت کا یہ تسلی کرنا بھی ضروری ہے کہ جرم تو ہوا ہے مگر انسانی ہمدردی کی بناں پر معاف کیا جانا چاہیے۔ لیکن اگر یہ تعین کرتے ہوئے یہ بات ثابت ہو جائے کہ بندا بے گناہ ہے تو پھر معافی کاہے کی؟ پھر تو بری ہی ہونا چاہیے ناں کہ ہم اپنی سیاست اور امیج بنانے کے لئے قانون کو پس پشت ڈالیں۔ ۔ لہذا اگر آسیہ بے گناہ تھی یا پھر اس کے جرم کی یہاں سزا موجود ہے تو پہلے اس پیمانے پر کیوں نہ پرکھیں۔

یہ اپنا امیج بنانے کے لئے ہم اسلامی سزاؤں میں بھی نظریہ ضرورت کیوں گھسیٹ رہے ہیں۔ وہ بے گناہ ہے تو اس کو بری ہی ہونی چاہیے تھا۔ اور اگر وہ گناہ گار ہے تو پھر اس کو ثابت کریں۔ معافی کی بات تو تب آئے گی ناں جب ثابت کریں کہ جرم ہوا ہے۔ اور اگر ہم اسی طرح امیج بچانے کے لئے ان لوگوں کو چھپاتے رہے جو توہین رسالت کو اپنے ذاتی ایجنڈوں کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں اور کرتے ہیں تو یقین کریں میرا پیارے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم روز قیامت ہم سے حساب ضرور لیں گے کہ ان کی ذات اقدس پر ہم نے بہتان کیوں باندھے۔

لہذا ضروری ہے کہ ایسے تمام کیسز کے فیصلے ہوں اور گناہگاروں کو سزا ہو اور بے گناہ بری ہوں۔ تا کہ جو جھوٹے بہتان لگاتے ہیں ان کی بیخ کنی ہو۔ ہمارا سافٹ امیج تو وہ خراب کرتے ہیں جو جھوٹے الزام لگاتے ہیں۔ جس کو مروانا ہوا اس پر یہ الزام لگا دو۔ اور اگر ہم اس بات کو معافیاں دے کر چھپائیں گے تو یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔ لہذا لازم ہے کہ فیصلے ہوں۔

اور جو لوگ آسیہ بی بی کے اعترافی بیان کا حوالہ دیتے ہیں وہ آسیہ بی بی کے پولیس سٹیشن میں دیے جانے والے پہلے بیان کو بھی نظر میں رکھیں جس میں اس نے لاتیں اور گھونسے کھانے کے بعد زخمی حالت میں کہا تھا

”میں نے کسی مذہب یا مذہبی شخصیت کی توہین نہیں کی مجھ پر مسلمانوں کے گھڑے سے پانی پینے کے الزام میں لوگوں نے لاتیں اور گھونسے مارے میرے مذہب اور میرے عقیدے کو گالیاں دیں پاوں تلے بائیبل کو روندا اسمیں مولوی صاحب کا وہ بیٹا اور دیگر وہ مومنین بھی پیش پیش تھے جو میرے آتے جاتے رقعے پھینکتے اور تنہائی میں وقت مانگتے تھے جن کو میں یہ سب کچھ پیش نہیں کرسکتی تھی۔ “

تو کیا ان سب سے اس پہلو پر بھی تفتیش نہیں ہونی چاہیے تھی؟
کیا ہمیں نہیں پتا کہ یہاں نا پسندیدہ اور ہماری منہ زور خواہشات کو انکار کرنے والی عورت کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے اور اس کی روح اور کردار کی دھجیاں کیسے بکھیری جاتی ہیں؟
کبھی اسے کاری کہہ کر مروا دیا جاتا ہے تو کبھی آوارہ۔

اور کیا ہمیں نہیں پتا کہ رٹریکٹڈ کانفیشن کی تھیوری بھی یہاں موجود ہے۔ اور کیا ہمیں نہیں پتا کہ کانفیشن کیسے ہوتے؟ اور کیا ہمیں نہیں پتا کہ کانفیشن کی سکروٹنی عدالت بھی کرتی ہے کہ آیا وہ وہ رضاکارانہ طور پر اور بغیر کسی قسم کے دباؤ یا لالچ کے دیا گیا ہے کہ نہیں۔ اور عدالت اس کو رد بھی کر سکتی ہے۔

اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ (استغفرُللہ) اس نے گھونسے اور لاتیں کھاتے کوئی گستاخانہ کلمات کہہ دے ہوں۔ خاص طور پر جب اس کے مذہب کو بھی گالی دی جا رہی ہو۔ تو کیا ہم وہ آیت بھول گئے کہ لوگوں کے جھوٹے خداؤں کو بھی برا بھلا مت کہو بدلے میں وہ تمہارے سچے رب کو بھی یہی سب کہیں گے۔ اور وہ تو اہل کتاب ہے۔ اس کے رب کو بھی ہم مانتے ہیں اور رسول کو بھی۔ تو گالی کیسے دے سکتے ہیں۔

اس کو چھوڑیں بالفرض اگر (میرے منہ میں خاک) آسیہ نے گستاخی کی بھی تھی تو مجھے بتائیں کہ جو سلوک اس کے ساتھ ہوا اور جو ہو رہا ہے کیا حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں یہ واقع ہوتا تو وہ کیا کرتے؟ کیا وہ بھی یہی کرتے ے جو اب ہم کر رہے ہیں؟
کیا وہ مبارک لوگ بھی جلاؤ گھیراؤ، افراد تفری اور سڑکیں بلاک کرواتے؟ اور معاذاللہ انسانیت کی تکلیفیں بڑھانے کا سبب کرتے؟ (میرے منہ میں خاک)

آج صبح سے پورے ملک میں عمومی طور پر اور پنجاب میں خصوصی طور پر حشر بپا ہے۔ لاہور میں دفعہ 144 کا نفاز ہے، اسپتالوں میں امیر جنسی ہے۔ مسافر پچھلے آٹھ آٹھ گھنٹے سے سڑکوں پر اور راستوں میں پھسے ہیں۔ مریض سسک سسک کر مر رہے ہیں راستوں میں۔ لوگ باقی ضروریات زندگی تو دور رفع حاجت سے بھی تنگ آئے پڑے گاڑیوں میں۔ ناں گھر جا سکتے ہیں ناں آگے۔ یہ کونسا اسلام بچا رہے ہیں ہم۔

یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ ایک نہتی عورت کے رہائی پر! اور اس کو کسی اور نے نہیں ہماری سب سے بڑی عدالت نے چھوڑا۔ آپ کو اعتراض کا حق ہے مگر ملک بند کرنے کا نہیں۔
ایک عورت کو مروا کر کونسا اسلام بچا رہے ہو؟ میرے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی ذات ان باتوں سے ماورا۔ جس کی ذات عظمتوں اور نبوت کی سچائیوں کو پورے عرب کی دشمنی اور پورا عالم یہود و نصار کی مخالفت نہ جھٹلا سکی اس کی عظمت کو ایک آسیہ بی بی سے خطرہ ہے؟ اور ہم لوگ بچائیں گے اس عظیم ہستی (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم) کی ناموس کو؟

ہم؟ ہم جسمانی و مادی خواہشات کے مارے ہوئے لوگ؟ خدا کہ قسم جو یہ کہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میرے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ناموس کی حفاظت کے لئے ہم جیسوں کی ضرورت ہے وہ بات کو سمجھتا نہیں ہے۔ اور جو اس ذات صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر روئے زمین پر فساد پھیلاتا ہے وہ ظالم ہے۔ یا اس کو میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا پتا ہی نہیں۔
اس رحمت دو عالم کے نام پر لوگوں کو مارتے ہو جو سراپا رحمت، جو سراپا عفو و درگزر۔

اور میں آپ کو ایک بات بتاؤں؟ یہ جو ہم مسلمان ہیں ناں خاص طور پر ہم پاکستانی، ہم یا تو بہت سیدھے ہیں یا پھر پتا نہیں۔ خیر کہنا یہ ہے کہ کسی کی فلاپ شدہ فلم بھی ہٹ کروانی ہو تو بس ہمیں یہ بتا دو کہ اس میں کسی قسم کا توہین والا مواد ہے۔ ہم اس کو اتنا اچھالیں گے، اتنی ہا ہا کار مچائیں گے کہ اگلے کہ مفت کی تہشیر ہو جائے گی۔ اور پوری دنیا اس فلم کو دیکھے گی کہ آخر اس میں ہے کیا۔ بنانے والے کو ہمدردیاں الگ اور پیسہ الگ۔ ہمارے حصے میں کیا آیا؟ متشد لوگ، متعصب لوگ، تنگ ذہن، دہشت گرد، انتہا پسند جیسے کلمات اور کچھ اقتصادی و معاشی نقصانات و پابندیاں۔ بس؟

فیس بک کی کسی پوسٹ سے لے کر وٹس اپ کے لطیفوں تک ہم اللہ کے نام پر شیئر کرتے ہیں۔ جی ہاں ہم جو کسی غریب کو ایک روپیہ دیتے مرنے لگتے ہیں ہزاروں کا بیلنس اور ڈیٹا ایسی پوسٹوں کی تشہیر پہ غرق کرتے ہیں۔

جس کو ہیرو بننا ہو وہ بس ہم مسلمانوں کو چھیڑ دے۔ ہم اس کی اتنی تہشیر کریں گے کہ اس کی دنیا جنت بن جائے گی۔ بدلے میں ہم چاہے اپنوں کی زندگی جہنم بنا دیں۔ جلاؤ گھیراؤ، مار دھاڑ، توڑ پھوڑ، سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچا کے اور لوگوں کو گھروں اور راستوں میں بلاک کر کے۔ اور پوری دنیا میں اپنا مسخ شدہ چہرہ پیش کر کے۔ مگر اگلے کی چاندی کروا دیتے ہیں۔

ابھی آسیہ بی بی کو دیکھ لیں اس کا سارا خاندان باہر چلا گیا۔ اور مزے میں ہے۔ ملالہ یوسف زئی کی زندگی بن گئی۔ اور گیرٹ ولڈرز کو اس کے ملک میں اپوزیشن لیڈر سے ہم نے ورلڈ لیڈر بنا دیا۔ لائن بہت لمبی ہے۔ جس کی کوئی نہیں سنتا تھا ہم نے دنیا کو اس کی سننے پر آمادہ کیا۔ اور بہت سوں کی ڈوبتی نیا پار لگائی۔

احمدیت کو دیکھیں۔ ہم نے پوری دنیا میں اس کو ہاٹ ایشو بنایا اور سپاٹ لائٹ میں لے کر آئے۔ پوائنٹ زیرو ون پرسنٹ بھی نہیں تھے وہ لوگ۔ مگر ہم نے ان کو ناں صرف غیر مسلم ڈکلیر کروایا بلکہ اس پر بھی روح کو سکون نہیں ملا تو اور بھی بہت کچھ کیا اور کرتے ہیں۔ تو نتیجہ کیا نکلا۔ آج پوری دنیا ان کی ہم سے زیادہ سنتی ہے اور وہ ہر جگہ ہم سے آگے ہیں۔ پوری دنیا کو ان سے ہمدردی ہے اور ہم ظالم اور غاصب کہلائے۔ اور ان کی تعداد بھی بڑھی۔

تو بات یہ ہے کہ میرے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم وآلہ وسلم اور پیارے رب العالمین نے جن باتوں اور فتنوں پر پردہ پوشی اور درگزر کا کہا ہے تو اس میں کوئی ناں کوئی حکمت ہے۔ لیکن یہ بات ہمیں کون سمجھائے۔ نتیجہ کیا ہے؟ بہت سے لوگ ہماری سادگی میں اپنا الو سیدھا کرتے رہیں گے، بہت سے مظلوم سولی چھڑتے رہیں گے۔ اور ہم اپنا امن امان برباد رکھیں گے۔ عمل ہم اسلام پی کریں ناں کریں اس مواقع پر تو عہد پر بھی مسجد نظر نہ آنے والے سندا پکڑے آگے اگے۔ کسی کو اگر دیکھنا ہے کہ اپنی منجی ٹھوک کر دوسرے کا محل کون بناتا ہے تو ہمیں دیکھ لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).