آسیہ مسیح کیس: فریقین کے مسائل اور پوزیشن


آسیہ مسیح کیس میں اعلیٰ عدلیہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے ذیلی عدالت اور بعد ازاں ہائی کورٹ کے توثیق کردہ سزائے موت کے فیصلے کے خلاف اپیل سنتے ہوئے آسیہ مسیح کو توہین رسالت کیس میں بری کر دیا ہے اور ان کی رہائی کا حکم دیا ہے۔

اس فیصلے پر وہ طبقہ جس کو لبرل، روشن خیال یا جدید انسانی حقوق کا علم بردار کہا جاتا ہے، دیدنی خوشی کا مظاہر ہ کر رہا ہے؛ جب کہ مذہبی طبقے نے اس فیصلے کو آزادانہ فیصلہ نہ تسلیم کرتے ہوئے نا حق فیصلہ قرار دیا ہے اور بعض مذہبی جماعتوں نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج شروع کر دیا ہے اور بعض کرنے جا رہی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر عدالت آسیہ مسیح کے لئے سزائے موت کا فیصلہ کرے تو مذہبی طبقہ اس کو اپنی فتح قرار دیتے ہوئے فتح کے ڈھول پیٹنے لگتا ہے اور لبرل طبقہ ماتمی لباس اوڑھ لیتا ہے اور اگر یہی عدالت آسیہ مسیح کو بری کر دے تو حالات بدل جاتے ہیں ماتمی لباس و اوزار مذہبی طبقے کے حصے میں آ جاتے ہیں اور لبر ل طبقہ شادیانے بجانے لگتا ہے۔ ان دونوں فریقوں کا اصل مسئلہ مذہبی یا انسانی حقوق کی رٹ کو قائم کرنا ہے یا خاص دائرے میں کھڑے ہوکر اپنی اناء کی تسکین اور برتری کو ثابت کرنا ہے۔ فریقین کی پوزیشن اور مسائل کا ذکر کرنے کے ساتھ دونوں فریقوں سے کچھ سوالات اور ان کی تفصیلا ت اہم ہیں۔

لبرل ازم کو فالو کرنے والے یا جدید انسانی حقوق کے فلسفے پر یقین رکھنے والے توہین رسالت یا دیگر مذہبی مقدسات؛ خدا تعالیٰ کی ذات، الہامی کتابیں اور دیگر چیزوں کے خلاف ہونے والی توہین کو جرم سمجھتے ہیں کہ نہیں؟ میرے مطالعے و مشاہد ے کی حد تک تو یہ لوگ اس کو جرم نہیں سمجھتے، اور اگر سمجھتے بھی ہیں تو اس نوعیت کا جرم نہیں سمجھتے، جس پر کوئی بڑی، سخت اور آخری ترین سزا تجویز کی جا سکتی ہے (معلومات کے لئے عرض ہے کہ ایسے کیسز میں سخت ترین سزا سعودیہ، ایران اور پاکستان صرف تین اسلامی ممالک میں ہے اس کے علاوہ میں سزا تو ہے لیکن سخت ترین اور آخری سزا یعنی موت وغیرہ نہیں ہے)۔

اگر یہ لوگ اس فعل کو جرم سمجھتے ہی نہیں تو پھر اس کی عدالتی کارروائی میں لا محالہ ہر صورت میں ان کا ذہنی رحجان اس جانب ہو گا کہ مجرم کو سزا نہ ہو سکے اور جرم ہوا ہے یا نہیں یہ اپنی جانب سے طے کیے ہوئے فرضیے کے مطابق عمل کرتے ہوئے یہی سوچیں گے کہ ملزم کو کس طرح بچایا جا سکے۔ توہین رسالت یا مذہبی مقدسات کی توہین پاکستان میں قانونی طور پر ایک ایسا سخت ترین جرم ہے جس پر آخری ترین سز ا یعنی سزائے موت یا عمر قید وغیرہ تجویز کی جا سکتی ہے۔

اس لئے ان کی لڑائی ان فیصلوں کی بجائے اس قانون کے ساتھ ہونی چاہیے کہ یہ درست ہے کہ نہیں؟ اگر یہ درست نہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ مذہبی مقدسات و متبرک شخصیات کی توہین آزادی اظہار رائے میں آتی ہے؟ یا کسی اور بنیادوں پر یہ اس سزا کو درست تصور نہیں کرتے ہیں۔ لیکن اس میں یہ بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے ادارے بھی توہین کو جرم ہی شمار کرتے ہیں۔

اس کے بعد اسی فریق کا دوسرا طبقہ وہ ہے، جو اس کو قابل سزا جرم تو شمار کرتا ہے لیکن سزا کے اطلاق کے عمل کو درست نہیں سمجھتا ہے۔ عدالتی کارروائی پر مذہبی طبقے کے اثر انداز ہونے کی وجہ سے یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس قانون کا درست فیصلہ نہیں ہو پاتا، لہذا جن لوگوں کو سزا مل رہی ہوتی ہے وہ اکثر دباؤ زدہ عدالتی کارروائی کا شکار ہوتے ہیں، اس فریق کا یہ کہنا بھی ہے کہ توہین کے کیسز کا غلط استعمال اس قدر زیادہ ہے کہ اکثر کسی بھی شخص یا گروہ کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانے کے لئے ایسے کیسز کا سہارا لیا جاتا ہے اور پھر عدالت پر دباؤ کے ذریعے من مانے فیصلے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ انھی تحفظات کو دیکھتے ہوئے پچھلے کچھ عرصے میں ایسے کیسز کو ثابت نہ کر سکنے کی بنا پر سزائے موت کے قانون کے نفاذ کی باتیں بھی ہو رہی ہیں تا کہ اس کے غلط استعمال کو روکا جا سکے۔ اس پر سنجیدہ مذہبی تحفظات بھی ہیں جن کے ذکر کا فی الوقت موقع نہیں ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ مذہبی طبقے کے تحفظات بھی اس سے مختلف نہیں ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ جونھی اس قسم کا کوئی کیس سامنے آتا ہے لبرل حضرات یا اس قسم کا طبقہ ملزم کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے اور ان کی پشت پر پور ی عالمی لابی کھڑی ہوتی ہے جو ملزم کو بہر صورت بچانے کی کوشش میں ہوتی ہے۔ اس کے لئے نہ صرف وہ عدالتی کارروائی کو متاثر کرتے ہیں بلکہ براہ راست ریاست پر دباؤ ڈالتے ہیں اور ریاست کے ساتھ معاملات کرنے میں اس کیس کے من مانے فیصلے پر زور دیتے ہیں۔ مذہبی طبقے کے پاس ایسی بہت سی مثالیں ہیں جن لوگوں نے مبینہ طور پر توہین کی پھر عالمی لابی نے مسلم ریاستوں پر زور ڈال کر نہ صرف من مانی کا فیصلہ لیا بلکہ اس کے بعد اس مجرم کو تحفظ فراہم کیا اور اپنے ممالک کی شہریت دی۔

مذہبی طبقے کی بات یہاں تک تو درست ہے لیکن ان میں اسی بات کو لے کر ایسے فیصلوں میں نہ صرف احتجاج بلکہ تشدد کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ اگر چہ بہت سے مذہبی رہ نما عدالت کے ذریعے ہی فیصلہ پر زور دیتے ہیں لیکن ا س دوران اگر ملزم یا مجرم کو نشانہ بنایا جاتا ہے یا قتل کر دیا جاتا ہے تو یہ اسی بات کے قائل ہیں کہ قاتل کو تحفظ فراہم کیا جائے کیوں کہ مقتول کا خون ہدر تھا۔ اس کے پیچھے ان کی بنیادی منطق یہی ہوتی ہے کہ عدالت کو ایسے معاملات میں ریاست و عالمی لابی کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے اس کا آسان حل اگر کسی نے کر دیا تو باوجود اس کے یہ اس کے لئے درست نہیں تھا لیکن کردینے کی صورت میں درست ہو جاتا ہے۔

ممتاز قادری کیس میں تمام مذہبی طبقات اس پر متفق ہیں کہ اس کو غلط طور پر پھانسی دی گئی، حالاں کہ اس نے ملزم کی توہین کا تعین بھی خود کیا اور قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے ملزم کو سزا بھی خود دی۔ وہ مذہبی علما یا جماعتیں جو اس تمام پراسس میں عدالتی کارروائی کو ضروری قراردیتے ہیں اور کسی بھی شخص کو قانون ہاتھ میں لینے سے منع کرتے ہیں وہ اس کیس میں قانون ہاتھ میں لینے والے کے ہم نوا نظر آتے ہیں اور سلمان تاثیر قتل کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کے پیچھے قدیم فقہی تصور ہے کہ توہین کرنے والے کا خون ہدر اور ضائع ہے اس لئے اس کو اگر کوئی قتل کر دیتا ہے اس کے لئے قتل کرنا درست تو نہیں لیکن کر دینے کی صورت میں قاتل سے کوئی قصاص نہیں لیا جائے گا۔

مذہبی طبقے اس مسئلے میں ایک اور مسئلے کا شکار ہیں، اگر کسی شخص کے خلاف توہین کا کیس آ جاتا ہے، عام حالات میں صورت یہ ہوتی ہے کہ بالفرض اگر اس نے توہین کی بھی ہے لیکن وہ شخص عدالت میں آ کر کہتا ہے کہ میں نے کوئی توہین نہیں کی اور میں مقدس شخصیات کا احترام کرتا ہوں، اس کے انکار کے باوجود اس کو سزا دی جائے گی؟ یا اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو پھر بھی اس کو سزا دی جائے گی؟ اس معاملے میں فقہاء نے جس قسم کی تفصیلات کی طرف رہ نمائی کی ہے ان کو نظر انداز کر کے مذہبی طبقے نے چند ایک اقوال پر تکیہ کر لیا ہے۔

اس معاملے میں کسی شخص کی حالت کا لحاظ کرنا، اس کے جرم کی نوعیت کا اندازہ کرنا، اس کے ماحول و پس منظر کو پہچاننا، اس بات پر غور کرنا کہ جرم پر سزا دینا ہی مسئلے کا حل ہے یا معاف کر دینا اور مہلت دینا زیادہ بہتر ہو سکتا ہے ان تمام معاملات کو نظر انداز کر کے اس کو سزا دلوانا ہی حتمی نشان منزل طے پا چکا ہے۔ دین کے اصول دعوت، یسر، آسانی اور تبشیر کو بالکل نظر انداز کر دینا درست رویہ نہیں ہے۔

دونوں فریقوں کی پوزیشن دیکھ کر انداز ہ ہوتا ہے کہ لبرل اور اس طرز کے لوگ و مذہبی طبقہ دونوں اعتدال سے ہٹے ہوئے ہیں۔ دونوں کے یہاں انصاف سے زیادہ شخصی دائرے اہمیت اختیار کر چکے ہیں، جن میں خاص مقاصد کے حصول کی اس قدر اہمیت ہے کہ اصل مقاصد کہیں دو ر جا کر گم ہو جاتے ہیں۔ ایسا کوئی کیس عدالت میں آنے کی دیر ہوتی ہے فریقین اپنی طے شدہ پوزیشنوں کو سنبھال لیتے ہیں، ایک دوسرے پر جو گولا باری کرتے ہیں سو کرتے ہیں عدالتی کارروائی کو متاثر کرنے والی کو ئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں، یہی وجہ ہے ایسے کیسز اس قدر حساس ہوتے ہیں کہ ججز کے لئے فیصلہ کرنا تو دور کی بات کیس سننا بھی مشکل ہو جاتا ہے اور اکثر جج ایسے کیس سے علیحدہ ہونے کی فکر میں ہوتے ہیں۔

ایسے کیسز عدالت میں چل رہے ہوتے ہیں لیکن اس سے قبل ہی ملزم اور اس کے خاندان کا جینا دو بھر کر دیا جاتاہے، المیے کی بات ہے کہ ایسے کسی کیس میں آج تک تک کسی ملزم کو عدالتی ذریعے سے سزا نہیں سنائی گئی اور اس سے بڑھ کر المیے کی بات ہے کہ کیس کا فیصلہ ہونے سے قبل ہی حتمی فیصلے کا شکار ہو جانے والوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے، 62 کے قریب ایسے لوگ بتائے جاتے ہیں جو فیصلے سے قبل ہی زندگی کی بازی ہار گئے۔ ایسے کیسز عدالتوں میں چل رہے ہوتے ہیں اور ملزموں کے سر کی قیمت سر بازار لگ رہی ہوتی ہے۔

فریقین کو حد اعتدال میں آنا ہو گا، عدالت کو ویسے تو ہر معاملے میں آزاد اور خود مختار بنانے کی ضرورت ہے تا ہم اس مسئلے میں خاص طور پر عدالتی آزادی و خود مختاری انتہائی ضروری ہے۔ ریاست، عالمی لابیوں، ملکی لبرل اور سیکولر حلقوں نیز مذہبی طبقات کسی کو بھی فیصلے سے قبل فیصلے پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے اور عدالت کو بھی ایسے فیصلے کرنا ہوں گے جن سے یہ تاثر زائل ہو کہ عدالت دباؤ میں فیصلے کرتی ہے۔

لیکن اس معاملے میں اچھا کیسے ہو سکتا ہے جب کہ ہماری حکومتیں اور سیاسی جماعتیں تک ایسے معاملات میں فریق ہوتی ہیں، پی ٹی آئی کی حکومت نواز شریف کو ختم نبوت کا غدار ثابت کر کے آج یہاں تک پہنچی ہے تو اس حوالے سے ان سے اعتدا ل کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ اسی طرح دیگر جماعتیں مختلف ادوار میں ایسے فیصلوں کو سیاسی شکل دیتی رہی ہیں وہ اب کہاں باز آئیں گی، اس معاملے میں بد ترین بگاڑ سیاست کے ذریعے آیا ہے حکومتوں اور سیاسی پارٹیاں جب سے اس میں حصہ دار بنی ہیں یہ معاملہ بگڑتا ہی چلا گیا ہے اور مزید بگڑ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).