آسیہ مسیح کی رہائی اور قانونی تقاضے


بغیر کسی تمہیدی گفتگو کے موضوع پر کچھ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ اس موضوع پر تحریر کے طویل ہونے کا خدشہ ہے آپ جانتے ہیں کہ آسیہ مسیحی کے خلاف توہین رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقدمہ زیرِ دفعہ 295 C پی پی سی کے تحت 2009 میں درج ہوا۔ اسی کیس میں ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو قتل کیا اور ممتاز قادری کو پھانسی ہوئی۔ آسیہ مسیحی کو ٹرائل کورٹ نے پھانسی کی سزا سنائی۔ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عالیہ (ہائی کورٹ ) میں اپیل کی گئی کیس چلتا رہا بالآخر ہائی کورٹ نے بھی 2014 کو اپنا فیصلہ سنایا جس میں ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کے فیصلے کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے آسیہ مسیحی کی پھانسی کی سزا کو برقرار رکھا۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالتِ عظمی (سپریم کورٹ ) میں اپیل دائر کی گئی۔ جس کا فیصلہ 8 اکتوبر 2018 کو محفوظ کرلیا گیا اور 31 اکتوبر 2018 کو فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملزمہ آسیہ کو باعزت بری کردیا۔

کیس کا مختصر خلاصہ پیش کرنے کے بعد ان قانونی پیچیدگیوں کو زیرِ بحث لانے کی کوشش کرتے ہیں جو اس تحریر کا اصل اور بنیادی مقصد ہے۔ سب سے پہلے اس بنیادی قانون کا ذکر کرتے ہیں جس کی بنیاد پر آسیہ مسیحی کو بری کیا گیا ہے۔

ایک جملے میں آسیہ کی رہائی کو بیان کیا جائے تو اتنا کہنا کافی ہے کہ آسیہ مسیحی کو ( Benefit of doubt ) مطلب شک کی بنیاد پر ملزم کو فائدہ پہنچا اور ملزم شک کی بنیاد پر بری ہوسکتا ہے لہذا اسی اصول کی بنا پر آسیہ کو بری کیا گیا۔ یاد رکھیں یہ فائدہ کسی بھی ملزم کو ایف آئی آر سے لے فیصلہ سنانے تک مل سکتا ہے۔ کسی بھی مقدمے میں کسی بھی اسٹیج پر مدعی یا گواہان نے کوئی ایسا بیان دیا جس میں مطابقت نہیں پائی گئی تو جج اس بیان کو شک کی بنیاد پر پرکھتا ہے اور یہ شک ہمیشہ ملزم کے حق میں جاتا ہے جس کی بنا پر بڑے بڑے چور، ڈاکو، قاتل اس اصول کو بنیاد بناتے ہوئے بری ہوجاتے ہیں۔ اکثر مقدمات کا فیصلہ اسی بنیاد پر آتا ہے۔ یہاں دو باتیں ذکر کرنا انتہائی ضروری ہیں

شک کا فائدہ اٹھانا یا پھر فائدہ اٹھانے کے لئے قانونی پیچیدگیوں کا سہارا لیتے ہوئے جان بوجھ کر شک پیدا کرنا۔

اگر شک کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے تو پہلے نظام بہتر بنانا ہوگا ان پیچیدگیوں کو ختم کرنا ہوگا جس کی وجہ سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں تاکہ مدعی اور گواہان کو ایسی پیچیدگیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اور اگر جان بوجھ کر شک پیدا کیا جارہا ہے تاکہ ملزم کو فائدہ پہنچے پھر یہ انصاف کا نظام نہیں ظلم کا نظام سمجھا جائے گا۔

دوسری اہم بات شک کا فائدہ کا اصول تو ٹرائل کورٹ میں بھی قابلِ عمل ہوتا ہے اور ہائی کورٹ میں بھی اسی اصول کو مدِنظر رکھ کر فیصلہ سنایا جاتا ہے پھر کیا وجہ تھی کہ سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ کو یہ اصول نظر نہ آیا وہاں سے آسیہ کی پھانسی کی سزا سنائی گئی اور سپریم کورٹ جس کے پاس اور کوئی خاص سبب نہ تھا تو اسی شک کو وجہ بناتے ہوئے آسیہ کو بری کیا گیا۔ اگر اسی اصول کو مدِ نظر رکھا جائے تو آسیہ مسیحی کو ٹرائل کورٹ یا پھر ہائی کورٹ سے ہی رہا ہوجانا چاہیے تھا مگر ایسا نہ ہوا۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ ہائی کورٹ کے جج صاحبان کو یہ اصول یاد نہ رہا یا انہوں نے کسی اور وجہ سے آسیہ کی پھانسی کو برقرار رکھا پھر تو سوال جنم لیتا ہے کہ عدالتیں اپنی منشاء پر فیصلے سناتی ہیں یا پھر عدلیہ اتنی اہل نہیں کہ سستا اور فوری انصاف فراہم کرسکیں؟

تیسری وجہ آسیہ کا بیان ہے جو سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی درج ہے آئیے اس بیان کو دیکھتے ہیں آسیہ گاؤں کے لوگوں کے سامنے تو اقبالِ جرم کرتی ہے مگر عدالت میں آکر اپنے بیان سے منحرف ہوجاتی اور اپنے اقبالِ جرم کو دباؤ کا نام دے دیتی ہے مگر اس بیان میں آسیہ کہتی ہے ہم گاؤں کے ایک کھیت جو فالسے کا کھیت تھا وہاں کام کر رہیں تھیں میں نے پانی لانے کا کہا تو میرے ساتھ کام کرنے والی مسلمان عورتوں نے یہ کہہ کر مجھے منع کردیا کہ تم عیسائی ہو اور ہم مسلمان ہیں لہذا ہم تمہارے ہاتھ کا پانی نہیں پی سکتیں۔

اس کے بعد آسیہ کہتی ہے اس بات پر ہمارا جھگڑا ہوتا ہے جھگڑے میں ہم ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہتی ہیں اور اسی وجہ سے وہ عورتیں اپنی ذلت کا بدلہ لینے کے لئے میرے خلاف سازش کرتی ہیں اور گاؤں کا قاری بھی ان کے ساتھ ملا ہوا ہوتا ہے پولیس بھی ان کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے وہ سب مل کر میرے خلاف سازش کرکے مجھے پھنسانے کے لئے میرے خلاف توہینِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیس بناتے ہیں۔ قارئین اس تیسری وجہ کو بغور دوبارہ پڑھیں آسیہ کا بیان کہ ان عورتوں نے میرے ہاتھ کا پانی پینے سے انکار کیا کیونکہ میں عیسائی تھی پھر آگے کہتی ہے ان سب نے مل کر میرے خلاف سازش کی ہے۔

یہاں دو باتیں قابلِ غور ہیں اگر وہ عورتیں، کھیت کا مالک اور گاؤں کا قاری اگر سازش کر رہے تھے تو اس کی کوئی خاص وجہ تو ہوگی؟ یا تو ان کی پہلے سے آسیہ کے ساتھ کوئی دشمنی تھی یا پھر وہ زبردستی آسیہ کی زمین یا گھر پر قابض ہونا چاہتے تھے یا کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی تھی جس کی بنیاد پر وہ سب آسیہ کے خلاف سازش کر رہے تھے جبکہ آسیہ اپنے بیان میں سازش کی وجہ پہلے کی لڑائی، جھگڑا یا ذاتی دشمنی یا کسی قسم کے ناجائز قبضہ کو قرار نہیں دے رہی۔

اگر پہلے سے کوئی لڑائی ہوتی تو اتنی بڑی سازش کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے مگر آسیہ خود کہتی ہے سازش کی وجہ ان کی ذلت ہے جو میں نے اس لڑائی والے دن کی تھی مطلب ایک آسیہ نے دو عورتوں کو اتنا ذلیل کیا، اتنی گالیاں دیں، اتنا برا بھلا کہا کہ ان کو برداشت نہ ہوسکا اور انہوں نے سازش کی جس میں گاؤں کے قاری کو بھی ملا لیا۔ یہ تو تصویر کا وہ رُخ ہے جو آسیہ ہمیں اپنے بیان میں دکھا رہی ہے اب تصویر کا وہ رُخ بھی دیکھتے ہیں جو چیف جسٹس صاحب کو نظر نہ آیا۔

تصویر کا دوسرا رُخ کچھ اس طرح ہے آسیہ پانی لانے کا کہتی ہے وہ دو مسلمان عورتیں یہ کہہ کر اس کے ہاتھ سے پانی پینے سے انکار کردیتی ہیں کہ تم عیسائی ہو اور ہم مسلمان ہیں۔ لہذا ہم تمہارے ہاتھ سے پانی نہیں پی سکتیں اور یہ بات آسیہ کو بہت بری لگتی ہے آسیہ اپنے عیسائی ہونے پر پانی نہ پینے کو اپنی ذلت سمجھتے ہوئے ان مسلمان عورتوں پر اس بات کا ردِ عمل دیتی ہیں جیسے ان عورتوں نے آسیہ کے دین کا ذکر کیا اور آسیہ پر اپنی برتری کا احساس دلایا آسیہ احساسِ کمتری میں مبتلا ہوکر دینِ اسلام کے خلاف بولنے لگی۔

اور جو جو منہ میں آیا بولنے لگی جس میں توہینِ کا ارتکاب بھی ہوسکتی ہیں۔ تصویر کا دودرا رخ بھی تو ہے مگر تصویر کے اس رُخ کو نظرانداز کیا گیا اگر ہم کہیں کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے آسیہ نے خود الزام کی تردید کی ہے اور اسے اپنے خلاف سازش قرار دیا ہے مگر یہ کیسے معلوم ہو کہ آسیہ سچی ہے جبکہ وہ عورتیں، قاری، کھیت کا مالک اور پورا گاؤں جھوٹا ہے۔ چونکہ آسیہ کو بری قرار دینا تھا تو جان بوجھ کر ان گواہان سے ایسے ایسے سوالات پوچھے گئے کہ جب آسیہ نے اقبالِ جرم کیا تو کتنے لوگ تھے؟ کھیت کا مالک کتنی دور تھا؟ آپ نے اس لڑائی کی وجہ سے آسیہ پر توہینِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا الزام لگایا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اب اتنے غیر ضروری سوالات کا مقصد یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ کہیں شک پیدا کیا جائے اور شک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملزم کو بری قرار دیا جائے اور یہی شک کا فائدہ کا اصول آسیہ کی رہائی کی وجہ بنا۔

چوتھی وجہ جو شک کی بنیاد بنی وہ ایف آئی آر میں دو تین دن کی تاخیر ہے اگر ایسے سنجیدہ اور حساس مسئلہ جس میں پہلے گاؤں کے لوگوں سے تحقیقات کرنا پڑی پھر آسیہ کو سب گاؤں والوں کے سامنے آسیہ کا بیان لینا پڑا جب آسیہ سب گاؤں والوں کے سامنے اقبالِ جرم کرتی ہے اس کے بعد ایف آئی آر درج کرانا پڑتی ہے اس حساس مسئلے کی ایف آئی آر کی دو تین دن کی تاخیر شک کا سبب قرار دیا جارہا ہے تو سپریم کورٹ میں اپیل کا وقت گزر جانے کے باوجود اس حساس ایشو کی اہمیت کے پیشِ نظر اپیل خارج کیوں نہ کی گئی؟ اگر ایک جان کے لئے اپیل کی تاخیر کے باوجود اپیل قابلِ سماعت ہوسکتی ہے تو ایف آئی آر کی تاخیر کو شک کا فائدہ کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے امتِ مسلمہ اور ناموسِ رسالت کے ایشو کا خیال کیوں نہ رکھا گیا؟ اس مقدمے میں ایک ملزم اور پوری امتِ مسلمہ مدعی ہے اگر ایک جان کی اتنی فکر کو خاطر میں لایا جاسکتا ہے تو پوری امتِ مسلمہ کو نظرانداز کیوں کیا گیا؟

آخر میں اتنا کہنا ہے پہلے اس مسئلے کی حساسیت کو عام مقدمات کے ساتھ موازنہ نہ کیا جائے اور جو قانون دان یہ اصول بیان کر رہے ہیں کہ اگر ایک بیگناہ کی جان بچانے سے دس گناہگاروں کے بچ نکلنے کے مواقع ہیں تو ایک بیگناہ کی جان بچائی جائے۔ اس اصول کی یہاں مطابقت نہیں ہوتی کیونکہ یہاں ایک فرد ہے نقصان بھی ایک کا اور فائدہ بھی ایک کا۔ یہاں اتنی جانیں ہیں ہی نہیں صرف ایک جان ہے اور دوسری بات جب بات ریاست پر آتی ہے تو وہاں ایسے اصولوں کو مدِ نظر نہیں رکھا جاتا وہاں سب اصول ختم ہوجاتے ہیں کیونکہ ریاست کی رٹ کو چیلنج ہوتا ہے۔ ایسے قانون دان کے لئے یہی مشورہ ہے ایک ہی اصول پر تمام حساس ایشو کو پرکھنے کی ناکام کوشش نہ کریں۔ ہر حساس اور غیر حساس ایشو کو ایک ہی اصول پر پرکھنا بہت بڑی زیادتی ہے پہلے مقدمے کی نوعیت و حساسیت کو سمجھا جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).