آسیہ بی بی اور مکافات عمل


یہ شہر سحر زدہ ہے صدا کسی کی نہیں
یہاں خود اپنے لئے بھی دعا کسی کی نہیں
(فراز)

اتنی جلدی مکافات عمل۔ وقت کتنی تیز چل رہا ہے۔ انسان بھلے جتنا بھی طاقتور ہو جائے یاداشت کی حدود اور اعمال کے دائروں سے باہر نہیں نکل سکتا۔ نمرود ہو یا فرعون، یزید ہو یا حجاج بن یوسف سب آج بھی اپنی اپنی کہانی کے قیدی ہیں۔ صدیاں بیت گئیں، زمانے بدل گئے۔ موت بھی ان کے دامن پر لگے بدنما داغ نہیں مٹا سکی۔ ٹھیک ایک سال پہلے جب ریاست کے بگڑے لاڈلے فیض آباد چوک میں حکومت وقت کی بے بسی کا جشن منا رہے تھے تو ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے ہونٹوں پر حقارت آمیز مسکراہٹ آئی اور دل میں خیال آیا: گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو۔

چھ ارب لوگوں نے دیکھا کہ ریاست کا بیٹا جس کے دونوں کاندھوں پر ہلالی جھنڈے چسپاں تھے، جس کا سینہ شجاعت کے تمغوں سے مزین تھا کس طرح جہل کے پیادوں میں اشرفیاں بانٹ رہا تھا۔ سنپولوں کو دودھ پلا رہا تھا۔ کیسے سینے پر ہاتھ رکھ کے کہہ رہا تھا ”کیا ہم آپ کے ساتھ نہیں ہیں، کیا ہم آپ کے ساتھ نہیں ہیں“۔ قوم نے دیکھا کہ کس طرح بیس دن جاری رہنے والے دھرنے کے پس منظر میں اپوزیشن اور ہمارے رکھوالوں نے ایک سیاسی جماعت کو سبق سکھانے کے لئے ریاست کو ناک سے لکیریں نکالنے پر مجبور کیا۔ پتہ نہیں نام نہاد انا کو کتنی تسکین ملی ہوگی۔ تکبر کی کتنی آبیاری ہوئی ہو گی۔

خدا کفر براداشت کرتا ہے، لیکن ظلم اور تکبر برادشت نہیں کرتا۔ آج آدھی دنیا میں کفر کا نظام ہے۔ ہزاروں سالوں سے چلا آ رہا ہے۔ خدا ان سے تفریق نہیں برتتا۔ وہ مسلمانوں سے زیادہ خوشحال ہیں۔ نمرود، فرعون اور یزید اگر کافر ہوتے تو بچ جاتے۔ انہیں ظلم اور تکبر کی سزا ملی۔ بقول منیر نیازی ۔۔۔ عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔ ایک برس ہی گزرا ہے۔ وہی چند ہزار لوگ وہی طیش، وہی چہرے، وہی ایجنڈا، وہی ہتھکنڈے، وہی لہجہ، وہی تقاضے لئے اسی فیض آباد چوک پر پہنچ چکے ہیں، وہی مال روڈ بند کر کے بیٹھے ہیں۔ لیکن اب کی بار ان کی زبان پر نام کچھ اور ہیں۔ احمد فراز نے کیا خوب کہا تھا:۔

میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے چند گھنٹوں بعد پورا ملک احتجاج اور مظاہروں کی لپیٹ میں آگیا۔ شدت پسندی کے روح رواں مولانا خادم رضوی اور اس کے ساتھیوں نے لاہور مال روڈ پر اپنے پیروکاروں سے خطاب کرتے ہوئے جو فتوؤے دیے اور جو مطالبات پیش کیے وہ پہلے سے بھی زیادہ ہولناک ہیں۔ تاریخ نے انہیں درج کر لیا ہے۔ سپہ سالار کی واشگاف الفاظ میں ملاؤں نے جو عزت افزائی کی ہے اس کی ملکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں۔ بزبان ثاقب لکھنوی

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

آج سے پہلے جو ہوتا رہا ہے اگر وہ بھلا بھی دیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ گھمنڈیوں کا غرور خاک چاٹنے کے قریب آ چکا ہے۔ کل کے سازشی کیچووں کی انا وقت کے آرے کے عین نیچے ہے۔ لیکن آج اگر یہ مزید گرے تو قوم مزید پستی میں چلی جائی گی۔ یہ وقت سچائی کا ساتھ دینے کا ہے۔ جو قومیں حق کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں صدیاں ان کا اقبال کرتی ہیں، لمحے ان کا وقار بلند کرتے ہیں۔ قومیں ایک لیڈر کی بے وقوفی سے نہیں لاکھوں لوگوں کی غلطیوں سے برباد ہوتی ہے۔

وزیر اعظم نے آج بہت اچھا پیغام دیا ہے۔ قوم سے اپیل کی ہے۔ ایک لیڈر کا بنیادی کام ہی اپنے لوگوں کی ٹریننگ ہوتا ہے۔ یہی کام وہ ایک سال پہلے کرتے تو انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ اللہ کرے گا یہ مشکل وقت گزر جائے گا۔ لیکن ریاست اس وقت تک کمزور رہے گی جب تک ہماری قیادت ذاتی انا سے بالا تر ہو کر نہیں سوچے گی، اداروں کی کارکردگی سے تعصب کی بو آنا بند نہیں ہو گی۔ سیاسی میدان میں جو کھینچا تانی چل رہی ہے یہ زہر قاتل ہے۔ عوام کو کرپشن کی بتی کے پیچھے لگا کر حکومت تو مل گئی ہے لیکن اگر صحت، تعلیم، روزگار اور انصاف نہ ملا اگر مہنگائی اور غربت کا جن بوتل میں بند نہ ہوا تو دن کے اجالے میں ٹرک غائب ہو جائے گا، رات کی تاریکی میں بھی ٹرک کی بتی نہیں ِدکھے گی۔ اور پانچ سال ان عذابوں سے نکلنے کے لئے کتنے کم ہیں، یہ اندازہ تو آپ کو ہو ہی گیا ہو گا۔ اس سے پہلے کہ ٹرک کی بتی گل ہو دماغ کی بتی روشن کر لیں صاحب۔ وقت کسی کا سگا نہیں۔ بقول شاعر

کسی کی بازی کیسی گھات
وقت کا پانسہ وقت کی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).