اس قوم کو ہی بم سے اڑا دو


آپ لوگ بھی سوچ رہے ہوں گے آخر کالم کا عنوان یہ ہے تو اس کا مواد کس قدر انتہا پسندی پر مبنی ہوگا۔ ا یک ایسی قوم کو بم سے اڑا نے کی بات کی جارہی ہے کہ جس کی ریاست کو مدینے کی جانشین ریاست کہا جاتا ہے۔ جس ملک کو حاصل کرنے میں لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانیں، مال و زر اور خاندان تک قربان کر دیے، جس کے بانی نے آخری دم تک ٹی بی جیسے موذی مرض سے لڑتے ہوئے جان تو فدا کر دی مگر مسلمانوں کے لئے ایک آزاد اور الگ وطن حاصل کر کے ہی دم لیا، جس ریاست کی آزادی کے بعد ہماری بہن ماؤں اور بیٹوں نے اپنی عزت و آبرو بچانے کے لئے کنوؤں میں کود کر، اپنا گلہ کاٹ کر اپنی عزت بچانا تو گورارہ سمجھا مگر عزت پر آنچ نہ آنے دی، جس کے اثاثوں کی تقسیم کے وقت بھی ہیرا پھیری کی گئی اور اثاثوں کی مساوی تقسیم کو پس پشت ڈال دیا گیا، تحریک آزادی کا ہر ایک سپاہی سچائی، ایمانداری، لگن، اتحاد اور محنت سے وطن حاصل کرنے میں پیش پیش تھا، مشرقی پنجاب میں ہونے والے قتل و عام کو بھی اس قوم نے برداشت کیا۔

میں یہ سب کچھ جان کر بھی اگر یہ کہتی ہوں کہ اس قوم کو ہی بم سے اڑا دیا جائے تو اس کے پیچھے وجہ بھی کوئی ایسی ہوگی جس نے دل کو صدمہ اور دماغ کو ٹھیس پہنچائی ہوگی جس کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اس کالم کو لکھنے کی جرات کی۔ یہ مئی 2018 کا واقعہ ہے جب سی این جی کی قیمت میں اضافہ ہونے کے باعث ٹرانسپورٹرز حضرات نے جعلی لسٹیں تمام ویگنوں، کوچزاور نجی بسوں میں آویزاں کرکے ایک دم 13 اور 8 روپے کا اضافہ کر دیا تھا۔

یہ اچانک کرائے میں ناجائز اضافے کے خلاف ایک مہینے تک میں نے ان کے خلاف آواز اٹھائی۔ یونیورسٹی آنے جانے کے وقت میری ان بس کنڈیکٹر سے ناجائز کرائے کے مطالبے پر کافی تو تو میں میں ہوتی۔ کمال کی بات یہ تھی کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کرائے میں اضافہ کے خلاف عوام ایک ہوکر ان کو جائز کرایہ ہی دیں گے مگر میں غلط تھی جب جب کرائے کا مطالبہ کنڈیکٹر مجھ سے کرتا میں نہیں دیتی تو کنڈیکٹر تو بعد میں کہتا پہلے یہ عوام ہی میرے پیچھے پڑ جاتے۔

مجھے کہا جاتا کہ کیا 10 روپے بچا کر اپنے کفن میں ڈالو گی، تو دوسری کہتی کہ کرایہ پورا نہیں دے سکتی تو رکشوں میں جایا کرو۔ ابھی عورتیں اپنا بھاشن پورا نہیں کرتی تو پیچھے سے آدمی حضرات بھی اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالنے کو اہم فریضہ گردانتے اور کہتے ارے ان عورتوں کا یہی کام ہے سفر کرتی ہیں کرایہ نہیں دیتی پانچ یا دس روپے سے یہ اپنا محل کھڑا کریں گی۔ وہ تمام مسافر مجھ سے ٹھیک ٹھاک سننے کے بعد بھی ہوش کے ناخن نہیں لیتے جب کہ میں ان کو چیخ چیخ کر بتاتی کہ آپ لوگوں سے ناجائز کرایہ وصول کیا جارہا ہے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاؤ۔

مجال ہے کسی کے کان پرجوں بھی رینگتی۔ دن گزرتے گئے میں نے اب کبھی W 11 اور کبھی 4 K میں جانا شروع کردیا 4 K کی ایک اچھی بات یہ تھی کہ انہوں نے 25 سال بعد کرایہ بڑھایا تھا اور وہ بھی صرف 5 روپے جبکہ ہم اسٹوڈنٹس اس گورنمنٹ بس میں کارڈ بھی استعمال میں لاکر آدھا کرایہ دیتے ہیں مگر نقصان یہ تھا کہ صبح اس سواری میں بیٹھ جاتے تو ایک دو کلاسیں نکل ہی جاتی اسی بناء پر w 11 کا رخ کرنا پڑتا۔ ابھی کرائے کو بڑھائے مشکل سے 6 مہینے ہوئے تھے کہ تبدیلی کے نعرے والی حکومت نے سی این جی کی قیمت میں ریکارڈ توڑ اضافہ فرما دیا لو بھیا اب سی این جی 104 پر آگئی۔

ماشاء اللہ سی این جی کی تو سنچری بن گئی مگر عوام کا دیوالیہ نکل گیا اس مہنگائی کا براہ راست اثرات ایک بار پھر عوام پر آیا اس بار ہم بہت خوش تھے کہ اب تو اس عوام نے زیادہ کرایہ وصول کرنے پر کنڈیکٹر کا منہ توڑ دینا ہے اور پرانے لسٹ کی پہچان بھی ہوگئی ہوگی کی ایک بار پھر اس پرانی لسٹ میں ردوبدل کرکے اس لسٹ کو بسوں کی زینت بننے کا شرف بخشا جو مئی 2018 میں لگائی گئی تھی۔ اس بار عوام ان کرایوں میں اضافے کے خلاف بائیکاٹ کریں گے کیوں کہ کرایہ اب 30 روپے سے بڑھا کر 40 روپے جو کردیا گیا تھا۔

صبح حسب معمول یونی جانے کے لئے W 11 کا رخ کیا کنڈیکٹر کو 30 روپے پکڑا دیے اس نے کہا 10 اور دو میں نے کہا نہیں ہے اس نے بحث شروع کردی جب بحث چلی جیت میری ہوئی۔ مگر یہ عوام پھرمیرے دشمن بن گئے بالکل پاک بھارت جنگ کی طرح مجھ پر برسنے لگے ڈرائیور صاحب نے کہا رکو! ابھی بس تھانے پر لگاتا ہو لو جی تھانے کا نام سن کر مجھے بے حد خوشی ہوئی میں نے کہا ہاں ہاں لگاؤ تھانے پر گاڑی تمھیں بھی تو پتہ لگے کہ میں صحیح ہو یا تم یا پھر تمہارے حمایتی عوام۔

اتنے میں ایک محنتی آدمی نے پیچھے سے بلند آواز کہا یار تو گاڑی چلا اس لڑکی کو تو کہی جانا نہیں ہم کام کاج والے لوگ ہیں۔ اس پر مجھے ایک سیانے کی بات یاد آگئی یہ منہ اور مسور کی دال۔ لسٹ کے مطابق 13 اکتوبر کو زائد کرایہ وصول کرنے کا اطلاق ہونا تھا مگران لوگوں نے تو 10 اکتوبر سے ہی ناجائز کرایہ وصولی شروع کر دی اور یہ عوام خوشی خوشی دیتی رہی اور اب بھی دے رہی ہے۔

میں نے سمجھا گاڑی میں پڑھا لکھا طبقہ کم ہوتا ہے اس لئے آگاہی نہیں ہوگی مگر آگاہی دینے پر الٹا چور کوتوال کو ڈانٹنے والا حساب ہے خیر یونیورسٹی میں بھی پانی کی مشینوں کے لئے احتجاج کیا گیا مجال ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں اس اجتماعی مسئلے کے خلاف ایک ہوتے کوئی یہاں سے بھاگا کوئی وہاں سے۔ 50 سے 40 لڑکوں کے ساتھ صرف دو لڑکیاں اس نا انصافی کے خلاف پیش پیش تھیں میں اور میری دوست اقصی۔ دوسرے دن پانی کی کافی مشینیں مختلف شعبوں میں لگا دی گئی اور یہی لوگ جو ہمارے ساتھ احتجاج میں کھڑے ہونے کو باعث شرم سمجھ رہے تھے ان واٹر کولرز پر پانی بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ابھی ایک ہفتے پہلے بھی یونی میں ایک مسئلہ ہوا 6 لڑکیوں کے علاوہ کسی نے ساتھ نہیں دیا جب کہ پوری کلاس کا مسئلہ تھا۔

اسی طرح کے دیگر مسائل جن پر عوام کو، اسٹوڈیٹس کوآواز اٹھانا چاہے مگر خود توآواز اٹھاتے نہیں اگر کوئی بولتا بھی ہے تو یہ عوام مل کر اس کی آواز دبا دیتے ہیں۔ ہمیں اپنے بنیادی حقوق کے لئے آواز بلند کرنا چاہیے اتحاد و اتفاق سے کام لینا چاہیے مگر نہیں لیتے۔ ابھی پانی کا مسئلہ کس قدر سنگین بن چکا ہے، کہا جا رہاہے کہ تیسری جنگ پانی پر ہوگی، مہنگائی کا جن بھی پورے ملک میں دندنا تہ پھر رہا ہے، ظلم و زیادتی عروج پر ہے، سرے عام لوگوں کو قتل کر دیا جاتاہے، بچے اغوا کر لئے جاتے ہیں۔ یہ قوم کچھ نہیں کہتی الٹا ہر ظلم کو برداشت کرتی ہے۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے۔
”جیسی قوم ویسے ہی حکمران مسلط کیے جائیں گے“

مجھے یہ سب دیکھ کر، عوام کے بے حس رویہ کو دیکھ کر شدید غصہ آتا ہے ہم لاشیں تو اٹھانا گوارا کرتے ہیں مگر اپنے حق کے لئے آواز نہیں اٹھاتے، Spiral of silence theory کا پاکستان کے عوام میں بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ ظلم کو برداشت کرنا بھی ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ خدارا اگر چاہتے ہو کہ تمھاری آنے والی نسلیں کم از کم بنیادی حقوق سے محروم نہ ہواور خودکشی پر مجبور نہ ہو، آنے والی نسل اپنے حقوق حاصل کر پائیں، مستقبل کے لئے فکر مند نہ ہو، تعلیم سے محروم نہ ہو، پانی جیسی نعمت ان کو میسر آئے تو اٹھو اپنی آنے والی نسل کے لئے خاموش مزاجی کے بندھن کو توڑو اور لکڑہارے کی ان لکڑیوں کے گٹھے کی طرح بن جاؤ کہ تمھیں توڑنا تو دور کوئی تمہارے قریب آنے کی جرات بھی نہیں کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).