عورتوں کو چاہیے کہ خرانٹ بن جائیں


بابا جی: ارے ہدایت کہاں مر گیا؟ جا جاکر دیکھ دروازے پر کون آیا ہے کب سے بجے جارہا۔
ہدایت : جی سرکار ابھی آیا

بابا جی : ارے آ نہیں جا۔ اور جا کر دیکھ کہ کون ہمارے آرام میں خلل ڈال رہا۔
ہدایت: وہ آپ کے جگری دوست ہیں ناں جی شیخ صاحب اُن کی صاحبزادی آئی ہیں اکبری۔
بابا جی: ارے تو ادھر کیوں کھڑا ہے جا اور جا کر اُنہیں اندر لے کے آ۔ دفع بھی ہو اب۔

اکبری : اسلام وعلیکم انکل
بابا جی: وعلیکم السلام بیٹا۔ آج کیسے اپنے بوڑھے انکل کی یاد آگئی؟
اکبری: یاد تو آپ کی آتی ہی رہتی ہے انکل، مگر کیا کروں گھر کے کام، ذمہ داریاں، بچے یہ سب فرصت ہی نہیں دیتے۔ آج بچے اپنی پھوپھو کے گھر گئے ہوئے ہیں تو بس کسی طرح سہیلی کے گھر کا بہانہ کرکے نکلی ہوں۔

بابا جی : تو کیا ساس نے اجازت دے دی سہیلی کے گھر جانے کی؟
اکبری: وہ تو سوئی ہوئی تھیں اُنہیں نہیں معلوم۔
بابا جی : اور اگر آپ کے جانے تک جاگ گئی بیٹا پھر کیا کہو گی؟

اکبری : انکل آپ مجھے ڈرائیں مت بس آپ مجھے میری مشکل کا حل بتا دیں۔ اپکو تو معلوم ہے کہ میرے جاننے والوں میں یا اس شہر میں ہی آپ سے زیادہ سیانا کوئی نہیں ہے۔
باباجی:دیکھا بھئی ہدایت کتنی دھوم ہے ہماری شاباش بیٹا اس لیے میں آپ کو پسند کرتا ہوں۔ آپ کو کھرے کھوٹے کی پہچان جو ہے۔ اب بتاؤ جلدی سے کیا مسئلہ ہے آپ کا۔

اکبری : انکل جو میری چھوٹی بہن ہے ناں اصغری۔ انکل وہ بہت عجیب سی نکلی ہے، بہت ہی ماڈرن نئے زمانے کی، آزاد لڑکی۔ پہلے تو سر پر دوپٹہ نہیں لیتی تھی مگر اب اُس نے دوپٹہ لینا ہی چھوڑ دیا ہے ہے وہ بالکل ہی ہاتھ سے نکل گئی ہے مغربی لباس پہنتی ہے مغربی چال ڈھال جب سے اس نے نوکری شروع کی ہے پورا لاہور اپنی سہیلیوں کے ساتھ اکیلے گھومتی ہے۔ ہوٹلوں میں کھانا کھاتی ہے۔ فیس بک اور انسٹاگرام پہ تصویریں لگانا بس یہی کام ہیں اُس کے۔

بابا جی :ماشاءاللہ ماشاءاللہ اچھا تو ہماری اصغری اتنی کامیاب ہوگئی اور ہمیں کوئی خبر ہی نہ ہوئی اور آپ کو کیا مسئلہ ہے اس سے بیٹا۔ ضرور آپ جلتی ہوگی اس کی کامیابی سے تبھی تو اس کے پیچھے پڑی ہو۔
اکبری : کامیابی؟ آپ اسے کامیابی کہتے ہیں انکل نہ تو اُسے کھانا پکانا آتا ہے نہ کوئی گھر داری نہ کوئی طریقہ نہ سلیقہ۔
بابا جی : پھر یہ بتاؤ بیٹا جی بھلا ہماری اصغری جو نوکری کرتی ہے اُس میں تنخواہ کتنی ملتی ہے؟

اکبری : تنخواہ تو اس کی بہت زیادہ ہے انکل یہی کوئی 80000 کے لگ بھگ۔ ابھی صرف 8 مہینے ہی ہوئے ہیں اُسے نوکری کرتے ہوئے۔
بابا جی : 80 ہزار! دیکھا ہدایت ہماری بھتیجی کی تنخواہ۔ ماشاءاللہ ماشاءاللہ تو پھر یہی ہوئی نہ کامیابی۔ گھرداری اور ہانڈی روٹی کے لئے وہ نوکرانی رکھ لے گی۔
اکبری : اور بچے انکل وہ کیسے پالے گی؟
بابا جی : اس کے لیے بھی آیا مل جائے گی۔

ہدایت : اور تربیت بابا جی وہ کیسے کریں گی اصغری بی بی؟
بابا جی : یہ ہماری اکبری نے کونسی تربیت کرلی اولاد کی؟ نہ اس نے نوکری کی نہ کبھی کہیں گئی نہ آئی، نہ ماں باپ کی بن کے رہی نہ دوستوں کی مگر بچے تو اس کے بھی بگڑے ہوئے ہیں۔ جواینٹ فیملی کی بھینٹ چڑھ گئے اس کے بچے۔ ہماری اصغری دیکھنا کتنے بڑے سکول میں بھیجے گی اپنے بچوں کو۔ ایسے انگریز بچے نکلے گے اُس کے فرفر انگریزی بولنے والے۔ اکبری کی طرح گلی محلے کے سکول میں نہیں پڑھائے گی وہ اپنے بچوں کو۔

اکبری : انکل آپ سمجھ ہی نہیں رہے جیسے اس کے طور طریقے ہیں اس سے شادی کرے گا کون؟ کون اتنی ماڈرن لڑکی کو اپنی بہو بنانے گا جینز پہننے والی میک اپ کرنے والی کا رشتہ مانگے گا کون؟
بابا جی : اچھا تو یہ بتاؤ بیٹا کہ آپ کے خاوند کی اپنی سالی کے بارے میں کیا رائے ہے؟
اکبری: وہ تو اُسے بہت پسند کرتے ہیں انکل۔ اُس کی بہت تعریفیں کرتے۔ اصغری کتنی کانفیڈنٹ ہے وہ کتنی اچھی نوکری کرتی ہے۔ اُنہیں تو اس کی کوئی برائی نظر ہی نہیں آتی۔

بابا جی :اور آپ کی ساس وہ کیا کہتی بیٹا۔
اکبری:اُنہوں نے کیا کہنا ہے انکل وہ سب کو سیدھا جواب دیتی ہے کسی کی کوئی بات برداشت نہیں کرتی سب اس سے ڈرتے ہیں اس کے رعب میں رہتے ہیں۔

بابا جی : ماشاءاللہ ماشاءاللہ اس لیے تو وہ کامیاب ہے اور کامیاب رہے گی۔ وہ آپ کی طرح اپنے سسرال والوں سے نہیں ڈرے گی بلکہ اس کے سسرال والے اس سے ڈریں گے۔ وہ آپ کی طرح ہر کام کے لئے اپنی ساس اور خاوند سے اجازت نہیں مانگا کرے گی بلکہ اس کی ساس اور خاوند اس سے اجازت مانگا کریں گے۔ یہ ہوئی نہ کامیاب زندگی۔

ہدایت : یہ تو آپ کہہ رہے ہیں سرکار مگر ہمارا معاشرہ کبھی ایسی بہو کو قبول نہیں کرے گا۔ یہ ہمارے معاشرے کی اقدار ہی نہیں ہیں۔
بابا جی :تو پھر چولہے میں ڈالو ایسے معاشرے کو اور اس کی اقدار کو۔ جو اصغری نے کیا وہی صحیح ہے۔ وہ تو تم سب عورتوں کے لئے مشعل راہ بن گئی ہے۔ نہ ہی بیٹے پیدا کرنے کی ٹینشن نہ ہی سسرال والوں کی خدمت گزاری کی ٹینشن۔ اپنی طرف ہی دیکھ بیٹا اکبری۔ شادی کے سات سال تک اولاد سے محروم رہنے پر کیا کیا طعنے نہیں سُنے آپ نے۔ اور یہ بتا دن میں کوئی سو طرح کے کام کرنے ہوتے آپ کو اور اگر آپ ننانوے کام کرلو اور ایک کام نہ کرو یا بھول جاؤ تو کیا ہوتا آپ کے ساتھ؟

اکبری : بہت باتیں سننے کو ملتی انکل۔ جو 99 کام میں کرلیتی وہ کسی کو نطر نہیں آتے ہاں مگر جو ایک کام میں نہیں کرتی وہ سب کو دکھائی دے جاتا۔
ہدایت: مگر بابا جی اصغری بی بی کی دنیا کامیاب ہوسکتی مگر آخرت نہیں۔ ہمارے مذہب کے مطابق عورتوں کو اتنا بے باک اور آزاد نہیں ہونا چاہیے۔

بابا جی : اچھا تو پھر یہ بتا بھئی ہدایت اولاد نہ ہونے پر بہو کو طعنے دے دے کر مار دینا اور بیٹا نہ ہونے پر بہو کی زندگی اجیرن کردینا یا بیوی کو نوکرانی بنا کر رکھنا اور کوئی کام والی نہ رکھنا چاہے استعداد بھی ہو؛ یہ سب جائز ہے تیرے مذہب میں؟ یہ آخرت کے پیچھے نہ پڑ جایا کر۔ ہمارے معاشرے میں آخرت سنوارنے والوں نے دوسروں کی اور اپنی زندگی عذاب بنائی ہوئی۔ اس لئے دنیا سنوارو دنیا۔ آخرت خود بخود سنور جائے گی۔

اکبری : آپ نے صحیح کہا انکل میری زندگی بھی اُنہوں نے اجیرن کر رکھی ہے جو ہر وقت آخرت سنوارنے کے چکر میں لگے رہتے۔ یہ کسی کا دل دکھانے کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ اصغری صحیح ہے انکل آپ صحیح ہیں۔ ہر عورت کو اصغری کی طرح خرانٹ بن جانا چاہیے تبھی ہم پر ہونے والے ظلم ختم ہوں گے۔ اب میں چلتی ہوں انکل اب میں چلتی ہوں۔

(تلقین شاہ سے ماخوذ)
اشفاق احمد سے معذرت کے ساتھ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).