سی ڈی اے کی زمین پر قبضہ کے پیچھے کارفرما جبلت؟


یہودی ماہر نفسیات ابراہام موسلو کا شمار امریکہ کی تاریخ کے نامور اساتذہ اور محققین میں ہوتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں تباہی و بربادی کے بعد انسانی نفسیات پر اس کی تحقیق پڑھنے کے لائق ہے۔ موسلو نے انسانی نفسیاتی اور مادی جبلتوں کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے :۔

1) :۔ سب سے پہلے آتی ہیں جسمانی اور جنسی ضروریات۔ روٹی، پانی اور نفسانی ضروریات کے حصول کے لئے انسان کسی حد تک بھی جا سکتا ہے اور جائز کی بجائے ناجائز ذرائع کے استعمال کو بھی اپنا حق سمجھ کر استعمال کرتا ہے۔ اس بنیادی جبلت کو انسان اور جانوروں میں یکسانیت حاصل ہے۔ اس لئے شہریوں کو خوراک اور خاندان بنانے کے مواقع ملتے رہنا معاشرہ کا توازن قائم رکھنے کے لئے بنیادی عنصر ہے۔

2) :۔ پھر آتا ہے احساس تحفظ یعنی نوکری یا کام دھندہ ہو اور قانون کی عملداری کا یقین۔ پہلی جبلت کے پورا ہونے کے بعد یہ خواہش انسان کے اندر سر اٹھانے لگتی ہے کہ اس کو ان ذرائع کی فراہمی کا تسلسل قائم رہے۔ لہذا نوکری، کاروبار کے مواقع ملتے رہنا معاشروں کو راہ راست پر قائم رکھتا ہے ورنہ ان کے حصول کے لئے افراد معاشرہ کے طے کردہ اصولوں کو تہ و بالا کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔

3) :۔ تیسرے نمبر پر آتا ہے ایک دوسرے سے باہمی میل ملاپ، اجتماعی پروگرام، سوشلائزنگ، فرینڈز سرکل۔ ایک دوسرے سے ملنا، اجتماعی پروگرام منعقد کرنا، باہمی تعاون سے اجتماعی مقاصد کو حاصل کرنا صرف انسانی جبلت کا ہی خاصہ نہیں ہے بلکہ جانوروں اور حشرات میں بھی یہ جبلت پائی جاتی ہے۔ چیونٹیوں، شہد کی مکھیوں کا ایک سسٹم کے تحت خوراک کا حصول، پھولوں سے رس چوس کر شہد بنانے کے عمل اس جبلت کی جانوروں میں موجودگی کی مثال ہیں۔

4) :۔ چوتھے نمبر پر سب سے اہم اور تباہ کن انسانی ضرورت ہے عزت نفس، چودھراہٹ، ”میں“ احساس برتری (یا کمتری) ، اعتماد یا اوور کانفیڈینس کا احساس۔ یہ وہ جبلت ہے جس سے جانوروں میں صرف درندے ہی فیض یاب ہوتے ہیں۔ انسانوں کی طرح شکار کرنے والے درندوں میں بھی یہ جبلت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے علاقہ میں دوسرے کی مداخلت برداشت نہیں کرتے اور اپنا علاقہ پر اپنا قبضہ برقرار رکھتے ہیں۔ جانوروں میں یہ جبلت تو صرف خوراک اور اپنی مادہ پر اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے موجود ہوتی ہے مگر انسانوں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو سی ڈی اے کی زمین پر قبضہ کرنے کے واسطہ غریبوں کو مار بھگانے کے لئے تشدد کرتے ہیں اور الٹا ان کو گرفتار کروانے میں ناکامی پر آئی جی بھی تبدیل کروا دیتے ہیں۔

5) :۔ سب سے آخری جبلت کسی جزاء یا انعام کے بغیر دوسرے بنی نوع انسان کے لئے خالصتاً کچھ کر دکھانے کا جنون ہے۔ یہ وہ وصف ہے جو صرف انسانوں کے پاس ہوتا ہے اور وہ اپنے دوسرے ہم جنسوں کی فلاح و بہبود اور انہیں انسانی جبلت کی پہلی تین ضروریات کی فراہمی کے لئے بے لوث کوششیں کرتے ہیں۔ جیسا کہ ایدھی مرحوم تھے یا ڈاکٹر روتھ مارتھا فوُ نامی جرمن خاتون ڈاکٹر جو کوڑھ کا علاج کرنے پاکستان آئی اور پھر اس دھرتی کی جوگن بن کر رہ گئی۔ ان دونوں سمیت ایسے بے شمار لوگ اور بھی ہیں جنہوں نے پوری زندگی بس دیا ہی دیا اور کبھی کچھ نہیں لیا۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اخلاقی بگاڑ کی حالت پاکستانی معاشرہ میں زندگی کے ہر شعبے میں تباہ کن ہو چکی ہے۔ اجتماعی معاملات میں امانت، دیانت، صدق، عدل، ایفاے عہد، فرض شناسی اور ان جیسی دیگر اعلیٰ اقدار ہمارے یہاں کمزور پڑتی جارہی ہیں جبکہ مغربی معاشروں میں یہ روایات انفرادی و نجی اخلاقی گراوٹ کے باوجود بھی وہ معاشرے اجتماعی خوبیوں سے مالا مال ہیں۔ ہمارے یہاں کرپشن اور بدعنوانی ناسور کی طرح معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے۔ ظلم و نا انصافی کا دور دورہ ہے۔ لوگ قومی درد اور اجتماعی خیر و شر کی فکر سے خالی اوراپنی ذات اور مفادات کے اسیر ہوچکے ہیں۔ یہ وہ صورت حال ہے جس پر ہر باشعور شخص کف افسوس ملتا ہوا نظر آتا ہے۔

ہمارا یقین ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے، لیکن ہمیں ایک لمحے کے لئے رک کر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ انسان کو جانوروں سے ممتاز کرنے والی جبلت کسی جزاء یا انعام کے بغیر دوسرے بنی نوع انسان کے لئے خالصتاً کچھ کر دکھانے کا جنون ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جانور صرف اور صرف اپنی جبلت کے تابع ہوتے ہیں مثلاً جب کسی جانور کو بھو ک لگتی ہے تو اس کے لئے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔ اس کے برعکس ایک انسان زندگی کے ہر معاملے میں کچھ مسلمہ اخلاقی حدود کا لحاظ رکھتا ہے۔ وہ جب اپنی کسی ضرورت کو پورا کرنا چاہتا ہے تو اس کی اخلاقی حس اسے خبردار کرتی ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے لئے کوئی غلط راستہ اختیار نہیں کرسکتا۔ تاہم جب انسان کی اخلاقی حس کمزور ہوجاتی ہے تو وہ صحیح اور غلط کی تمیز کھونے لگتا ہے۔ وہ ایک جانور کی طرح ہر کسی کے کھیت کھلیان میں گھس جاتا ہے۔ وہ اپنی ضرورت کے لئے ہر جائز و ناجائز راستہ اختیار کرلیتا ہے۔ ایسا رویہ اختیار کرنے والوں کے سفلی جذبے آہستہ آہستہ ان پر غلبہ پالیتے ہیں۔ جس کے بعد انسانوں کے معاشرے میں جنگل کا قانون رائج ہوجاتا ہے اور آخر کار پوری قوم تباہی کا شکار ہوجا تی ہے۔

قوموں کی تاریخ پر نظر رکھنے والے عظیم مسلمان عالم ابن خلدون نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ”مقدمہ“ میں لکھا ہے کہ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے، جبکہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پزیر ہوجاتی ہے۔ ابن خلدون نے جوبات کہی ہے، آج کے حقائق بھی اسے بالکل درست ثابت کرتے ہیں۔ اور یہ عام مشاہدہ ہے کہ عصرحاضر میں جو اقوام عروج و ترقی میں سب سے آگے ہیں، وہ مسلمہ اخلاقی اقدار کی پابندی میں بھی مثالی رویے کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ جبکہ اہل پاکستان جیسی اقوام جو ترقی کی دوڑ میں تقریبا ”سب سے پیچھے ہیں، وہ سی ڈی اے کی 5 / 6 کنال زمین پر قبضہ کرنے کے لئے اخلاقی اقدار کو تہہ و بالا کر دینے جیسے بدترین انحطاط جیسی جبلت کا شکار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).