صحافتی پکوڑہ ہاؤس


آج کل ”ہم سب“ پر ناقابل اشاعت مضامین بہت زیادہ تعداد میں چھپتے نظر آ رہے ہیں چلو کوئی تو ایسا فورم بھی ملک میں موجود ہے جو آزادی اظہار اور حقیقت پسندی کی ترجمانی کر کے ان مضامین کو شائع کر کے عوام تک پہنچا رہا ہے۔ صحافتی حالت زار اور آزادی اظہار کے لیے ہمیشہ سے اس ملک میں آواز اٹھتی رہی ہے۔ جمہوری حکومتوں سے لے کر غیر جمہوری ادوار میں صحافی برادری کا گلا گھونٹ کر آواز دبانے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔

صحافتی برادری کی طرف سے کبھی ویج بورڈ ایوارڈ کے حصول کے لیے، تو کبھی جبری رخصتوں کے خلاف، تو کبھی تنخواہوں کی عدام ادائیگیوں کی وجہ سے پوری ملک سے صحافیوں کے قافلے پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے سامنے ”ظلم کے ضابطے ہم نہیں مانتے“ کے نعرے بلند کرتے نظر آتے رہے ہیں اور ہر دفعہ نئے وعدوں اور فوٹو سیشنز کے بعد صحافی پردیسی پرندوں کے طرح اپنے اپنے علاقوں کو واپس لوٹ جاتے ہیں۔ ویج بورڈ ایوارڈ کی طویل جدوجہد کے باوجود بھی صحافیوں کو تحفظ نہیں مل سکا۔

ایک طرف آزادی اظہار پر قدغن لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف سینکڑوں کی تعداد میں میڈیا ورکرز کو نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے۔ ایک طرف نئی حکومت نئے پاکستان میں آئے روز نئے نئے معاملات میں الجھن کا شکار نظر آتی ہے تو دوسری طرف حکومت مخالف سیاسی قیادتیں اپنے اپنے مصلحتوں میں گم نظر آتی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پیمرا اور پریس آف پاکستان کو ختم کر کے ایک نئی ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس سے بہت جلد ہی ویج بورڈ ایوارڈ کا گلا بھی گھونٹ دیا جائے گا۔

یہ ارب پتی میڈیا مالکان بھلا کیوں ترس کھائیں گے ان غریب صحافیوں پر ان کو تو صرف اپنے بزنس سے ہی مطلب ہے۔ کبھی تو وہ حکومت سے ٹیکس کی چھوٹ چاہتے ہیں تو کبھی نئے نئے اشتہارات، تو کبھی پرانی ادائیگیوں کی وصولی۔ ایسے میں میڈیا ورکرز کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہونے سے ان کو کوئی غرض نہیں۔ الیکٹرانک میڈیا سے لے کر پرنٹ میڈیا تک خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ہر کسی کو بس اپنی نوکری کی فکر ہے۔ ویسے بھی بڑے بڑے اینکرز صاحبان کو تو ہمیشہ سے بڑی بڑی تنخواہیں اپنے وقت پر مل جاتی ہیں بھلا وہ کیوں ان چھوٹے موٹے صحافیوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کریں گے اور ویسے بھی یہ چھوٹے ورکرز بہت کم تنخواہ کے باوجود ہمیشہ سے ہی تنخواہ کے انتظار میں قرض لیتے لیتے غربت کے گول چکر میں پھنسے رہتے ہیں۔

اب جب کہ یہ بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز اپنے ریجنل بیوروز کو بند کر کہ اپنے ہیڈ آفسز سے بھی لوگوں کو نکال رہے ہوں اور علاقائی اخبارات اور چپنیلز اپنے میڈیا ورکرز کو نوکریوں سے فارغ کر رہے ہوں اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے نوٹس کے باوجود بھی اگر حالات بد سے بدتر ہو جائیں تو ایسے میں کون کرے گا میڈیا ورکرز کے حقوق اور آزادی اظہار کا تحفظ جس سے صحافتی برادری معاشی خستہ حالی اور ذہنی بیماری کا شکار ہوتی نظر آ رہی ہے۔

جب فیڈرل یونین آف جرنلسٹ سمیت تمام صحافی نمائندہ تنظیمیں دھڑوں میں بٹی ہوں اور اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہی ہوں تو ایسے میں پھر یقیناً پارلیمنٹ کے سامنے صحافی احتجاج کرتے ہوئے پکوڑہے بناتے ہی نظر آئیں گے بلکہ وہ دن دور نہیں جب مجبوراً وہ اپنے بچوں کے لیے روزی روٹی کمانے کے لیے اصل میں پکوڑے بناتے نظر آئیں گے۔ یہ 90 کی دہائی کے بات ہے کہ اس وقت بھی صحافیوں کی اس سے ملتی جلتی صورتحال تھی ایک اردو اور انگریزی روزنامے کے مالک مرحوم ملک صاحب نے میری ایٹ ہوٹل اسلام آباد میں ایک کانفرنس کا انقعاد کیا جس میں سیاسی، صحافتی اور غیر ملکی سفیروں کو مدعو کیا گیا تاکہ میڈیا ورکرز کے مسائل کو حل کیا جائے۔ وہاں پر جب تقاریر ہوئیں تو کسی صحافی نے کہا کہ ایک طرف تو صحافیوں کا معاشی قتل عام کیا جا رہا ہے اور ان کو دینے کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں اور یہاں پر لاکھوں روپوں کا دسترخوان سجایا گیا ہے اس لیے یہاں پر جو بھی کھانا کھائے گا سجھو وہ صحافیوں کا خون چوسے گا اس کے بعد نواب زادہ نصراللہ اور مخدوم امیں فہیم سمیت کئی شخصیات نے کھانا نہیں کھایا۔

بعد میں پتہ چلا کہ ملک صاحب نے اس کانفرنس کی مد میں غیر ملکی سفیروں سیمت کئی ملکی شخصیات سے چندہ وصول کر اپنی جیب گرم کی تھی۔ ایک وقت تھا جب صحافتی حلقوں میں لوگ اپنے نقطہ نظر اور نظریات کی وجہ سے دائیں اور بائیں بازو کے نام سے جانے اور پہچانے جاتے تھے مگر اب تو صرف فائدہ اور گروپ بندی کی وجہ سے لوگ جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ سیمت کئی تنظمیں اپنے اصل نقطہ، صحافیوں کے حالت زار اور اظہار رائے کی آزادی کی اصل روح سے دور جاتی نظر آ رہی ہیں۔

اگر میڈیا مالکان، حکومت اور مفاد پرست ٹولوں کا آپسی گٹھ جوڑ ہو تو ایسے میں صحافیوں کا معاشی قتل نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا ایسے میں آزادی اظہار پر سودے بازی ہی ہوگی۔ اگر اس ملک میں عوام کی حالت زار اور جمہوریت کا آئینہ دکھانے والے جب اپنی بدحالی اور ذہنی کشمکش کا شکار ہوں گے تو پھر اس بے چاری عوام اور کمزور جمہوریت کا کیا مستقبل ہوگا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).