بلوچستان میں یہ اچھی حکمرانی کیسی


باسٹھ ارب روپے کے خسارے کا بجٹ میں لپٹے ہوئے صوبے بلوچستان میں دو ماہ بعد تک ’شفافیت ہمارا منشور‘ کی آواز بالآخر دم توڑتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ بلوچستان میں نئی صوبائی حکومت کی تشکیل کے بعد حکومت نے عوامی سطح پر یہ تاثر دینے کی تگ و دو شروع کر دی تھی کہ اب گزشتہ ادوار کی طرح حکمرانی کی سوچ تک صوبے میں قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ سرکاری ملازم ہو یا عوام۔ کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ صوبے کے سیاسی و انتظامی معاملات ماضی کے طرز پر چلائے جائیں گے۔

اگر چہ ابھی چھہ ماہ قبل اقتدار سے الگ ہونے والے قوم پرست جو پانچ سال تک صوبے میں برسراقتدار رہے، نے اقتدار کی سیڑھی پر پاؤں رکھتے ہوئے عوام کو مخاطب کیا تھا کہ نواب رئیسانی کی حکومت کرپٹ تھی صوبے اب میرٹ پر کام ہو گا۔ لیکن میرٹ تو دور حق دار کو حق کے وصول کے لئے ترستا رہا۔ جب کہ انھوں نےپانچ سال تک حکمرانی کے مزے لوٹنے ہوئے عوام کو اس نام نہاد نعرے کی مدد سے بے وقوف بنائے رکھا۔ یاداش کے کم زور عوام کے لئے جام کی نئی حکومت شفافیت کے نعرے پر واہ وا نہ کرتی تو کیا کرتی؟ موجودہ حکومت کے شفافیت کے خوش نما نعرے سے عوام نے یک گونہ اطمینان کا سانس لیا کہ شاید اب کچھ بہتری آئے۔ دو ماہ تک تو موجودہ صوبائی حکومت نے اپنے دعوے کی لاج رکھتے ہوئے ایسا کوئی اقدام نہیں کیا جو ان کے دعووں کی تائید کرتا۔

لیکن بالآخر پیر کے روز بلوچستان اسمبلی میں حکومت کی جانب سے غریب صوبے کے سرکاری خزانے سے بھاری تنخواہوں کے عوض وزیراعلیٰ بلوچستان کے خصوصی معاونین کی تعیناتی کا ایکٹ منظور کر کے موجودہ حکومت نے خود شفافیت کے نعرے کو بے بنیاد ثابت کر دیا ہے اور شاید زیر لب یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ماضی کی طرز حکمرانی صوبے کے نظام میں ایسی جڑیں چھوڑ چکی ہے جس کو اکھاڑنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں اس حوالے پیش کیا گیا مسودہ، نا صرف آئین سے متصادم ہے بلکہ ٹیکس ادا کرنے والوں کے پیسے کا زیاں اور صوبے کی معیشت کو نقصان پہنچانے کا مسودہ ہے؛ وہیں اچھی طرز حکمرانی کی راہ میں حائل رکاوٹ بھی ہے۔

گزشتہ دو ماہ کے عرصے میں جام کمال کی سربراہی میں قائم حکومت بلوچستان کے حکومتی ارکان اسمبلی نے یہ قانون منظور کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یا تو اسمبلی میں موجود لوگ حکومت کے معاملات چلانے کے اہل نہیں ہیں، یا پھر یہاں پر نسل در نسل صوبے میں کرپشن میں حصہ دار طاقت ور ترین لوگوں کو نظام سے دور نہیں رکھا جا سکتا۔ چاہے وہ منتخب ہوئے ہوں یا نہیں۔ یہاں اس پر بھی بحث شروع ہوئی کہ 18 ویں ترمیم جس میں آئین کے آرٹیکل (6) 130 کے تحت وزیر اعلی کو وزرا اور مشیر رکھنے کا جو اختیار تفویض کیا گیا ہے، جو کہ قومی اسمبلی سے ایک بل کی صورت میں 342 ارکان میں سے دو تہائی اکثریت یعنی 228 ارکان اور سنیٹ کے 104 ارکان کی دو تہائی اکثریت 77 ارکان نے کثرت رائے سے منظوری دی تھی، کو بلوچستان اسمبلی نے ایک ایکٹ کے تحت ختم کرنے کی آئین سے متصادم اقدام اٹھایا ہے؛ قومی اسمبلی سے منظوری ہونے والے بل کو قانونی طور پر صوبائی اسمبلی کا ایکٹ ختم نہیں کر سکتا، جب کہ ایکٹ کو بل ختم کر سکتا ہے۔ کیوں کہ بل کو منظوری کرانے کے لئے دو تہائی اکثریت ضروری ہوتی ہے۔

اس منظور ہونے والے ایکٹ میں ایک معاون خصوصی کی تنخواہ گریڈ 20 کے افیسر کے برابر رکھی گئی ہے جو کہ سیکرٹری کے عہدے کا ہوتا ہے یعنی کل مراعات کے ساتھ ایک معاون دو لاکھ روپے سے زائد تنخواہ وصول کرے گا جو کہ ملک سب سے بڑی کابینہ کے اعزاز اپنے سر کرنے والے نواب محمد اسلم خان رئیسانی کے 64 رکنی کابینہ کے وزیر جس کی ماہانہ تنخواہ 58 ہزار روپے تھی سے تین گنا زیادہ ہو گی۔ در اصل اس ایکٹ کا اصل مقصد ان لوگوں کو حصہ داری دینا ہے۔ جنھوں نے الیکشن کے دوران دل کھول کر پیسا لگایا۔ ان لوگوں کو عہدے دے کر خوش کیا جائے گا یا پھر با الفاظ دیگر ان کا منہ بند کیا جائے گا جو کہ حکومت کے لئے کسی نہ کسی طرح مسائل پیدا کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔

برسراقتدار بلوچستان عوامی پارٹی کے بانی اور سابق سینیٹر سعید احمد ہاشمی پارٹی سے اس بات پر ناراض ہیں کہ ان کو حکومت میں نا ہی کوئی عہدہ دیا گیا ہے نا ہی ان کی گزشتہ پندرہ سال سے خواتین کے لئے منتخب نشستوں پر رکن اسمبلی منتخب ہونے والی اہلیہ رقیہ سعید ہاشمی کو خواتین کے کوٹے پر ایم پی اے یا ایم این اے بنایا گیا ہے اور نا ہی ان کے بیٹے سید حسنین ہاشمی کو معاون خصوصی بنایا گیا ہے۔ جس کا تینوں مطالبوں میں سے ایک مطالبہ حکومت نے حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ان کے بیٹے کو معاون بنانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔

اس ضمن میں بظاہر تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ محکمے وزیراعلیٰ کے پاس ہی رہیں گے، جب کہ یہ لوگ صرف نام کے ہوں گے۔ در حقیقت ایسا نہیں ہے۔ جب عہدے تقسیم کیے جائیں گے تو ان لوگوں کو حکومت بلوچستان کی طرف سے سرکاری دفاتر گاڑیاں و دیگر مراعات بھی دینا پڑیں گی۔ جب کہ ہر فائل بھی ان کی منظوری ہی سے وزیراعلیٰ بلوچستان کو ارسال کی جا سکے گی۔ یہاں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں ایک بنچ سندھ کابینہ میں مشیروں کی تقرری کے خلاف مولوی اقبال حیدر کی درخواست پر فیصلہ دے چکی ہے۔ جس میں عدالت نے حکم دیا تھا کہ معاونین خصوصی کی تعیناتی غیر آئینی اور غیر قانونی ہے جس کے بعد سندھ حکومت نے تمام تر معاونین خصوصی سے محکمے واپس لے لئے۔

اب یہی کچھ بلوچستان میں دُہرائے جانے کا امکان ہے۔ بعض لوگوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ تا دم تحریر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت بلوچستان 8 معاونین خصوصی جن مین دو فوکل پرسن ہوں گے ۔ تعینات کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کی تعیناتی عمل میں لائی جا رہی ہے کیا وہ پی ایچ ڈی یا ایم فل کرچکے ہیں؟ یا ان کے استعداد کے برابر کوئی رکن اسمبلی کابینہ یا حکومتی جماعتوں کے پاس نہیں ہے؟

اگر حکومت نے اپنے فیصلے اور وزیراعلیٰ نے اپنے منصب کو بچانے کے لئے اس فیصلے پر نظر ثانی نہ کی تو عین ممکن ہے کہ تاریخ ان کی تبدیلی کے دعوؤں کو غلط ثابت کر دے اور اس اقدام کے بعد اسے سمجھوتا کرنے والے وزرا اعلی بلوچستان کی صفوں لا کھڑا کرے۔ صوبے میں پہلے ہی غیر ترقیاتی اخراجات خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ تنخواہیں۔ مراعات اور پینشن کے مد میں صوبہ سالانہ 426 ارب روپے کی خطیر رقم کا خرچ اپنے ناتواں کندھوں پر پہلے سے برداشت کر رہا ہے۔

صوبے کا ترقیاتی بجٹ پہلے سے ہی خسارے کا شکار ہے۔ پی ایس ڈی پی میں نئے منصوبے کھٹائی کی نذر ہو رہے ہیں جس سے صوبے میں معاشی ترقی اور زر کی ترسیل اور گردش روک رہی ہے۔ اگر موجودہ حکومت صوبے کو معاشی طور پر بالکل ہی معذور کرنا چاہتی ہے تو الگ بات ورنہ اس قسم کے فیصلوں سے اجتناب ہی میں اس حکومت کی بقا ہے۔ وگرنہ بہتری تو درکنار، کرپشن اور بد انتظامی کے سابق رِکارڈ بھی ٹوٹ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).