مولوی خادم حسین کی دکھ بھری داستان



ویسے تو مولویوں کے اسلام کی پاکستانی تاریخ بہت کم سانحات سے بھری ہے لیکن خادم حسین کے ساتھ میری تمام ہمدردیاں اس لیے ہیں کہ ان کی باری آنے تک ہماری سرکار نے ”بس کھیل ختم“ کا نعرہ لگا کر ان کی تازہ ترین فُل مسالا مووی کا میڈیائی بائیکاٹ کر ڈالا۔ بھلا کوئی ایسے بھی کرتا ہے؟ جو بیج قیام پاکستان کی بنیادوں میں ڈالے گئے ان سے بننے والے درخت کا پھل کڑوا ہی سہی لیکن اخ تھو کرکے اگلنے کی گنجائش کب ہے؟ یہ بات تو خیر سرکار کے سمجھنے کی ہے میرا موضوع تو خادم حسین رضوی اور ان کی بے بسی ہے۔

سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ خادم حسین کے لیے کئی سانحات کا باعث بنا۔ ارے حیران نہ ہوں، پہلے یہ دکھ بھری داستان سن لیجیے مجھے یقین ہے کہ آپ بھی رو پڑیں گے۔ پہلا سانحہ تو یہ کہ اس ”عاقبت نااندیش فیصلے“ کے بعد میڈیا کے سامنے امت مسلمہ کا راہ نما، قوم کا مسیحا اور تحریک کا ہیرو بننے کا دیرینہ رضوی خواب پیمرا نے اس بری طرح توڑا کہ چکنا چور ہی کردیا۔ اب خادم حسین حسرت سے کڑک دار سفید لٹھے کے ان آٹھ دَس جوڑوں کو تک رہے ہیں جو انہوں نے اس فلم کا مرکزی کردار نبھانے کے لیے راتوں رات تیار کروائے تھے؟ پھر جتنا وقت انہوں نے داڑھی کی سیٹنگ کروانے میں لگایا تھا، اتنا وقت تو کبھی انہوں نے اپنے بچوں کے ساتھ بھی نہیں بتایا ہوگا۔

فیصلے کی صبح چار بجے سے ہی اپنے کارکنوں کو جگا کر وہ تقریریں دہراتے رہے جو بڑے بڑے کیمروں کے سامنے کرنے کے لیے تیار کر رکھی تھیں، میڈیا کی چمک دمک کے آگے کسی نوشے میاں کی طرح جلوے دکھانے کی ان کی ساری امیدوں پر سرکار نے پانی پھیر کر کیسا ستم کیا، یہ کوئی خادم حسین کے ٹوٹے دل سے پوچھے۔ کپڑوں کی تیاری پر پارٹی فنڈ ضایع ہوا سو ہوا، زبان و بیان کی مہارت جھاڑنے کا سنہرا موقع الگ ہاتھ سے نکل گیا، یقین جانیے بہت برا ہوا۔ یہ سانحہ ایسا ہے جیسے برسوں کی سفارش کے بعد اداکار کے ہاتھ آنے والی کوئی ڈیبیو فلم اچانک ہاتھ سے نکل جائے۔ یقیناً کسی بھی جینوئین اداکار کے لیے یہ ایک بہت بڑا صدمہ ہوتا ہے۔ بس جناب خادم حسین کا اس بات پر موڈ تھوڑا سا بگڑگیا۔ یہ جو چاروں طرف توڑ پھوڑ ہے یہ بس اسی خفگی کا چھوٹا سا اظہار ہے۔

آسیہ فیصلے کے بعد وہ بے چارے ایک اور سانحے سے بھی گزرے۔ یہ ایسا درد ہے جسے ایک تخلیق کار ہی محسوس کر سکتا ہے، عام فرد کے بس کی تو بات ہی نہیں۔ جانے کتنی راتوں کی سکھ بھری نیند تیاگ کر انہوں نے آ سیہ کی ملعونیت پر جو کھری کھری گالیاں تخلیق کی تھیں، وہ ان سے قوم کو مستفیض نہ کر سکے، ان کی یہ نئی تخلیق ”پین دی سری“ جیسی شہرت تو حاصل کیا کر پاتی، پانی کے بلبلے کی طرح گم نام ہوگئی۔ ان کو آج برا بھلا کہنے والی قوم کو اگر اس کرب کا اندازہ ہو جائے جس سے وہ اس وقت گزر رہے ہیں تو یقین جانیے ہر آنکھ نم ہو جائے۔

میڈیا کی تام جھام کے ذریعے عوام تک پیغام پہنچانے کی خواہش رکھنے کے بدلے ان کے حصے میں کیا آیا؟ آج ان کے اطراف کیمرا مینوں اور صحافیوں کے بجائے وہی پرانا ہجوم ہے جنہوں نے ان کو مولوی خادم حسین بنایا تھا۔ بڑے بڑے کیمروں کی جگہ کارکنان اپنے موبائل کے ننھے ننھے کیمروں سے ویڈیوز بنا کر ان کا دکھ کم کرنے میں جتے ہوئے ہیں لیکن عین وقت پر کسی کے فون کی بیٹری ڈاؤن ہو جاتی ہے یا تقریر کے دوران کسی کا فون بجنے لگتا ہے اور اب تو بے چارے خادم حسین ریکارڈنگ کے دوران ایک ایک جملے کو کئی کئی بار دہرا کر اوب چکے ہیں، لیکن مجال ہے پیمرا کو ان پر ذرا رحم آیا ہو۔

ان کی باری آنے تک ایسا برا وقت بھی آنا تھا۔ وہ جو کیمرے کے سامنے حکومت سے فوج اور عدلیہ سے ایوانوں تک سب کو للکارنے، دھاڑنے اور غرانے کی مشق کر کے بیٹھے تھے اب بیٹھے ہوئے کارکنوں کے موبائل کی بیٹری فل چارج ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، لیکن کارکنوں کی اپنی بیٹری جو ڈاؤن ہونا شروع ہوگئی ہے اس کا حل انہوں نے اب تک نہیں سوچا۔

پاکستان میں مولویت کی تاریخ کا جائزہ لیجیے، اور انصاف سے بتائیے کیا اتنی قابلِ رحم حالت پہلے کسی اور کی دیکھی؟ انہی مولویوں کی چمکتی دکانوں اور بے تحاشا منافع کو دیکھ کر انہوں نے تو تحریک کی بنیاد ڈالی تھی۔ ایک آواز پر لاکھوں کا مجمع سمٹتا انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا لیکن برا ہو برے وقت کا! عقل و شعور کے بھدے ہاتھی کو انہی کی نئی سجی سجائی دکان کے آگے بدمست ہو کے جھولنا تھا کہ آج ان کی تقریروں کے بجائے لوگ حکومت کی بات پر کان دھر کے سر ہلا رہے ہیں۔ خود کو مسترد ہوتے دیکھنا ایک اور بڑا سانحہ ہے جس سے خادم حسین اس وقت گزر رہے ہیں۔

ہیرو بننے اور اگلے انتخابات کے لیے حمایت کمانے کا اب بس ایک ہی موقع بچا ہے۔ دیکھیے اس میں وہ کام یاب ہو پاتے ہیں یا پھر ایک نیا سانحہ ان کو اپنا منتظر ملتا ہے۔ اور وہ یہ کہ حکومتی اداروں سے بزور سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسا ایک اور سانحہ دہروا دیا جائے تاکہ خادم حسین پر بیتے سانحات کا کچھ تو مداوا ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).