فلاح و سلامتی کے ابدی سرچشمے


روزے تو پرانی امتوں پر بھی فرض تھے، مگر سرور کونین حضرت محمدﷺ کی امت کے لیے ماہ رمضان ہمہ پہلو تربیت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام کے نظام زندگی میں اس امر کا خاص اہتمام کیا گیا ہے کہ اللہ پر ایمان لانے والے پورا مہینہ ایک ایسے نظم و ضبط کے ساتھ بسر کریں کہ ان میں صبر کی صفت اس معیار کی پیدا ہو جائے کہ وہ جائز خواہشات پر معین وقت تک قابو پا سکیں۔ انسانوں کے دکھوں کا احساس کر سکیں اور انفاق کے لیے سال بھر تیار رہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے ایمان لانے والو! مصیبت کے وقت اپنے رب سے نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کرو، لہٰذا رمضان کے بابرکت مہینے کے بقیہ حصے میں کورونا پر قابو پانے کے لیے کسی خارجی دباؤ کے بغیر باقاعدگی سے ماسک استعمال کرنا، آپس میں چھ فٹ کا فاصلہ رکھنا اور اجتماعات سے گریز کرنا ہمارا معمول بن جانا چاہیے کہ اپنی اور اپنے عزیزوں کی جانوں کا تحفظ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔

عمرانی علماء کی نظر میں انسان کے اندر اچھے جذبات بالعموم پاکیزہ محبت یا کامل اطاعت یا خوف سے پیدا ہوتے ہیں۔ اسلام جو دنیا میں نیکی پھیلانے اور بدی روکنے کے لیے طلوع ہوا تھا، اس نے مثبت اور منفی دونوں ہی جذبوں کی صحت مند تشکیل کی ہے۔ ہمیں قرآن مجید میں ایک ایسے رب کا تصور ملتا ہے جو تمام جہانوں کا خالق، مالک اور پروردگار ہے اور اس کی نظر سے کوئی راز پوشیدہ نہیں۔ وہ سمیع بھی ہے اور بصیر بھی اور علیم و خبیر بھی۔

وہ دعائیں سنتا اور ان کا جواب بھی دیتا ہے۔ اس نے ہر شخص پر دو فرشتے تعینات کر رکھے ہیں جو اس کی ہر حرکت کی تصویریں کھینچتے رہتے ہیں۔ سورہ الجمعہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے امیوں کے اندر ایک رسول حضرت محمدﷺ انہی میں سے اٹھائے جو انہیں اس کی آیات سناتے، ان کی زندگی سنوارتے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس پورے نظام فکر میں اللہ سے محبت ایک روح رواں کی حیثیت رکھتی ہے، چنانچہ اللہ کے ساتھ تعلق مضبوط رکھنا انسان کی معراج قرار پایا ہے۔ اس سے محبت کا لازمی تقاضا نبی آخرالزماں حضرت محمدﷺ کی مکمل اطاعت اور فرمانبرداری ہے کہ آپ ﷺ کی ذات والا صفات محبوب خدا، محسن انسانیت اور رحمۃ للعالمین ہے۔

مسلمانوں کے لیے اپنے رب کے احکام کی پیروی اور ان اوصاف کی پرورش حد درجہ ضروری ہے جو وہ اپنے بندوں کی زندگی میں دیکھنا چاہتا ہے۔ قرآن و سنت میں ان صفات کا بار بار ذکر آیا ہے جو رحمٰن کے بندوں میں ہونی چاہئیں۔ وہ انہیں نیک، راست باز، فراخ حوصلہ اور انصاف پسند دیکھنا چاہتا ہے۔ ان کے اندر ایسی اخلاقی جرأت اور کردار کی قوت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے خلاف بھی سچی گواہی دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ وہ آنکھ اور کان کے زنا سے بھی محفوظ رہتے ہوں اور اعتدال اور کفایت شعاری کی زندگی بسر کرتے ہوں۔ غریبوں کے کام آتے اور یتیموں اور مسکینوں کا سہارا بنتے ہوں۔ خدائے بزرگ و برتر ایک ایسے معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے جو عدل، انصاف اور احسان پر قائم ہو اور اس میں نیکیوں کی بہار خزاں سے ناآشنا رہے۔

اسلام نے اللہ سے لازوال محبت کے ساتھ ساتھ خوف آخرت کا بھی ایک انقلاب انگیز تصور پیش کیا ہے۔ قرآن مجید میں خدائے علیم و خبیر نے انسان کے دوبارہ اٹھائے جانے کی اٹل حقیقت کے بارے میں ذہنوں کو مسخر کرنے والے نہایت مضبوط دلائل تواتر کے ساتھ پیش کیے ہیں اور یہ واضح کیا ہے کہ آخرت میں سزا اور جزا کا نظام دنیوی نظام کے مقابلے میں زمان و مکان کی حدود و قیود سے آزاد ہو گا۔ وہ لوگ جو دنیا میں انسانوں پر ظلم ڈھاتے اور اپنے اثر و رسوخ سے احتساب سے بچتے رہے، انہیں کڑی سزائیں دی جائیں گی۔

وہ لوگ جو اپنی نیکیوں کا صلہ دنیا میں نہیں پا سکے، انہیں بہشت میں اچھی جگہ دی جائے گی۔ وہ لوگ جو غذاؤں اور دواؤں میں ملاوٹ کر کے لاکھوں انسانوں کی موت یا مہلک بیماریاں پیدا کرنے کا باعث بنتے رہے اور مافیا کی صورت میں ہر گرفت سے محفوظ رہے، آخرت میں جب ان کے جسم دہکتی آگ میں ڈالے جائیں گے، تو ان کے دھاڑنے کی خوفناک آوازیں آئیں گی اور ان کے عذاب میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اسی طرح عوام کے حقوق سے صرف نظر کرنے والے حکمران بھی کڑے احتساب کی زد میں آئیں گے۔

تب ہر شخص کے سارے اعضاء اس کے خلاف گواہی دیں گے اور کوئی انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا نہیں ہو گا۔ تب رشوت چلے گی نہ سفارش اور کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ خوش قسمتی سے ہم رمضان المبارک کی سعادتوں سے فیض یاب ہو رہے ہیں، تو ہم پر لازم آتا ہے کہ توبہ و استغفار اور شبانہ روز عبادت اور تزکیۂ نفس کے ذریعے اللہ کے ساتھ گہرا تعلق پیدا کریں اور اپنے وجود میں خوف آخرت پوری طرح جاگزیں رکھنے پر خصوصی توجہ دیں۔

حب اللہ، اطاعت رسول ﷺ ، یوم آخرت پر ایمان اور احترام انسانیت کے ابدی سرچشمے فلاح و سلامتی کے چمن سیراب کرتے رہیں گے اور دل کے اندر سے انسانوں کے تحفظ کی امنگ اٹھے گی۔

رمضان المبارک اہل پاکستان کے لیے بطورخاص ایک بیش بہا تحفہ ہے کہ یہ مملکت اس نور سے معمور مہینے میں تخلیق ہوئی تھی۔ اس کی پیدائش میں شب قدر کی جلوہ آرائیاں شامل ہیں۔ خوش بختی سے ہمارے عزیز وطن میں بڑی تبدیلیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت میں اہل عزم نے آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کی جنگ جیت لی ہے۔

رحمت و مغفرت کے اس مہینے میں ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جناب بشیر میمن نے جو شہادت حق ادا کی ہے، اس پر ہماری اعلیٰ عدالتیں، سیاسی جماعتیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی کی مقتدر طاقتیں ان فرعون صفت ارباب اختیار کا کڑا احتساب کریں اور سیاسی انتقام اور طاقت کے ناجائز استعمال کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دینے کا کلچر قائم کریں۔ کورونا وائرس کے بعد ایک نئی دنیا وجود میں آنے والی ہے جس میں فلاح و سلامتی کے ابدی سرچشمے انسانیت کے پاکباز جذبوں کو سیراب کرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments