موت کا کنواں


طرح طرح کے نُسخے آزمائے، رنگ برنگے وظائف حرزِ جاں بنائے، نِت نئے نظام چلائے، لیکن خُدا جانے آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے، بات نہیں بن پا رہی، یہ سنگ ڈھلانوں پہ ٹھہرنا چاہتا ہے، ٹھہر نہیں پا رہا، یہ ایسا قافلہ ہے جو کہیں نہیں جا رہا۔

ہم کاغذ پر بے عیب نظام بناتے ہیں، جب اس پر عمل کرتے ہیں تو کچھ خلا نظر آتے ہیں، اُس کو پُر کرتے ہیں اور پُورے اخلاص سے اِصلاح کی کوشش کرتے ہیں، لیکن پھر کچھ گڑبڑ ہو جاتی ہے، تنگ آ کر ہم وہ کاغذ ہی پھاڑ دیتے ہیں، دوبارہ الف سے شروع کرتے ہیں، پھر وہی کہانی، جیسے بچے ایک ہی کہانی بیسیوں بار اُسی دل چسپی سے سُنتے ہیں ہم بھی سُن رہے ہیں، ہم بڑے ہی نہیں ہو پا رہے۔ مارکیز کے شہر ’ مکونڈو ’ کی بارش یاد آتی ہے، ایک پل کے وقفہ کے بغیربرس ہا برس تک مسلسل بارش جس میں سب کچھ بھیگ جاتا ہے، گھر، راستے، اناج، انسان اور اُن کے خواب۔

دُنیا بھر میں حکومتیں اور اِدارے قوانین بناتے ہیں، اور کچھ عناصر اُن قوانین میں نقب لگاتے ہیں۔ ٹیکس کے معاملات ہوں یا امیگریشن کے، کالے دھن کی پکڑ ہو یا کریڈٹ کارڈ فراڈ سے نبٹنے کے طریقے، ہر طرف یہ مقابلہ جاری ہے۔ تاریخِ اقوامِ عالم میں کچھ ایسا ہی محاربہ نظام ہائے سیاست و مملکت کو بھی درپیش رہا ہے اوردرجنوں ممالک کو آج بھی اسی صورتِ احوال کا سامنا ہے۔

1956 کے آئین کے تحت ملک میں ’ ایک فرد ایک ووٹ‘ کی بنیاد پر انتخابات ہونے تھے اور پارلیمانی نظام رائج ہونا تھا، لیکن 1958 میں آئین ٹوٹ گیا۔ 1962 کے آئین نے صدارتی نظام اختیار کیا اور بالغ حقِ رائے دہی کا طریقہ منسوخ کر کے ’ الیکٹورل کالج‘ کی بدعت ایجاد کی گئی۔ یہ آئین 1969 میں ٹوٹ گیا۔ 1973 کے آئین نے ملک میں پارلیمانی نظام رائج کیا۔ 1977 میں یہ آئین بھی ٹوٹ گیا۔ تکرار کے خوف سے اس کہانی کو یہیں روک دیتے ہیں۔ فاسٹ فارورڈ کرتے ہوئے اٹھارہویں ترمیم پہ آ جائیے۔ اس کثیر الجہات آئینی ترمیم پہ بہت شادیانے بجائے گئے جس سے اٹھارہ ڈویژن اور وزارتیں اور اُن کے لئے مخصوص فنڈ بھی مرکز سے صوبوں کو منتقل ہو گئے تھے، اس ترمیم کو تہتر کے آئین کی روح کے مطابق صوبائی خود مختاری کی طرف فیصلہ کُن قدم قرار دیا گیا۔ آج آٹھ سال بعد شنید یہ ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے اس پہلو پہ ملک کے فیصلہ ساز حلقوں کے تحفظات میں اضافہ ہو چکا ہے۔ (ٹریڈ مل پر میلوں بھاگنے والابہرحال رہتا وہیں کا وہیں ہے )

نگران حکومتوں سے متعلق قانون سازی کا قصہ بھی سُن لیجیے۔ 1990 میں بے نظیر حکومت توڑی گئی تو اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کے لیڈرغلام مصطفیٰ جتوئی کو نگران وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی دہائی دیتی رہ گئی۔ ماضی کے ان تجربات سے سیکھتے ہوئے آخر کار سیاست دانوں نے باہمی اتفاقِ رائے سے غیر جانب دار نگران سیٹ اپ مقرر کرنے کا ایک مہذب طریقہ کار وضع کر لیا اور آئین کی دفعہ 224 کے بعد اس سلسلہ میں کسی مسخرہ پن کی گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔ قوم مطمئن ہو گئی کہ آئندہ کسی فریق کو انتخابی عمل پہ انگلی اُٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔ غیر جانب دار الیکشن کمشنر لگانے کا اصول طے کیا گیا، نیب کا سربراہ لگانے کا شفاف کلیہ وضع ہوا، اپوزیشن لیڈر کو پارلیمنٹ میں پی اے سی کا سربراہ لگانے کی روایت ڈالی گئی۔ یہ تمام پیش رفت بظاہرتو انتہائی مثبت نظر آتی تھی لیکن آج پھر ہم ان اداروں کی ساکھ بارے بٹے ہوئے ہیں۔ سیاسی فریقین کیوں اس معاملے میں یک سُونہیں ہیں، یہ کہانی کیا دہرانی۔ (موت کے کنویں میں موٹر سائیکل پہ ہزاروں میل سفر کرنے والے کی منزل کہاں ہے؟)

اس صورت حال میں کیسے آگے بڑھیں؟ سانپ اور سیڑھی کے اس کھیل کو کیسے خیرباد کہا جائے؟ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ جن ممالک کو ہم ترقی یافتہ کہتے ہیں اُن میں کیا قدر مشترک ہے؟ کیا دنیا کی کوئی ریاست مبادیات طےکیے بغیر آگے بڑھ سکی ہے؟ آسان لفظوں میں یہ کہہ لیجیے کہ دنیا میں اس وقت کوئی ایک ریاست بھی ایسی نہیں ہے جس نے ستّر سال میں سات مرتبہ اپنے ملکی آئین کی روح یک سر بدلی ہو اورآج وہ ترقی یافتہ ملک کہلاتا ہو۔ وہ ریاستیں جہاں چند بنیادی اصولوں پہ اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے وہ بجلی، پانی اور ’خالی خزانہ‘ جیسے مسائل سے کوسوں دور نکل آئے ہیں۔ کچھ عشرے پہلے ہم ہر چیز میں ہندوستان سے مقابلہ کیا کرتے تھے، آج بنگلہ دیش بھی تعلیم سے برآمدات تک اکثر میدانوں میں ہم سے آگے نکل چکا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حکومت اُن بنیادی اصولوں پہ قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت کا ادراک رکھتی ہے جس کے بغیر کوئی جدید ریاست ترقی کی منازل طے نہیں کر پائی؟ یوں تو وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے کسی حالیہ خطاب میں آئین کی سربلندی، پارلے مان کی بالا دستی، انسانی حقوق اور آزادی اِظہارِ رائے کے حق میں نعرہ زنی نہیں کی لیکن دِل ہی دِل میں وہ یقیناً ان اصول و اقدار کے قائل ہوں گے۔ کیا وقت آ گیا ہے کہ خان صاحب اپنے دل کی بات زبان پر لے آئیں؟ کیونکہ بہرحال سیاسی مخالفین کو للکارنے سے تو قومی اتفاقِ رائے پیدا ہونے سے رہا۔ 1973 کا آئین ہو یا اٹھارہویں ترمیم، قومی اتفاقِ رائے کے بغیر ممکن نہ تھے۔

کسی حکومت کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہمارا انتخابی نظام (First Past the Post) ایسا ہے کہ ہماری ہر حکومت‘اقلیتی‘ حکومت ہوتی ہے۔ خان حکومت کا بھی یہی معاملہ دکھائی دیتا ہے۔ حالیہ انتخابات میں پاکستان کی دو تہائی اکثریت نے پی ٹی آئی کے خلاف ووٹ ڈالا ہے۔ بتیس فی صد ووٹ لینے والی پی ٹی آئی کو یہ حقیقت ہر لحظہ پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ کیا کوئی زِیرک حکومت ملک کی چھیاسٹھ فی صد آبادی کو راندۂ درگاہ اور اُن کے نمائندوں کو گردن زدنی قرار دے کر کسی ایک نکتے پہ بھی قومی اتفاقِ رائے پیدا کر سکتی ہے؟ اکثریت کو کچلنے کی خواہش سے اس ملک نے آج تک کیا فیض پایا ہے؟

کیا واقعی ہم موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلا رہے ہیں کہ ستّر سال سفر کرنے کے باوجود وہیں کے وہیں کھڑے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).