ظلم اور جہل پر اصرار کرو گے کب تک


آسیہ نورین بی بی کے حق میں آنے والے فیصلے کے خلاف علامہ خادم رضوی اور ان کی ہم خیال مذہبی جماعتیں زبردست احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر تھیں۔ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو پاکستانی حکومت اور مقتدر اداروں کے یہود و نصاری سے ملی بھگت اور گھناؤنی سازش کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔ وزیر اعظم، چیف جسٹس اور آرمی چیف پر گھناؤنے اور خطرناک الزام لگا رہے ہیں۔ دو دن سے معمولات زندگی درہم برہم ہیں۔ تعلیمی ادارے بند اور امتحانات کا سلسلہ موقوف ہوچکا ہے۔

جناب وزیر اعظم کو حکومت میں آنے کے بعد ہی سہی اس بات کا ادراک تو ہو گیا ہے کہ اس طرح کے جلسے جلوس، جلاؤ گھیراؤ، دھرنے بازی، دنگا فساد، مار کٹائی، لاقانونیت اور راستوں کی بندش ملک و قوم کے نقصان پر منتج ہوتی ہے۔ اللہ کرے اپوزیشن میں بھی ان کا رویہ ایسا ہی رہے۔ عمران خان یہ اعتراف بھی جلد ہی کر لیں گے کہ انہوں نے شعور و آگہی، سیاسی بصیرت اور سماجی سوجھ بوجھ کے نام پر عوام کو بازاری زبان، سوقیانہ ادائیں، سستی ہیجان خیزی اور رکیک و مبتذل نعرہ بازی کی بدعتیں دے کر معاشرے کی کوئی خدمت نہیں کی۔

جہاں تک آسیہ بی بی کے مقدمے کے فیصلے پر ایک مخصوص طبقے کے ملک گیر احتجاج کا تعلق ہے تو اس کودیکھ کر دلیل و براہین ماتم گسار ہیں، علم حکمت گریباں چاک ہیں، شرافت و نجابت مصروف گریہ ہیں، اخلاق و شعور نوحہ کناں ہیں اور شرف انسانیت و احترام آدمیت کی قدریں زارزار ہیں۔

ختم ہوتاہی نہیں کہرام تیرے شہرمیں
آدمیت ہوگئی نیلام تیرے شہر میں

اپنے پی ایچ ڈی دوست کی پوسٹ دیکھ کر بہت ملول و دل گرفتہ ہوا جس میں انہوں نے لکھا کہ جو آسیہ کو گستاخ رسول نہیں سمجھتا وہ مجھے ان فرینڈ کر دے۔ ہم میں اختلاف رائے برداشت کرنے کا اتنا بھی حوصلہ نہ رہا۔ کسی بھی مسئلے کے بارے میں اہل علم و عقل کی ایک سے زیادہ آرا ہوسکتی ہیں مگر دوسروں کے نقطہ نظر کو یکسر کفر و باطل قرار دینا کہاں کی دانشمندی ہے۔

چمن میں اختلاف رنگ و بوسے بات بنتی ہے
تمہیں تم ہوتوکیاتم ہو، ہمیں ہم ہیں توکیاہم ہیں

آسیہ کو پھانسی پر لٹکانے کا تقاضا کرنے والوں میں اکثریت اس واقعے سے آگاہ ہی نہیں اور نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ آسیہ نے کیاگستاخانہ کلمات کہے۔ عدالت نے ہر طرح سے اطمینان کر لینے کے بعد آسیہ کو بری کیا ہے۔ مگر ہمارے سر بکف مجاہدین مصر ہیں کہ آسیہ کو اس ہستی کی شان میں گستاخی کرنے کے شبہ میں لٹکا دیا جائے جس کو اللہ نے دو جہاں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ یہ بات بھی محل غور ہے کہ کوئی غیر مسلم توہین رسالت کی سزا کا مستحق ہے بھی یا نہیں؟

پاکستان میں تو بے شمار سفاکانہ واقعات ہو چکے ہیں جن میں غیر مسلموں کو محض الزام کی بنیادپر بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ اگر سپریم کورٹ نے آسیہ کوگواہوں اور شواہد کی روشنی میں توہین رسالت کے مقدمے سے بری کیا ہے تو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے یہ خوشی کا مقام ہے کہ نبی کی شان میں گستاخی نہیں ہوئی۔ ہر مذہب اور معاشرے کی تعلیمات ہیں کہ جب تک کسی پر جرم ثابت نہ ہو جائے وہ بے گناہ ہے مگر ہمارے ہاں عجیب رواج چلا ہے کہ ہر بندہ مجرم ہے جب تک وہ اپنی بے گناہی ثابت نہ کر لے۔

اگر اسے بھی گستاخی نہ سمجھ لیا جائے تو دست بستہ عرض کروں گا کہ گستاخی کی تعریف کیا ہو گی؟ اور اگر کسی مسلم یا غیر مسلم نے دانستہ یا نادانستہ کچھ ایسے کلمات ادا کر دیے ہیں تو اس کی جان کا درپے ہونا زیادہ مستحسن اقدام ہے یا اسے اپنا بنا کر اسلام کی حقانیت تسلیم کرنے کی طرف لانا زیادہ بڑا کام ہے تاکہ دنیا کے ساتھ ساتھ اس کی آخرت بھی سنور جائے؟ مگر ایسا کام اس زندہ و بیدار معاشرے میں ہو سکتا ہے جہاں گالی کے بجائے دلیل کی اجارہ داری ہو۔ یہاں تو اکثریت علم و ہنر سے متنفر نظر آتی ہے۔

تو علم و ہنرسے خائف ہے
توروشنیوں سے ڈرتا ہے
آؤ امن کے غارت گر دشمن
تو اس دن سے بھی ڈردشمن
جب تجھ کو تیرے اپنے ہی
بچوں کا دشمن کر دوں گا
تعلیم سے روشن کر دوں گا

میرا علمائے کرام اور واعظان عظام سے ایک اور دردمندانہ سوال ہے کہ اس دنیا کی قریب قریب ساڑھے سات ارب آبادی میں کل ڈیڑھ ارب کلمہ گومسلمان ہیں۔ بقیہ چھ ارب جو ہمارے نبی کا کلمہ نہیں پڑھتے کیا وہ عملی طور پر نبی کی شان میں گستاخی نہیں کر رہے؟ ان گستاخوں کے بارے میں یہ کیا کہتے ہیں؟ میرا ایک طالب علم بھی آسیہ بی بی کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد بھی قابل گردن زنی قرار دے رہا تھا۔ میں نے جان کی امان پا کر استفسار کیا کہ کیا اس نے آسیہ کو گستاخی کرتے دیکھا یا سنا ہے؟

اس کا جواب نفی میں تھا۔ میں نے پوچھا اس کے باوجود آپ اسے لٹکانا چاہتے ہیں؟ میں اس کی فہم و فراست اور راست بازی کو سلام پیش کرتا ہوں کہ اس نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کر لی۔ میں یہی عرض کروں گا کہ نبی کی محبت ایمان کی بنیاد ہے مگر کیا نبی کے نام پرکسی بے گناہ کی جان لینا نبی کی خوشنودی حاصل کرنے کا مستحسن طریقہ ہے؟

ظلم اور جہل پر اصرار کرو گے کب تک
عقل اور فہم سے انکار کرو گے کب تک


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).