پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے۔۔۔


آج بروز منگل 31 اکتوبر ہے۔ تین بجے ریکارڈنگ ٹائم تھا دو بجے گھر سے اپنے چینل ”آپ نیوز“ جانے کے لیے جوہر ٹاون سے پیکو روڈ کی طرف نکلا فیروز پور روڈ پہنچنے والا راستہ بلاک تھا۔ معمول سمجھ کر میں نے راستہ تبدیل کیا ماڈل ٹاون کی طرف اتفاق ہاسپٹل کے پیچھے والی سڑک سے ہوتا ہوا واپس لنک روڈ کی طرف نکل گیا وہاں سے اقبال ٹاون کریم بلاک سے ملتان روڈ کھاڑک نالہ سے بند روڈ پہنچنے کی کوشش کی تاکہ رنگ روڈ تک پہنچوں لیکن بند روڈ بھی مکمل بند تھا۔

میں سبزہ زار کی طرف مڑ گیا اور گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کر کے سستانے لگا۔ دو تین گھنٹوں کی بے کار بھاگ دوڑ نے تھکا دیا۔

میں نے محسوس کیا کہ میرا بدن غصے اور خوف کے مارے کانپ رہا ہے میرا بلڈ پریشر شوٹ کر گیا تھا بے بسی اور بے چارگی کا شدید احساس مجھے اپنی گرفت میں لے چکا تھا خدانخواستہ اگر کوئی ایمرجنسی ہو جائے فرض کریں بیوی یا بچوں کو آپ ہسپتال لے جا رہے ہوں اسی سے مجھے وہ درجنوں ایمبولینسز یاد آ گئیں جو روزانہ ٹریفک ہجوم میں پھنسی نظر آ تی ہیں۔

لیکن آج کونسی قیامت آ گئی ہے شریف برادران تو بے چارے تاریخیں بھگت رہے ہیں اور پنجابی محاورے کے مطابق ”آکھ اچ پئے نہی رڑکدے“ پتہ چلا سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کہ خلاف یہ سب فساد فی الارض بپا ہے۔ پہلی بات جو دل میں آئی وہ یہ تھی
ملا تے مشعلچی دونویں اکو چت۔ جگ میں کریں ہیں چاننا آپ ہنیرے وچ۔

غضب خدا کا، اگر مولویو نے لاہور بند کرا دیا ہے تو پھر سن لیں آبادی میں بے تحاشا اضافہ تعلیم میں بے تحاشا کمی اور بے سمتی، کے نتائج سامنے آ گئے ہیں بلکہ اب ان کا رقص بر ہنہ شروع ہو گیا ہے۔ یہ تو ایک دن ہونا تھا۔ ”جس ملک میں سالانہ 3400 سو افراد کے لیے ایک ڈاکٹر، 3600 سو افراد کے لیے ایک نرس لیکن 225 افراد کے لیے ایک ملا پیدا ہو رہا ہو وہاں یہی ہونا تھا۔

یہ وقوعہ اس ملک میں ہوا جس کا بانی ایک قانون دان تھا۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا ہمیں قانون شکن ہجوم ثابت کرنے کے لیے ناکافی ہے؟

اگر طاقتور گروہوں نے اپنی رائے ہی نافذ کرنی ہے تو پھر سب سے طاقتور تو وردی والے ہیں اور سجدہ شکر ادا کریں کہ وہ طاقت براہ راست نہیں آزماتے صرف سلامتی کے معاملات تک محدود رہتے ہیں خدا نہ کرے اس ملک کی سلامتی ان جتھوں اور گروہوں کے ہاتھ آئی پھر یہاں خون کے دریا بہیں گے اور سروں کے مینار بنیں گے۔

یہ لوگ اس خطے کی تاریخ سے ناواقف ہیں یہاں اسی پنجاب لاہور میں صرف دو ڈھائی سو سال پہلے تک، ایک محاورہ“ کھادا پیتا لاھے دا۔ تے باقی احمد شاھے دا ”زبان زد عام تھا۔ مسلح جتھوں کا راج تھا ان لوگوں کو پہلے رنجیت سنگھ پھر انگریز نے“ سولائیز ”کیا پھر تقسیم کیا اور چلتا بنا۔ یہاں آج سے تیس چالیس سال پہلے تک مولوی صاب معاشرے کا ایک بظاہر بے ضرر کردار تھا جو مسجد میں نماز ازان کے علاوہ بچوں کو سیپارہ پڑھا تے آج کسی پراسرار (ھیت کزائی) میٹا مارفسس کے تحت ایسے تبدیل ہوئے کہ آج شہر بند کرا رہے ہیں۔

ضیا الحقی دور کا یہ فرینکسٹین اب آٹھ درجن سر والی حجرہ ہشت بلا کی بلا بن چکا یہ نہ صرف پاکستان بلکہ امن عالم کے لیے بھی خطرہ ہے۔ 22 کروڑ نفوس پر مشتمل یہ ملک، اگر جتھوں اور گروہوں سے بلیک میل ہوا تو دنیا کو پیغام جائے گا کہ واحد اسلامی ایٹمی طاقت اتنی کمزور ہے؟ ان کے ساتھ معیشت سیاست سیاحت کے روابط کیسے رکھے جائیں۔ ہمارا شمار دنیا کی سٹیج پر جوکر سمجھی جانے قوموں میں ہوگا۔

حکومت وقت سمجھ لے کہ“ ناؤ اور نیور ”کا وقت آ گیا ہے۔ اگر ہم نے خود حساب نہ لیا تو پھر ہمارا حساب لیا جائے گا۔ پہلے ہی ہمارے خلاف مضبوط مقدمات موجود ہیں۔ جی ایچ کیو سمیت کونسی جگہ ان کے حملوں سے محفوظ رہی؟ فوج نے اس پر ہنگامی بنیادوں پر قابو پایا لیکن یہ کام فوج نہیں سول اداروں کا تھا۔ فوج کے تربیت یافتہ درجے کی سول فورسز اور دوسرے ادارے ان شدت پسندوں کی نفسیاتی عقلی معاشی سطح پر اصلاح کریں۔

ملا، مولوی نہیں، کٹھ ملا۔ اقبال جس کے بارے میں یک سو ہیں۔
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
نادان سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد۔

بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت

مولوی ایک باعزت ٹائٹل تھا جو منشی فاضل پاس کرنے والوں کو ملتا ہم نے ہر ڈاڑھی والے شخص کو مولوی کہنا شروع کر دیا یہ سوچے بغیر کہ سکھوں کی ڈاڑھی زیادہ لمبی ہوتی ہے۔

جمال عبدالناصر نے جس بہیمیت سے مذہبی عناصر کو تہہ تیغ کیا نہایت قابل مذمت ہے لیکن قصور چند کٹر پنتھی ملاوں کا تھا جو حکومت کے جبر کو دعوت دے بیٹھے اور شریف مصریوں کو یہ سب بھگتنا پڑا اخوان المسلمون کہانی بن گئے لیکن ردعمل میں وہاں کلین شیو امام مسجد عام ہو گئے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مصری محکمہ نے پنج وقت با جماعت نماز ادا کرنے والوں کی فہرستیں بنائی۔ آج بھی مصر میں فوجی حکومت ہے جو مصر کا مزاج تو نہی لیکن ملا کا علاج یہی ہے اسی لیے منتخب حکومت کو برطرف کر کے جنرل السیسی نامی ڈکٹیٹر حکومت کر رہا ہے۔

کیا پاکستانی ملا یہ چاہتا ہے؟ تو سنے ایسا نہ ہوگا۔ یہ ملک ایک انگریزی بولنے والے قانون دان نے بنایا۔ اس کے پیروکاروں میں اکثریت نوکری پیشہ مسلم لیگی ورکروں کی تھی جو معتدل مزاج مسلمان ہیں۔ ملا نے قیام پاکستان کی شدید مخالفت کی لیکن جب پاکستان بن گیا تو انہوں نے اسے تسلیم کر لیا اور ان کے ترجمان، مشہور خطیب کانگرس کے حامی پاکستان کے مخالف سید عطا اللہ شاہ بخاری فرما تے ہیں کہ“ مسجد بننے تک بحث و مباحثہ جھگڑا تکرار کی اجازت ہے لیکن بن جانے کے بعد نہیں ”دوستو پاکستان مسجد ہے اس کی حفاظت کریں اور حکومت وقت آہنی ہاتھوں سے اس فتنے کو انجام تک پہنچائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).