آسیہ، باجوہ اور خونی لبرل


پاکستان کے انگریزی کے سب سے بڑے اخبار ڈان کا ایک صحافی ہے اس نے ایک خبر شائع کی کہ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور فوجی قیادت کے بیچ قومی سلامتی کے معاملات پر کچھ ہلکے پھلکے اختلافات ہیں۔ بعد میں نواز شریف نے اس خبر کی تصدیق کی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ آپ کے علم میں ہے۔

بس یہ باور کراتا چلوں کہ صحافی پر لاہور ہائی کورٹ میں غداری کا مقدمہ چل رہا ہے۔ عدالتیں جو فیصلہ کریں گی صحافی کو قبول ہوگا۔ اپیلیں ہوں گی، اپیلوں کے خلاف اپیلیں ہوں گی لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ صحافی اور صحافی برادری یہ نہیں کہہ سکتی کہ آئیں بیٹھ کر مذاکرات کر لیتے ہیں۔

بدھ کو ایک ایسی خبر چلی، اتنی خطرناک اور زہر بھری کہ کسی نے نہ ہیڈلائن بنائی، نہ ٹکر چلا۔ وہ تو خود وزیراعظم پاکستان نے شام کو اپنے تاریخی خطاب میں بریک کی۔ چونکہ وزیراعظم خود یہ خبر دے چکے ہیں اس لیے دہرائے دیتے ہیں۔ لکھتے ہوئے پھر بھی قلم کانپتا ہے کہ تحریکِ لبیک کے دوسرے بڑے رہنما نے سپریم کورٹ کے تین ججوں کو ’واجب القتل‘ قرار دیا، جنرل باجوہ کو ’کافر‘ کہا اور فوج کے جنرلوں کو ’بغاوت‘ پر اکسایا۔

قتل کا فتوہ دینے کے خلاف پہلے سے کافی فتوے موجود ہیں، قانون بھی موجود ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے پاس سوموٹو کی سہولت موجود ہے، توہین عدالت کا قانون بھی موجود ہے۔ جب چاہیں مولانا کو عدالت بلا کر پوچھ سکتے ہیں کہ تم ہمارے چوکیداروں اور باورچیوں کو ہمارے قتل پر اکسا رہے ہو یہ کیسا عشقِ رسول ہے، جیل بھیج سکتے ہیں، جرمانہ کر سکتے ہیں یا ان کو قائل کر سکتے ہیں کہ وہ مولانا سے بڑے عاشقِ رسول ہیں۔

لیکن جنرل باجوہ کیا کریں؟

نہ ان کے پاس پولیس نہ جج نہ وکیل۔ باجوہ صاحب ہر سپہ سالار کی طرح ایک پروفیشنل فوجی ہیں لیکن ساتھ میں مرنجاں مرنج انسان بھی ہیں۔ ان کے ایمان کے بارے میں افواہیں ان کے سپہ سالار بننے سے پہلے پھیلائی گئی تھیں۔ ویڈیو ثبوت ابھی بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ لیکن انھوں نے چیف بننے کے بعد بجائے ان شیطانوں کے خلاف ایکشن لینے کے اپنے گھر میں میلاد کروایا اور اس کی تصویریں سوشل میڈیا پر ڈال دیں۔ مذہبی منافرت پھیلانے والوں کو یہ ایک مناسب جواب تھا کہ اگر تم اپنے آپ کو عاشق کہتے ہو تو ہم بھی کسی سے کم نہیں۔

ایک ایسے وقت پر ملک کے طول و عرض میں دھرنے ہیں، فساد پھیلانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ عمران خان نے ٹی وی پر آ کر بڑے دبنگ طریقے سے اس طرح کی نازیبا زبان کی مذمت کی، ایکشن کی دھمکی دی اور ابھی ہمارے لبرل بھائی ان کو داد دے ہی رہے تھے کہ وہ باقی کام فیاض چوہان کے پاس چھوڑ کر ضروری کام سے چین چلے گئے۔ اب ان پر الزام لگائیے!

لیکن کیا یہ صرف بدزبانی کا معاملہ ہے، کیا فوج میں بغاوت کی بات کرنا بقول آئی ایس پی آر صرف ایک افسوسناک امر ہے۔

میں ہرگز ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو حکومت اور فوج کو کہہ رہے ہیں کہ چڑھائی کرو، لاٹھیاں برساؤ، جیلیں بھرو۔ میں اب بھی کہوں گا کہ بات چیت کرو، ہزار دو ہزار دے کر مسئلہ حل ہوتا ہے تو کر لیں۔ لیکن ایک جرم ہوا جس کے اوپر ایک مقدمہ بنتا ہے، سزا قانون میں لکھی ہوئی ہے۔ عدالتیں، جیلیں موجود ہیں لیکن ہماری طبیعت اس طرف کیوں نہیں آتی۔

پاکستانی لبرلز فوج پر تنقید کرتے ہیں لیکن طالبان سے لڑنا ہو، سرحدیں محفوظ کرنی ہوں، فرقہ واریت کا مسئلہ ہو ہمیشہ فوج کی طرف دیکھتے ہیں اور پکارتے ہیں کہ پکڑو مارو ہمارے دشمنوں کو۔ شاید اسی لیے عمران خان انھیں خونی لبرلز کہتے ہیں۔ یہ ہمارے بھائی آسیہ بی بی کی رہائی اور اس کے بعد عمران خان کی تقریر پر بہت خوش تھے۔ اس کے بعد سے جو ہو رہا ہے اس پر نالاں ہیں، سر ہلاتے پھرتے ہیں کہ حکومت ڈنڈا کیوں نہیں استعمال کر رہی۔ مجھے شک ہے آسیہ بی بی 90 سال بھی قید کوٹھری میں رہتی تو یہ کبھی کبھی بس سر ہی ہلاتے۔ اس کے حق میں کبھی 200 بندوں کا مظاہرہ بھی نہیں کر سکتے۔

اس معاملے میں حکومت کے ہاتھ بندھے ہیں، فوج کے تو اور بھی کس کے بندھے ہوئے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ایک بار پھر جبران ناصر یا اس جیسا کوئی دلیر بہن یا بھائی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے اور انصاف مانگے کہ دیکھیں یہ ہمارے سپہ سالار کو کافر کہہ رہے ہیں حالانکہ ہم دل سے جانتے ہیں کہ وہ بھی اتنے ہی بڑے عاشق رسول ہیں جتنا تحرکِ لبیک کا کوئی بچہ۔

اگر ہم نے اس یُدھ میں اپنا حصہ نہ ڈالا تو یہی ہوتا رہے گا۔ جو قومی سلامتی کے بارے میں چھوٹی سی خبر دے گا اس پر بغاوت کا مقدمہ چلے گا، جو کھلم کھلا بغاوت کی بات کرے گا اسے ہم افسوسناک کہہ کر آگے بڑھ جائیں گے لیکن زیادہ دور تک نہیں جا پائیں گے کیونکہ اگلے چوک پر ایک اور دھرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).