اسلام کو خطرہ کہاں ہے؟


کسی گاؤں میں ایک مؤذن رہتا تھا جس کی آواز نہایت ہی دل خراش تھی۔ جب بھی وہ اذان دینے لگتا تھا، گاؤں کے لوگ اپنے کانوں میں انگلیاں رکھتے ہوئے سر تھام کر بیٹھ جایا کرتے تھیں لیکن مؤذن اسِ غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ اس کی آواز بے انتہا میٹھی اور دلکش ہے۔ آخر کار تنگ آکر گاؤں والو ں نے مؤذن کو سمجھایا کہ ایسی بھیانک آواز کے ساتھ اذان دینا شریعت میں منع کیا گیا ہے۔ اس بات سے مؤذن ناراض ہو کر گاؤں سے چلا گیا۔

کچھ مدت بعدمؤذن کو حج کی سعادت نصیب ہوئی اور وہ قافلے میں شامل ہوکر مکہ معظمہ کی جانب چل پڑا۔ راستے میں یہ سفر طے کرتے ہوئے قافلہ ایک بستی کے قریب رکا جہاں اکثر ہندو آباد تھے۔ نماز کا وقت ہوا تو مؤذن نے اللہ کا نام لے کر اذان دینا شرو ع کیا۔ آواز ایسی بھیانک تھی کہ قافلے میں موجود لوگ خوف کے مارے اٹھ کھڑے ہوئیں۔ تھوڑی دیر بعد ایک شخص مٹھائی اور قیمتی تحفے لے کر آیا اور مؤذن کا پوچھنے لگا تاکہ اس کا شکریہ ادا کرسکے جس کی وجہ سے انہیں راحت ملی ہیں۔

مؤذن کو دیکھ کر اس کے ہاتھ چھوم کر کہنے لگا کہ وہ ہندو مذہب کا پیروکار ہے اور اس کی ایک اکلوتی بیٹی ہے جو نہایت ہی خوبصورت اور نازک دماغ ہے اور اسلام قبول کرنے پر مدتوں سے بضد ہے۔ ہزار نصیحتوں کے باوجود اپنے باپ داداکا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہونا چاہتی تھی۔ آج مؤذن صاحب کی آواز سن کر پوچھا کہ یہ آواز کیسی ہے جو دماغ پر ہتھوڑے کی مانند بج رہی ہے تو میں نے بتلایا کہ یہ مسلمانوں میں نماز کی طرف بلانے کا طریقہ ہے۔

یہ سن کر خوف سے اس کا رنگ زرد پڑ گیا اور اس نے اسی وقت طے کر لیا کہ وہ اسلام قبول نہیں کریگی اس لئے اپنی بیٹی کا ایمان و عقیدہ پانے پر میں مؤذن کا بے حد احسان مند اور مشکور ہوں۔ المختصر یہ کہ ہر کام کے لئے مناسب شخص کا انتخاب ضروری ہوتا ہے اور تبلیغ دین کے لئے بھی مناسب لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

اسلام کی اشاعت بھی رسول اکرم ﷺاور آپ کے اصحاب سے شروع ہوئے جو اس کام کے لئے ہر طرح سے مناسب تھیں جنہوں نے دینِ اسلام کی اشاعت کے لئے کئی بے مثال قربانیاں دیں۔ یوں تو تمام مذاہب میں اخلاقیات کی تعلیم پر زور دیا جاتا ہے لیکن دین اسلام نے اخلاقیات کو نظام زندگی میں جو مقام دیا اس کی مثال کہی بھی نہیں ملتی۔ اسلام کی ترویج و اشاعت میں سب سے زیادہ جس نے اہم کردار ادا کیا، وہ رسول ﷺ کا حسنِ اخلاق، رواداری اور انسانیت سے محبت تھی جس نے عرب کے کفار پر اتنا گہرا ثر چھوڑا کہ لوگ آپﷺ کے حسنِ اخلاق کو دیکھ کر اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوئے اور اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے چلے گئے اور یہ بات بھی واضح ر ہے کہ انسان کی علمی، عملی اور اخلاقی کمالات ہی اس کی اصل شناخت ہوتی ہے۔

حضور ﷺ کی سیرت کا مطالعہ اگر کیا جائے تو ہمیں قدم قدم پر ان کے حسن اخلاق کی مثالیں ملے گی۔ آپﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب جب مکہ سے اونٹ پر سوار ہو کر مدینہ کی جانب روانہ ہورہی تھی تو راستے میں ہبار بن اسود نامی ایک شخص نے انہیں نیزے سے مار کر اونٹ سے گرا دیا اور درد سے تاب نہ لاتے ہوئے اللہ کو پیاری ہو گئی۔ جب آپ ﷺ کو اس بات کی خبر ہوئی تو بہت غصہ آیا اورجب بھی اس حادثے کی یاد تازہ ہوتی تو آب دیدہ ہوجاتے لیکن جب ہبار بن اسود آپﷺ کے ہاں معافی مانگنے کی لئے پیش ہوا تو آپﷺ نے اسے معاف کردیا۔ اسی طرح آپﷺ کے صحابی حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کے پاس سے جنازہ گزرا تو آپﷺ احتراماً کھڑے ہو گئے۔ آپﷺ کو بتایا گیا کہ یہ تو ایک یہودی کا جنازہ تھا جس پر رسولﷺ نے فرمایا کہ:

۔ ”اَلَیسَت نفّساً“ کیا وہ انسان نہیں تھا؟

یہ رسول اللہ ﷺ کا سلوک و انداز اور حسن اخلاق تھا اور اسلام کی ترویج و اشاعت میں اخلاق رسول ﷺکا ہی کردار ہے۔ آپﷺ کی اخلاق سے نہ صرف اسلام کا دائرہ وسیع ہوتا گیا بلکہ آپﷺ کے اسِ حسن اخلاق سے اہلبیت، صحابہ، وفادار غلامان اور کفار بھی مستفیض ہوئے۔

اسلام کے نام اور اسلامی نظریہ کی بنیاد پر آزاد ہونے والی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی موجودہ صورت حال کا بھی اگر جائزہ لیا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں اسلام کو بدنام کرنے والے مردانِ مومن کی مثال بھی اس مؤذن کی سی ہے جو اذان جیسی سکون بخشنے والی چیز کو بھیانک ظاہر کردیتی ہے اور ان مردانِ مومن میں مرحوم ضیاء الحق سر فہرست ہے جنہوں نے اپنے دور ِحکومت میں 295۔ B اور 295۔ C کا تعارف کروایا جس کے تحت رسولﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو پھانسی کا حکم دیا گیا۔

پاکستان کے آزاد ہونے سے 1987 تک 295 کے تحت صرف 10 بندوں کو سزائیں دی گئی تھی لیکن 295۔ B اور 295۔ C کو متعارف کرنے کے بعد آج تک تقریباً 1300 سے 2000 افراد اس کا شکار بنے ہیں جن میں زیادہ تر کیسیز ایسے بھی گزرے ہیں کہ جن میں ذاتی دشمنی اور مفادات کو حاصل کرنے کے لئے اس کا سہارا لیا گیا ہے جن میں مشال خان، قطب رند اور پروفیسر سلمان حیدر نمایاں ہیں۔ 31 اکتوبر کو پاکستان کے عدالت عظمیٰ کی جانب سے بری کی گئی مسیحی عورت کے فیصلے کے بعد ملک شدید انتشار کا شکار ہے او ر اسلام و تحفظ ناموسِ رسالت کے نام پر یہ انتشار پھیلانے والے اور کوئی نہیں بلکہ وہی لوگ ہیں جو خود کو اسلام کے محافظ قرار دیتے ہیں۔

ملک کے مختلف بڑے شہروں میں دھرنا دیے یہ نام نہاد مذہبی جماعتیں اس بات کا مطالبہ کر رہی ہیں کہ اس مسیحی خاتون کو سزائے موت دی جائے جس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جرم ثابت نہیں ہوا اورجس کے خلاف مقدمہ دائر کرنے والے اور گواہی دینے والے لوگ (بمطابق فیصلہ عدالت عظمیٰ) نہایت ہی مشکوک اور بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ یوں کسی بھی اقلیت سے تعلق رکھنے والے فرد کے حقِ زندگی کے خلاف اور اسلام کے تحفظ کے نام پر ملک بھر میں دھرنے دینا اورانتشار پھیلا کر ملک کے غریب عوام، انتظامیہ، عدلیہ اور ریاست کو دھمکانا اور چیلینج کرنا اسلام کے اخلاقی تعلیمات، رسولﷺ کی تعلیمات اور انسانیت کے لئے باعث سرمندگی کے سوا اور کچھ نہیں۔

یاد رہے کہ جس دن، یعنی 31 اکتوبر 2018 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے آسیہ بی بی کو بری کرنے کا حکم سنایا تھا، ٹھیک اسی دنِ بھارت میں دہلی ہائی کورٹ نے 16 پولیس آفیسران کو 42 مسلمانوں کے قتل میں ملوث ہونے کے سلسلے میں عمر قید کی سزا سنائی جس پر ہندو ستان کی ہندو اکثریت کی جانب سے نہ کوئی اعتراض اٹھایا گیا اور نہ ہی کسی قسم کا دھرنا دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ساتھ آزاد ہونے کے باوجود آج بھارت ہم سے ہر لحاظ سے آگے ہے۔

سیکولر اور ہندو ریاست ہوتے ہوئے بھی وہاں اسلام اور مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہیں جبکہ پاکستان، اسلام کے نام اور اسلام کی خاطر آزاد ہوتے ہوئے بھی اسلا م کو ہمیشہ خطرہ ہوتا ہے، وہاں مسلمان اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی کو ئی رسولﷺ کی شان میں گستاخی نہیں کرسکتا جبکہ یہاں مسلمان اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی گستاخ رسولﷺ کا سامنا کرتے ہیں۔ وہ سیکولر، لا مذہب، کافر، مشرک اور ہندو ہوتے ہوئے بھی سرورِ دو جہاں کی اخلاقی تعلیمات اور درسِ انسانیت کی پیروی کرتے ہیں اور ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی یہ بھول چکے ہیں کہ حضور ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت کل اور تمام عالم کی رہنمائی کے لئے استاد بنا کر بھیجا گیا۔

رضا حیدر چنگیزی
Latest posts by رضا حیدر چنگیزی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).