ملکی موجودہ حالات پر لکھا گیا میرا بلاگ


 

اکتیس اکتوبر کی صبح تو معمول کے مطابق ہی تھی مگر اچانک خبر ملی کہ آج آسیہ مسیح کے مقدمے کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ الحمدللہ! فورا جتنی دعائیں اور آیات یاد تھی سب پڑھ کر بچوں کو بھی دم کیا اور خود کو بھی اللہ کی امان میں دے کر گھر سے نکلی۔ دل میں دعا تھی کہ فیصلہ جو بھی مگر حق اور سچ پر ہو۔ دوسری تمنا یہ بھی کہ خدا کرے توہین رسالت ثابت نہ ہو اور مذہبی شدت پسندی کا کم از کم اب اختتام ہو۔

آسیہ مسیح تو نو سال جیل میں رہنے کے بعد رہا ہو گئی مگر اسلامی ملک کے باسیوں کو اپنی جان و مال کے لالے پڑ گئے۔ یونیورسٹیز، سکولز، آفس تقریباً ہر جگہ جلدی دن کا اختتام ہو گیا اور اگلے دو دن بھی چھٹی۔ بہت آدب سے ان تمام شدت پسند عناصر سے سوال ہے کہ کیا یہ تعلیمات ہیں ہمارے دین کی؟

حضرت حلیمہ سعدیہ کی وفات کے بعد ایک بار ان کی بہن حضورِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں۔ وہ نو مسلم تھیں۔ مگر ہمارے آقا نے کھڑے ہو کر استقبال کیا۔ بے حد عزت سے نوازا اور تحفے تحائف دے کر رخصت کیا۔ تعیلماتِ محمدی تو یہی بتاتی ہیں۔ پھر ریاست کو کس قانون اور دین کے تحت آپنے رہنے والوں کے لیے تنگ کیا جا رہا ہے؟

اختلاف ہونا جرم نہیں۔ آپ فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کیجئے، عدالت میں گواہ اور ثبوت دیجئے۔ مگر مذہب کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے کب تک استعمال کریں گے۔ کاش آپ جانتے توہین رسالت کیا ہے؟

شہر میں اعلان ہوا ”سب لوگ گھروں میں رہیں، سڑکوں پر مولوی نکلے ہوئے ہیں“

صد افسوس ہم جنسی زیادتی کی بات کریں، جنسی استحصال کی، شدت پسندی کی بات ہو یا مذہبی غنڈا گردی کی ہر مقام پر ہمارے سامنے کچھ ایسے ہی مذہبی شدت پسند حضرات ہی آتے ہیں۔

غامدی صاحب سے سوال کیا گیا کہ توہین رسالت کی سزا کیا ہے۔ اس سے مفصل جواب شاید کوئی دے نہ پائے، غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ توہین رسالت کے نام پر اج تک جتنے قتل ہوئے وہ غلط ہوے کیونکہ اسلام دینِ فطرت ہے اور اللہ کریم نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ تو یوں سزا اور جزا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ورنہ تو ہر شخص سامنے والے پر توہین کا الزام لگا کر با آسانی اسے قتل کر دے گا ”

گاڑیاں جلا دیں، سڑکیں بند کر دیں، تجارت کا سامان سڑکوں پر پھنسا ہے، سکول بند ہو گئے، پیپرز کینسل ہو گے۔ لوگ آفس نہیں پہنچ پائے اور آپ کا اسلام زندہ ہو گیا۔

آسیہ مسیح بھی مسکرا رہی ہو گی یہ دیکھ کر کہ پتہ نہیں انہیں اپنے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت ہے، ملک سے یا سب سے زیادہ اپنے پیٹ سے۔ خدا تو سب کا ہے۔ دین بھی سب کا، اسے سیاسی کھیر میں مت گھولیں۔

بدقسمتی سے ہمارے پاس سامنے والے کو زیر کرنے کے لیے جب کچھ اور نہیں بچتا تو ہم مذہب کا کارڈ کھیلتے ہیں۔ تاکہ نہ تو چوں نکلے، سیاست بھی چمکے اور جیب بھی گرم ہو جائے۔ واہ واہ تو الگ ملے گی ساتھ۔

خدا کو کھلونا بنانا چھوڑ دیں۔ وہ بڑا کریم ہے، مہربان اور دوست بھی۔ مگر اس نے حقوق العباد کی معافی کی شرط سامنے والے شخص پر رکھی ہے کہ جس کو تکلیف آپ کی ذات سے پہنچی ہو وہ اگر چاہے تو معافی ورنہ وہیں اس کا جلال بھی ہے۔ تو محترم صاحبان! وقت اور زندگی وفا کر رہی ہیں۔ پلٹ جائیے اور پلٹ آئیے۔ عزت بنانے میں وقت لگتا ہے جانے کے لیے ایک لمحہ ہی بہت ہوتا ہے۔ ملک کو تماشہ بنانا چھوڑ دیں۔ ورنہ پین دی سری سے شروع ہوا سفر اب ہیلووین پر ہی ختم ہوتا لگتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).