خواتین کے لیے دوہرے معیار کا نیا پاکستان


پاکستان کے صوبہ کے پی میں نیا پاکستان تو دوہزار تیرہ کے انتخابات کے وقت ہی بن گیا تھا جس کی بھینٹ دوہزار اٹھارہ میں باقی پاکستان کی صورت میں دی گئی۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں نے جو سیاسی کلچر متعارف کروایا اس کے نتائج سیاسی عدم برداشت کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ بائیس سالوں میں تبدیلی کے نام پر ایک ایسی پاکستانی نسل تیارکی گئی جو غلط کو غلط تسلیم کرنے کے تمام عقلی جواز کھو چکی ہے اور جس انداز میں وہ حکومتی غلطیوں کا دفاع کرتے ہیں، اسے عقل بھی تسلیم نہیں کرتی۔

لبرل ازم کا نعرہ لگا کرمیدان میں اترنے والی سیاسی جماعت نے دوہرے معیار قائم کر رکھے ہیں۔ یہی جماعت جب پنجاب میں ہوتی ہے اس کا انداز اور ہو جاتا ہے اور یہی جب کے پی میں ہو تومعیار بدل جاتے ہیں۔ ان کے دھرنے اور ان میں پیش کیا جانے والا کلچر نئے پاکستان کے خدوخال کی ایک ایسی تصویر سامنے لایا جس نے لبرل ازم کے متلاشی افراد کوبے حد متاثر کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پی ٹی آئی برگر کلاس کی پسندیدہ سیاسی جماعت بن گئی۔

مگرکیا یہ سب ایک دکھاوا تھا؟ بظاہر پی ٹی آئی حد درجہ متعصب اور گھٹن کا شکار سیاسی جماعت ہے جس کا مظاہرہ گذشتہ دو ماہ میں وہ کئی بار کر چکی ہے۔ ایک طرف لاہور میں سرکاری عمارات میں داخلے کے لیے خواتین کے لیے دوپٹہ لازمی قرار دینا، چھوٹے شہروں میں سپیڈو بس سروس، جو کالج جانے والی بچیوں کے لیے ایک بہترین اور محفوظ سواری تھا کا بند کرنا، اور اب کے پی میں خواتین کے تعلیمی اداروں میں مرد حضرات کے داخلے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ جیسے فیصلے صاف بتا رہے ہیں کہ خواتین کے لیے نئے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں۔ ان کے لیے ایک نہیں کئی پاکستان بنیں گے، کراچی اور لاہور کی لبرل کلاس کے لیے الگ پاکستان اور کے پی کی خواتین کو پسماندہ رکھنے کے لیے ایک الگ پاکستان۔

ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں جہاں آج کے انسان سے اپنی مرضی سے جینے کا حق کوئی نہیں چھین سکتا اور بات اگر عورت کی ہو تو اس حوالے سے تو یہ اب بھی ناممکن سا لگتا ہے کہ اسے تعلیم و شعور سے دور رکھا جا سکے۔ مگر پاکستان کا یہ المیہ ہے کہ یہاں عورت کو ہر حال میں دبانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اس کے نام پر بہت سارے نعرے لگتے ہیں، حکومتی اور این جی اوز عورت کی تعلیم اور حقوق کا چورن بڑے اعلیٰ پیمانے پر بیچتی ہے مگر ہماری عورت کو آج تک وہ حقیقی مذہبی حق بھی نہیں مل سکا جو شریعت نے اتارا۔ ہاں کوئی پیشہ ور جسم فروش عورت مر جائے تو موم بتی مافیہ سرگرم ہو جاتا ہے جیسے پورے پاکستان میں وہی ایک عورت تھی۔

میں اس حوالے سے کسی قسم کے مذہبی نکات پر بحث نہیں اٹھانا چاہتی کیونکہ ہمارے ہاں مذہبی اشرافیہ اور کلاس کا جو رویہ موجود ہے وہ انتہائی منافقانہ ہے، جس نے عام اور کم فہم طبقے کو مایوس کیا ہے۔ دوسرے جو طبقات ان سے متاثر ہوئے ہیں انہوں نے مذہب کے نام پر جو پابندیاں لگائیں، ان سے خواتین میں گھٹن نہ صرف پیدا ہوئی بلکہ بڑے غلط طریقوں سے پروان بھی چڑھی۔

واضح طور پر پی ٹی آئی کی کے پی حکومت کا یہ فیصلہ ان کی مخصوص سوچ اور فکر کی عکاسی ہے۔ جو ان کے دوہرے معیار سیاست کو اجاگر کرتی نظر آتی ہے۔ دوسرے اس فیصلے کو کرنے کی نوبت کیوں آئی، یہ سب سے اہم ترین سوال ہے؟ یا پی ٹی آئی کے پی کے مشیر اپنی حکومت میں موجود، وزیروں اور مشیروں کے کردار سے اچھی طرح واقف ہیں اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ یہ لوگ خواتین کے تعلیمی اداروں میں جائیں اور نئی کہانیاں جنم لیں، جس سے پارٹی کے مسائل میں اضافہ ہو۔

وجہ یا وجوہات جو کوئی بھی ہیں، اس فیصلے سے پی ٹی آئی کی لبرل ساکھ کو بہت نقصان پہنچے گا۔ اگر یہ ایک معیار قائم کر لیا گیا ہے تو پھر اس کا اطلاق پورے پاکستان پر کیا جائے گا یا صرف کے پی کو مکمل پسماندہ رکھنے کے لیے یہ ایک سوچ ہموار کی جا رہی ہے۔

اس کے مضمر ترین اثرات، پر غور کیا جائے تو اہم ترین یہ ہے ان تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طالبات کو اگر دوسرے ملک میں جا کر تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے، تو وہ تو ائرپورٹ پر ہی ڈھے جائے گی کہ میں یہ کس دنیا میں آ گئی۔ دیکھیں اکثر جگہ وزٹیٹنگ فکلیٹی میں مرد استاد بھی سامنے آ تے ہیں۔ کچھ تعلیمی ادارے ریگولر لیکچرز کا اہتمام کرتے ہیں، جس میں باہر سے مرد اسکالر بلائے جاتے ہیں۔ ان سے بات چیت کر کے بچیوں کا اعتماد بڑھتا ہے۔ دوسرے آج کے جدید دور میں کوئی بھی بات سات پردوں میں نہیں چھپی ہوئی۔

دوسرے کے پی، میں مخلوط تعلیمی ادارے موجود ہیں، یونیورسٹیاں ہیں، اس حکم کا اطلاق وہاں کیسے کیا جائے گا؟ اگر یہ کام صرف بچیوں کے سرکاری سکولز اور کالجز میں کیا جا رہا ہے تو پھر عمران خان کا یہ نعرہ دو نہیں ایک پاکستان، تیل لینے چلا گیا نہ۔ مرد و زن کو ایک دوسرے کے لیے خلائی مخلوق نہ بنائیں۔ استاد اور شاگرد کے رشتے کو مت الجھائیں، سیاست کرنے کے لیے اور بھی بہت کچھ ہے ایسے اقدامات سے پی ٹی آئی کو کسی بھی اپوزیشن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ گذشتہ دو ماہ میں جو کچھ ہو چکا ہے اس سے پی ٹی آئی اپنے ساتھ خود ہی دشمنی کررہی ہے۔ اپنے ہر نعرے کی نفی کر رہی ہے، مہنگائی سے لے کر بادشاہی تک سب کچھ، عوام ایک حد تک برداشت کرے گی پھر دما دم مست قلندر ہی ہو گا جس کے امکان بہت روشن دکھائی دے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).