قائد اعظم محمد علی جناح کا خط عمران خان کے نام


برخوردار عمران احمد خان نیازی!

سدا خوش رہو!

گزشتہ کافی عرصے سے تمھارے پیروکاروں کی ایک بات پر دل دکھی تھا لیکن تم سے بات نہ کی کیونکہ یہ آج کل کے نوجوان تاریخ پڑھنے کے بجائے، فیس بک کی پوسٹس پڑھ کر خود کو تاریخ دان اور دانشور سمجھنے لگتے ہیں، لیکن کل جب جنت الفردوس میں تحریک پاکستان کے احباب کی محفل منعقد ہوئی تو علامہ اقبال نے بتایا کہ جو بات پہلے تمھارے ”فیس بکئیے دانشور“ پیروکار کہاکرتے تھے وہی اب تمھاری ذوجہ محترمہ بشرٰی پنکی المعروف پنکی پیرنی نے بھی ایک انٹرویو میں کہ دی تو اس پرتمام ہی احباب نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور فاطمہ نے اصرار کیا کہ تمھیں خط لکھ کر اپنے جذبات سے آگاہ کیا جائے۔

برخوردارنیازی! جیسا کہ تم جانتے ہو کہ تمھارے پیروکاروں نے تمھیں مجھ سے تشبیہ دینے کے لئے ایسے مبالغے سے کام لیا کہ یہاں موجود ہر ذی شعور جس نے مجھے دیکھا تھا اور تمھیں دیکھ رہا ہے، ششدر رہ گیا۔ کبھی اس بات پر تمھیں مجھ سے تشبیہ دی گئی کہ تم نے بھی میری طرح انگلستان سے تعلیم حاصل کی۔ کبھی یہ کہا گیا کہ میری بیوی بھی غیر مسلم تھی۔ کبھی یہ بات کہی گئی کہ میں نے بھی دوشادیاں کیں اور تم نے بھی دو شادیاں کیں۔

کبھی یہ کہا گیا کہ میری شادیاں بھی ناکام ہوئیں اور تمھاری بھی۔ کبھی یہ کہا گیا کہ میری طرح تمھارے بچے عدالت کے حکم پر ماں کے پاس ہیں۔ کبھی یہ کہا گیا کہ جس طرح میں صاف گو مشہور تھا تم بھی اسی طرح صاف گو ہو، کبھی یہ کہا گیا کہ تم بھی میری طرح سادہ مزاج ہو اور فضول خرچی نہیں کرتے۔ اور حد اس وقت ہو گئی جب تمھاری سیاسی زندگی کو میری سیاسی جدو جہد اور کامیابیوں سے ملایا گیا اور اس کے علاوہ بھی ایسی ایسی بے شمار تشبیہات دی گئیں جن پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

میں چاہتا ہوں کہ جو جو تشبیہات اور جھوٹ کے پلندے تمھارے پیروکاروں نے مجھ سے منسلک کئیے ان کی حقیقت واضح کر دوں تاکہ تاریخ کو مسخ کرنے کی قبیح رسم کا خاتمہ ہو۔ میں یہاں ثابت کر دینا چاہتا ہوں کہ میں انگلستان، میں تعلیم کے لئے کھیلوں کے کوٹے پر نہیں گیا تھا اور نہ ہی میری ڈگری ”تھرڈ دویژن“ تھی۔ میری پہلی شادی سولہ سال کی عمر میں میری ماں کی مرضی سے میرے خاندان میں ہوئی اور شادی کے فوراً بعد جب میں تعلیم کے لئے انگلستان گیا تو میری بیوی ایک وبائی مرض کا شکار ہو کر اللہ کو پیاری ہو گئی۔

میری دوسری بیوی سے شادی پسند کی شادی تھی جو ایک کنواری خاتون سے ہوئی، اس نے اسلام قبول کیا اور اس سے ایک ہی بیٹی ہوئی۔ ازدواجی زندگی میں اختلافات اپنی جگہ لیکن طلاق اس شادی میں بھی نہیں ہوئی اور نہ ہی میری بیٹی کو کسی عدالت نے ماں کے سپرد کیا۔ ہاں جب میری بیٹی نے ایک غیر مسلم نوجوان سے شادی کا ارادہ کیا اور منع کرنے کے باوجود باز نہ آئی تو اس سے دوری ہوئی لیکن وہ پھر بھی دل میں قریب رہی۔ جبکہ تم نے اپنے بچے ایک یہودی خاندان میں پرورش کے لئے چھوڑ دیے اور سنا ہے تم ابھی بھی جب انگلستان جاتے ہو تو اپنے ”سابقہ سسرال“ میں ٹھہرتے ہو جو کہ میرے نزدیک ایک معیوب بات ہے۔

اور ہاں اپنے پیروکاروں کو بتا دو کہ میری دو ہی شادیاں ہوئی تھیں اور تمھاری اور میری جوانی کی کہانیوں میں بھی کوئی مماثلت نہیں۔ بلکہ تمھارے کردار کی رنگینی کے برعکس میرے کردار کی پاکیزگی اورپختگی کی گواہی تو تمام ہی تاریخ دان دیتے ہیں۔ اسی طرح تم اچھی طرح جانتے ہو گے کہ میں اپنے لباس اور ذاتی اشیاء کے بارے میں نفاست کا قائل تھا اور کوئی شخص مجھے کنجوس، بد لباس اور بد سلیقہ نہیں کہ سکتا تھا۔ میں اصراف پسند نہیں کرتا تھا اور نہ ہی عوام کے ٹیکسوں پر اللوں تللوں کو پسند کرتا تھا لیکن اپنی جائز حلال دولت سے اپنے لباس، گاڑی، فرنیچر اور دیگر اشیاء خریدا کرتا تھا۔

میں تمھاری طرح تحفوں اور عطیوں سے اپنی زندگی کو آلودہ نہیں کرتا تھا۔ ایک مرتبہ لاہور کے ایک درزی سے سوٹ سلوائے تو اس نے عقیدت میں بل لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ آپ کے لئے ایک تحفہ ہے لیکن تاریخ دان جانتے ہیں کہ میں نے سوٹ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور بل لانے پر اصرار کیا، پھر وہ ایک بل لایا جو کہ اصل قیمت سے خاصا کم تھا میں نے وہ بل پھر اس کو واپس بھجوا دیا اور اس وقت تک سوٹ نہیں لئے جب تک اس نے جائز بل بنا کر نہیں دیا، برخوردار!

یقیناً غیرتمندی اور اصول پسندی ایک لیڈر کے لئے بہت ضروری اوصاف ہیں۔ یقیناً میں صاف گو مشہور تھا اور میرے دشمن تو مجھے منہ پھٹ بھی کہتے تھے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ میں نے کبھی غصے میں بھی تمھاری طرح فحش گوئی، غلیظ زبان کا استعمال، طعن و تشنیع اور الزام تراشیاں نہیں کیں۔ میں نے بات بات پر ”سیاسی بیان“ نہیں دیے اور نہ ہی اپنی کی ہوئی بات سے مکرا، نہ میں نے اپنے سادہ لوح عوام سے جھوٹے وعدے کر کے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی اور نہ ہی اپنی کہی ہوئی ہر بات پر یو ٹرن لئے، نہ میں نے جھوٹے الزامات لگا کر مخالفین کی کردار کشی کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ میں نے جو کہا اس پر قائم رہا۔ میری راست گوئی اور حق پرستی کی گواہی دشمن بھی دیتے تھے۔ میں نے ایک مرتبہ اپنے کچھ ساتھیوں کو ان کیے رویوں کی وجہ سے کھوٹے سکے کہا، لیکن اب تمھاری پارٹی کے کرپٹ، جھوٹے، بدزبان، دھوکے باز، جعلی ڈگری ہولڈر، قبضہ مافیا، ناچ گانے کے رسیا، چھوٹی مکھی کا شہد استعمال کرنے والے، گھاٹ گھاٹ کی پارٹی سے مفادات کا پانی پینے والے خود غرض لوٹے الیکٹیبلز (Electables) دیکھ کر تو مجھے اپنے وہ ساتھی دنیا کے نیک ترین لوگ لگتے ہیں۔

دنیا جانتی ہے کہ نہ میں کسی ایسے شخص کو اپنی کابینہ میں وزیر لگانے کا سوچ سکتا تھا جس کے بارے میں، میں نے کہا ہوتا کہ میں اسے چپڑاسی بھی نہ رکھوں اور نہ ہی کسی ایسے شخص کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی اسمبلی کا سپیکربنانے کا سوچ سکتا تھا، جس کو میں نے اسی صوبے کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا ہوتا، نہ ہی میں ایسی پارٹی یا سیاستدانوں کے ساتھ اتحاد کرنے کا سوچ بھی سکتا تھا جنہیں میں نے خود ماضی میں بھتہ خور اور سینکڑوں لوگوں کا قاتل قرار دیا ہوتا۔

میں جو بات ایک مرتبہ کہا کرتا تھا اس پر قائم رہتا تھا۔ مجھے بھی اپنی سیاسی زندگی کے نشیب و فراز میں بہت سی آفرز اور لالچیں دیں گئیں لیکن نہ ہی میں نے اس وقت کی کسی طاقت کی انگلی کا سہارا لیا اور نہ ہی ایک سیاسی یتیم کی طرح غیر جمہوری قوتوں کی ”مدد“ حاصل کر کے حکومت حاصل کی۔ میری پاکستان کے لئے جد و جہد کی پاکیزگی اور اصول پسندی کی گواہی اغیار نے بھی دی۔

لہذا تم سے اتنی گزارش ہے کہ بیشک اپنے آپ کو دنیا کی کسی بھی سیاستدان یا لیڈر سے ملا لو، لیکن اپنے فیس بکیے پیروکاروں کو بولو کہ مجھے معاف کر دیں کیونکہ یہاں جنت الفردوس میں میری بڑی عزت ہے اور میں، فاطمہ اور وہ احباب جو مجھے جانتے ہیں وہ اس قسم کی تشبیہات سے دکھی ہوتے۔ امید ہے تم اور تمھارے پیروکار مجھے معاف کر دیں گے۔ والسلام

محمد علی جناح


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).