شرماتے کیوں ہو وہ دکھاؤ جو سڑکوں پر سر عام ہو رہا ہے


اس بات پر زیادہ خوش نہ ہوں کہ ٹی وی والے آسیہ بی بی کے کیس میں ہونے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف مذہبی پارٹیوں اور گروہوں کے پر تشدد رد عمل کو نہیں دکھا رہے۔ میڈیا کو کنٹرول کرنا کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔ اور یہ ہنگامہ بھی میڈیا کو کنٹرول کرنے سے نہ تو ماند پڑے گا اور نہ ہی اس کا پھیلاؤ رکے گا۔ احتجاج تو اتنا ہی پر تشدد اور بڑا ہو گا جتنی ہم نے اس کے لیے زمین ہموار کی ہوئی ہے۔ مان تو اب سبھی گئے ہیں کہ ہم وہی کاٹ رہے ہیں جو کل بویا تھا اور شاید ابھی بھی بو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے تو یہ بیجائی بھی تازی تازی ہی کی تھی۔ تشدد کے علاوہ ہمیں احتجاج کا کوئی طریقہ نہیں آتا اور دھرمی تڑکا تو پھر اس کو خوب چار چاند لگاتا ہے۔ اس لیے میڈیا دکھائے یا نہ دکھائے، تشدد، جلاؤ، گھیراؤ، بربادی اور موت ہی راج کرے گی۔

میڈیا کو تو وہی دکھانا چاہیے جو ہو رہا ہے اور ویسا ہی دکھانا چاہیے جیسا ہو رہا ہے۔ عوام وہ جاننا چاہتے ہیں جو ہو رہا ہے اور جاننا ان کا حق بھی ہے۔ میڈیا پر پابندی اظہار رائے پر پابندی ہے اور وہ پابندی کسی طور پر بھی مفید ثابت نہیں ہوتی۔ سینسرشپ ایک لعنت ہے۔ یہ صرف طاقت ور کا ساتھ دیتی ہے اور سٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کے لیے ایک اہم ہتھیار ہے۔ اس لیے کسی کے پاس بھی میڈیا کو کنٹرول کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ کوئی بھی ایسی طاقت، قانون یا ادارہ نہیں ہونا چاہیے جو میڈیا کو یہ حکم جاری کر سکے کہ کیا دکھاؤ اور کیا نہ دکھاؤ۔ میڈیا کو اس برے طریقے سے ریگولیٹ کرنے کی بجائے ہمیں میڈیا اور عوام دونوں کو یہ شعور دینا ہو گا کہ وہ کس بات کا کیا مطلب نکالیں۔ عوام کو تجزیہ اور سوال کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔

میڈیا کی تربیت کرنا چاہیے اور ان کو اس قابل بنانا چاہیے کہ وہ انسانوں کے درمیان برابری اور امن کو فروغ دیں اور ان لوگوں (اور آئیڈیولوجی) کی عزت افزائی نہ کریں جو قتال اور بم دھماکوں کی ذمہ داریاں قبول کرتے ہیں اور انسانوں کے برابری کے قائل نہ ہونے کا اظہار کرتے ہیں۔ اس بات کا معیار بھی میڈیا کو خود ہی مقرر کرنا چاہیے۔

میڈیا کے ذریعے عوام کو شعور دینا یا ان سے شعور چھیننا دونوں ہی ممکن ہیں لیکن اس کے لیے وقت اور وسائل درکار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ضیا الحق نے بھی تمام وسائل استعمال کیے اور کئی سال کی کوشش کے بعد قوم کو اس نہج تک پہنچانے میں کامیاب ہو گیا کہ وہ موت کو زندگی پر ترجیح دے۔ اور اب جب کہ یہ ہو گیا ہے تو جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اتنی خود کش جیکٹیں نہیں جتنے نوجوان انہیں پہننے کے لیے قطار میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی طرح سے اس دھارے کو اب اگر واپس موڑنا ہے تو بھی دس بیس سال کی محنت لگے گی تو پھر کہیں جا کر قوم کے نوجوان دوبارہ سے زندگی کو موت پر ترجیح دینا شروع کریں گے۔ زندگی کو موت پر ترجیح دینے سے مراد صرف اپنی زندگی کو اہمیت دینا نہیں بلکہ دوسروں کی زندگیوں کو بھی اتنا ہی مقدم سمجھنا ہے۔

یہ ممکن ہے کہ پاکستانی قوم دوبارہ سے زندگی کو موت پر اور امن کو فساد پر ترجیح دینے لگے اور پرامن مکالمے کی گنجائش نکل آئے۔ لیکن اس سلسلے میں باقاعدہ کام کرنا پڑے گا۔ کوئی امید بندھے گی جب ہم پہلا قدم اٹھائیں گے۔ مستقبل قریب میں تو اس کے امکانات لگتے نہیں ہیں۔ ابھی تک تو بہت سہولت سے ہم لوگ موت اور اندھیروں کی انتہا دیکھنے کی خاطر رواں دواں ہیں۔ ہر اگلے سال یہی لگتا ہے کہ اب تو انتہا ہو ہی گئی اور مزید نیچے گرنا ممکن نہیں اور واپسی کے سفر کی امید بندھتی ہے لیکن پھر کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ ہمیں اپنا اندازہ غلط محسوس ہونے لگتا ہے۔ مایوسی گناہ ہے لیکن امید کی گواہیاں بھی مسلسل کم ہوتی جا رہی ہیں۔

ایک دفعہ پھر مایوسی کا وہی لمحہ ہمیں گھیرے ہوئے ہے۔ اور میڈیا کو کنٹرول کرنا اس کا حل نہیں ہے۔ جو ہو رہا ہے ساری قوم وہ دیکھے۔ تاکہ فیصلہ کر سکے کہ دعووں اور حقیقت میں فرق کتنا ہے۔ ہو سکتا ہے اب وقعی انتہا ہو گئی ہو اور مزید نیچے گرنا ممکن نہ ہو اور اسی سے کوئی راہ نکل آئے تاکہ ہم مسائل کی جڑ تک پہنچ کر اسے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کریں۔ سٹیٹ کو مذہب سے الگ کر لیں تاکہ تمام پاکستانی بغیر کسی خوف کے اپنے اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزار سکیں۔

میڈیا پر کنٹرول یا دوسرے لفظوں میں اظہار رائے پر پابندی ہمیں کسی صورت قبول نہیں کرنی چاہیے۔ اس سے معاملات مزید خراب ہوتے چلے جائیں گے۔

آپس کی بات ہے، ٹی وی سکرین کتنی مصنوعی بلکہ جھوٹی لگ رہی ہے۔ ٹی وی سکرینیں پہلے بھی جھوٹی تھیں لیکن یہ واقعاتی جھوٹ تجزیاتی بدنیتی سے بہت مختلف ہے۔ ٹی وی سکرین پر بیٹھے ہوئے اینکروں اور تجزیہ نگاروں کو بھی پتا ہے کہ سڑکوں پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ میڈیا کے لیے غیر معمولی اہمیت اور دلچسپی کا حامل ہے اور اصولا سارے ٹی وی کیمروں کو وہاں ہونا چاہیے۔ لیکن وہ ادھر سٹوڈیوز میں بیٹھے ادھر ادھر کی ہانک رہے ہیں اور ان کے معدے میں اٹھنے والے مروڑ ان کے چہروں سے عیاں ہیں۔ اپنے گھروں میں ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھنے والوں کو بھی علم ہے کہ باہر سڑکوں پر غیر معمولی اور پر تشدد سرگرمی زوروں پر ہے تو پھر اس بلیک آؤٹ کا فائدہ کیا ہے۔ میں بھی کیا باتیں کر رہا ہوں، جیسے کسی نیوز بلیک آؤٹ کا کوئی فائدہ بھی ہوتا ہے۔ یقینا کسی بھی سینسر یا نیوز بلیک آؤٹ کا کبھی بھی کوئی فائدہ ہوا ہے نہ ہو گا۔ خبر کو روکنا نا ممکن ہے۔ میڈیا کو وہ دکھانے دیا جائے کہ جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے اور سر عام ہو رہا ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik