پردیس میں مردوں کے ہاتھوں عورتوں پر گھریلو تشدد


جب سعیدہ کو اس کے شوہر ریاض نے لاتیں گھونسے مارے اور پھر دھکے دے کر گھر سے نکالا تو سرمئی شام اترنے ہی کو تھی۔ ”خبردار جو دوبارہ اس گھر میں قدم رکھا۔ “ ریاض نے غصے سے ڈھارتے ہوئے دیارِ غیر کے اس واحد گھر کا دروازہ بند کر دیاجس سے وہ آشنا تھی۔ سعیدہ خاصی دیر تک باہر کھڑی گھٹی گھٹی سسکیوں کے ساتھ آنسو بہاتی رہی۔ تکلیف خوف اور بے بسی سے اس کے جسم پر لرزہ طاری تھا۔ نہ وہ اس ملک سے آشنا تھی اور نہ ہی زبان سے واقف۔

پاکستان سے امریکہ آئے اسے ابھی اسے بمشکل سات ماہ ہی گزرے تھے۔ پنجاب کے ایک گاؤں سے آٹھویں پاس سعیدہ کا شوہر یونیورسٹی کے کیمپس میں بطور پی ایچ ڈی طالبعلم رہتا تھا۔ امریکہ اس کی خوابوں کی سرزمین تھی اور خود وہ سعیدہ کے خوابوں کا شہزادہ۔ اس کے بچپن کے ٹھیکرے کی مانگ اس کا چچا زاد۔ سعیدہ جو بمشکل سال بھر پہلے اس کی بیوی بنی تھی۔ آج اپنے گھر سے باہر بے بسی کے عالم میں کھڑی تھی۔ اسی پریشانی میں اس نے اپنی کوکھ میں پلنے والے بچے کی حرکت سے ایک امید سی بندھی کہ شاید دروازہ کھل جائے اور ریاض کہے ”مجھے معاف کر دو میں غصہ میں بھول گیا تھا کہ تمہاریے جسم میں پلنے والا بچہ میرا بھی تو ہے۔

آؤ اندر آ جاؤ۔ ۔ ۔ باہر بہت ٹھنڈ ہے۔ “ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ دسمبر کی یخ بستہ ہواؤں نے سعیدہ کو شہناز کی یاد دلا دی۔ میٹھی عید پر ریاض اسے اپنے دوست منیر کہ جو اس کی طرح کیمپس میں پی ایچ ڈی کا طالب علم تھا، کے گھر لے گیا، شہناز منیر کی بیوی تھی۔ سعیدہ نے اپنے اندازے سے شمال کی جانب چلنا شروع کر دیا اور پھر عین شہناز کے گھر جا کر دروازے پہ دستک دی۔ اس طرح سعیدہ کی بروقت ہوشیاری نے اس کی جان بچا لی لیکن ڈاکٹر اس کے بچے کو نہ بچا سکے۔ اسپتال کے ڈاکٹر نے سعیدہ کی صورتحال کو پہچان کر سعیدہ گھریلو تشدد کا کیس بنایا اور پھر جلد ہی ریاض پولیس کی حراست میں تھا۔

شمالی امریکہ کی سرزمین پر سعیدہ جیسی کتنی ہی مہاجر خواتین ہیں کہ جو اپنی زندگی کے ساتھی یا شوہروں کے ظلم و زیادتی کا شکار ہوتی ہیں اور یہ خموشی سے سالہا سال اپنے بدترین حالات سے ”غیر ضروری“ سمجھوتہ کرتی رہتی ہیں۔ ان پر یہ تشدد جسمانی، جنسی، جذباتی، نفسیاتی سطح پر ہوتا ہے۔ تاہم نئی سرزمین کی ثقافت، نظام اور زبان سے ناآشنائی جیسے عوامل ہیں کہ جو ان خواتین کی مدد کی راہ میں حائل ہیں۔

خواتین پر تشدد عالمگیر سطح پر صحت عامہ کا بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ جو وقت کے ساتھ گھمبیر شکل اختیار کر چکا ہے۔ عورتوں کے خلاف یہ تشدد دراصل صدیوں سے چلنے والی اس روایت کا حصہ ہے کہ جس میں عورت اور مرد کے درمیان ”طاقت“ کی غیر منصفانہ تقسیم ہے جس کا سبب غربت، صحت اور تعلیم تک رسائی کی غیر منصفانہ سہولت کا حصول ہے۔ عورتوں کے خلاف تشدد کا یہ دائرہ عمر کے مختلف ادوار میں اپنی شکلیں بدلتا رہتا ہے۔ مثلا اس حمل گرا دینا جس میں لڑکی پل رہی ہو۔ پیدائش کے بعد لڑکے کو غذا، تعلیم، تفریح اور ہر شے میں لڑکی کے مقابلے میں ترجیح۔ پھر شادی کے بعد جسمانی، جنسی، نفسیاتی ناآسودگی۔ جسم پر پڑنے والے زخموں کے ساتھ وہ زخم بھی پلتے رہتے ہیں جو نظر نہیں آتے لیکن سہولیات سے منکر معاشرے میں حقارت سے بھرپور، تنہائی اور خوف کے رویہ کو جنم دیتے ہیں۔

محتاط تحقیقی مطالعہ سے جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں وہ بہت تکلیف دہ ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔

1۔ عالمی پیمانے پر ہر تین میں سے ایک عورت زندگی کے کسی موڑ پر جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔
2۔ امریکہ میں ہر سال تیس لاکھ عورتیں زدوکوب کی جاتی ہیں۔
3۔ ایک تہائی خواتین زندگی میں کم از کم ایک بار گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔

اب ذرا ملاحظہ کیجیئے جنوبی ایشیا کے تارکین الوطن خاندان کہ جہاں تشدد کی وارداتیں عام شہریوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں۔

جنوبی ایشیا میں ہم جن ممالک کو شامل کرتے ہیں وہ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، مالدیپ، بھوٹان، سری لنکا اور افغانستان ہیں۔ ان ممالک سے آنے والے تارکین الوطن شمالی امریکہ میں تیزی سے نئی بستیاں تعمیر کر رہے ہیں۔ امریکہ میں غیر ممالک سے آنے والے افراد 12.6 فیصد ہیں۔ اور ان میں سے 338 فیصد افراد کے پاس صحت کی انسورنش نہیں تھی۔ بمقابلہ 13.0 فیصد مقامی افراد کے جو جنوبی ایشیا کے ممالک سے تعلق رکھنے والے عموما ثقافتی، سماجی اور معاشی لحاظ سے خاصی عاملت (معلومات ) رکھتے ہیں۔ لہذا ان کا مسئلہ بطور گروپ لیا جاتا ہے۔

مہاجرین خواتین پہ گھریلو تشدد و شادی کی صورتیں وطن کو چھوڑ کے امریکہ یا کینیڈا جیسے ممالک میں آن بسنے والی خواتین کی صورتحال عام مقامی خواتین کے مقابلہ میں کچھ زیادہ گھمبیر ہے۔ بوسٹن میں ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق چالیس فیصد جنوبی ایشیاء کی خواتین اپنے زندگی کے ساتھی کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہیں۔ جن میں سے محض پچاس فیصد ہی کسی قسم کی مدد کے لیے رجوع کرتی ہیں۔ جب کہ 13 ریاستوں میں محض 23 سپورٹ گروپ ان کی مدد کے لئے ہیں۔ گھریلو تشدد جو طبقہ، قومیت، رنگ و نسل کی قید سے آزاد ہے، کی ڈبلیو ایچ (world Health Organization) اس طرح تعریف کرتا ہے۔

” گھریلو تشدد جنسی تفریق کی بنیاد پہ ہونے والا تشدد ہے۔ جو جسمانی، جنسی یا ذہنی ایذا یا تکلیف کا باعث بنے یا اس کے ہونے کا احتمال ہو۔ اس میں تشدد کی دھمکی، حبسِ بیجا یا آزادی سے محرومی (عوامی یا نجی سطح پہ) شامل ہیں۔ “

اینٹی میٹ پارٹنر وائیلنس یا قریبی زندگی کے ساتھی کا تشدد: اگر گھریلو تشدد جیون ساتھی (سابقہ یا موجودہ) کے ہاتھوں ہو تو اسے آئی پی وی کہتے ہیں۔ امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق اس کی تعریف کچھ اس طرح ہے۔ ”کسی اس شخص کے خلاف جسمانی جنسی / یا نفسیاتی تشدد کا وہ طریق کار جس سے انتہائی قربت کا رشتہ (شوہر / بیوی، / گرل فرینڈ / بوائے فرینڈ) ہو۔ “

تشدد کی کئی شکلیں ہوتی ہیں۔ مثلا جسمانی تشدد (مار پیٹ، دھکا، تیزاب پھینک دینا، ناک کان کاٹ دینا وغیرہ) یا نفسیاتی (محکومانہ رویہ یا معاشی محرومی، سماج سے رابطہ منقطع کر کے تنہا کر دینا) یا جنسی خواتین یا پارٹنر کا تشدد، ان پر قابو پانے کا گھٹیا حربہ ہے جو عموما غیر شادی شدہ کے مقابلہ میں شادی شدہ میں زیادہ ہوتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2