داعش کی پاکستان پر نگاہیں


\"edit\"امریکہ میں اتوار کو دہشت گردی کے واقعہ میں ملوث عمر متین کی طرف سے داعش کے خلیفہ بغدادی کی بیعت کے اعلان کے بعد سے یہ بحث شدت اختیار کرگئی ہے کہ عراق سے شروع ہونے والی اور شام کی خانہ جنگی سے فائدہ اٹھا کر ان دونوں ملکوں کے وسیع علاقوں پر قابض ہو کر ’اسلامی خلافت‘ کا اعلان کرنے والی تنظیم اب الیکٹرانک ٹیکنالوجی اور شدت پسندانہ پروپیگنڈا کے زور پر دور دراز ملکوں میں ایسے ہمدرد پیدا کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے جو تن تنہا سنگین انسانی نقصان کرنے اور خوف اور دہشت کی فضا پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ گروہ پاکستان جیسے ملکوں سے ہمدرد اور فٹ سولجر بھرتی کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف ہے۔

پاکستان میں اگرچہ سرکاری طور پر اس بات کو سختی سے مسترد کیا جا تا ہے کہ داعش پاکستان میں اپنے پاؤں جما سکتی ہے۔ تاہم چند ماہ پہلے پنجاب سے داعش کے ہمدردوں کی گرفتاری کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ کراچی میں بھی ایسے عناصر سامنے آئے ہیں جو داعش کے فلسفہ اور نقطہ نظر سے متاثر ہیں۔ ایسی صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا داعش پاکستان میں بھی امریکہ کی طرز کا کوئی ایسا حملہ کروانے کی صلاحیت رکھتی ہے جس میں ایک خاص عقیدے یا گروپ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو نشانہ بنایا جائے ۔لیکن حملہ آور کسی باقاعدہ دہشت گروہ سے وابستہ ہونے کی بجائے آن لائن رابطوں کے ذریعے داعش کے خیالات سے متاثر ہؤا ہو اور اس ذریعے سے دہشت گردی کے طریقے سیکھ کر اس بات پر آمادہ ہو جائے کہ وہ اپنے ہی ہم وطنوں کو ایک لایعنی تصور کی خاطر نشانہ بنائے اور خود بھی ہلاک ہو جائے۔ حقیقت پسندانہ نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس کا امکان کافی زیادہ ہے۔ پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی صلاحیت اور آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کے باوجود اس بات کا امکان موجود ہے کہ ایسے عناصر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نوٹس میں آنے سے پہلے ہی نقصان پہنچا بیٹھیں ۔ پاکستان میں اس حوالے سے غور کرنے اور نوجوانوں کو ایسے آن لائن اثر و رسوخ سے محفوظ رکھنے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔

دنیا میں مختلف مقامات پر داعش کے زیر اثر جو المناک واقعات ہوئے ہیں، ان میں پاکستانیوں کے ملوث ہونے کے شواہد بھی سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ نومبر میں پیرس حملوں میں جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، ان میں ایک پاکستانی نوجوان بھی شامل ہے جو ان حملوں کی منصوبہ بندی میں ملوث تھا۔ اس حملہ کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ بعد میں اس بات کے شواہد بھی سامنے آچکے ہیں کہ بلجیم میں داعش کے ایک سیل نے ان حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی اور حملوں میں حصہ لیا تھا۔ اسی طرح دسمبر 2015 میں امریکہ کے علاقے سان برنارڈینو میں جو حملہ ہؤا تھا ، وہ اگرچہ ایک جوڑے کا انفرادی فعل تھا لیکن یہ دونوں بھی پاکستانی نژاد تھے۔ سید فاروق پاکستانی ماں باپ کے گھر امریکہ میں پیدا ہؤا تھا لیکن اس کی بیوی تاشفین ملک دو برس پہلے پاکستان سے امریکہ پہنچی تھی۔ وہ ملتان میں تعلیم کے دوران ایک مذہبی ادارے سے وابستہ رہی تھی اور یہ بات طے ہو چکی ہے کہ فاروق بیوی کے زیر اثر انتہا پسندانہ خیالات سے متاثر ہؤا۔ بالآخر یہ دونوں اس ذہنی سطح تک پہنچ گئے کہ انہوں نے معذورافراد کے ایک اجتماع پر حملہ کرکے 14 لوگوں کو مار دیا اور خود بھی پولیس مقابلہ میں مارے گئے۔

ان واقعات سے یہ سبق سیکھنا ضروری ہے کہ ملک کے اندر ایسے کون سے اقدامات کرنا ضروری ہے کہ ملک کے نوجوان اور خاص کر پڑھے لکھے نوجوان دہشت گرد گروہوں کے جھانسے میں نہ آئیں۔ اس مقصد کے لئے صرف سیکورٹی ایجنسیوں پر ذمہ داری ڈال کر مقصد حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا بلکہ اس کے لئے حکومت کو قومی ایکشن پلان کو حقیقی معنوں میں عملی جامہ پہنانا ہوگا تاکہ ایسے اداروں اور مزاج کی روک تھام کی جا سکے جو ایسا ذہن تیار کرتے ہیں جو بعد میں خونی انتہا پسندانہ فلسفے سے متاثر ہو کر انسانوں کو مارنے جیسا گھناؤنا فعل کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔

امریکہ میں اتوار کو ہونے والے سانحہ کے بعد کراچی کے ایک رجعت پسند اخبار نے یہ خبر دیتے ہوئے کچھ اس قسم کی سرخی جمائی تھی کہ ’ افغان نوجوان نے پچاس امریکی بھون دئے‘۔ اس فقرے میں شدت، نفرت اور انتہا پسندی کے لئے تحسین کا جو عنصر موجود ہے، وہی ہمارے ملک کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کا اصل سبب بن رہا ہے۔ پاکستان کے میڈیا، دانشوروں اور رہنماؤں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ جو آگ امریکہ یا یورپ میں لوگوں کو ہلاک کرسکتی ہے وہ پاکستان جیسے ملک میں اس سے کہیں زیادہ نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ستر ہزار کے لگ بھگ جانیں ضائع کرنے کے بعد ہمیں اس صورت حال کا زیادہ بہتر طور سے ادراک ہونا چاہئے۔

داعش نے کبھی اپنے اس ارادے کو پوشیدہ نہیں رکھا کہ وہ پاکستان اور دیگر اسلامی ملکوں میں قدم جمانا چاہتی ہے۔ افغانستان میں طالبان سے ناراض کچھ عناصر نے داعش کو منظم کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر اور پاکستان میں بھی داعش کے ہمدردوں کو منظم کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ اس قسم کے گروہ تو شاید سیکورٹی کنٹرول کے نتیجے میں پکڑے جا سکتے ہیں لیکن اگر معاشرے میں عام طور سے داعش کے خیالات اور نظریہ کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کا کام مؤثر طریقے سے نہیں ہو گا، تو اس بات کا شدید امکان ہے کہ یہاں بھی انفرادی طور پر دہشت گردی میں ملوث ہونے والے نوجوان تباہی پھیلانے کا سامان کرنے کے لئے تیار ہونا شروع ہو جائیں۔ حکومت کے علاوہ، دینی و سماجی تنظیموں اور اس موضوع پر مباحث میں شریک لوگوں کو صورت حال کی سنگینی اور حساسیت سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ان کی کوئی کمزوری ، غلط حکمت عملی یا غیر ذمہ دارانہ بیان، نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف مائل کرنے کا سبب نہ بنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments